• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بوجھو تو جانیں، ن لیگ حکومت کی ٹیکس ایمنسٹی لینے والے پی ٹی آئی وزیر

فخر درانی

اسلام آباد:… ن لیگ دورحکومت میں پی ٹی آئی کے 1 وفاقی وزیر نے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم لی تھی۔ان کی برطانیہ، دبئی اور ملائیشیا میں پانچ فلیٹس ہیں، مالیت 19کروڑ40لاکھ روپے سے زائد ہے۔وفاقی وزیر کا تعلق کراچی سے ہے انہیں گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کا شوق ہے۔وہ مختلف مواقع پر گن کے ساتھ بھی نظر آئے ہیں۔ خاص طور پر جب کراچی میں ایک قونصلیٹ پر واقعہ ہوا تھا تو وہاں پہنچے تھے۔

جب کہ بھارتی طیارہ گرانے کے مقام پر بھی وہ گئے تھے۔پانی کی کمی کے حوالے سے بہت باتیں کرتے ہیں۔تفصیلات کے مطابق،پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی)کے ایک اہم رہنما اور موجودہ وفاقی وزیر نے ن لیگ کے دور حکومت میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم 2018 سے فائدہ اٹھایا تھا اور برطانیہ، دبئی، ملائیشیا میں 19کروڑ40لاکھ روپے مالیت کی پانچ جائدادوں پر 58لاکھ روپے ٹیکس کی صورت میں ادا کیے تھے۔

ایف بی آر نے جمعرات کے روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو پی ٹی آئی اور ن لیگ کے ادوار میں متعارف کرائی جانے والی دو ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں سے متعلق تفصیلات بتائیں۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ کچھ سیاست دانوں نے بھی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھایا تھا۔

گزشتہ اور موجودہ حکومتوں نے 191 ارب پتی افراد کو 61اعشاریہ4 ارب روپے کا ٹیکس ریلیف فراہم کیا تھا۔تاہم، کمیٹی نے ٹیکس ایمنسٹی سے فائدہ اٹھانے والوں کے نام نہیں بتائے۔دستاویزات کے مطابق، جس کی نقل دی نیوز کے پاس موجود ہے۔ وفاقی وزیر نے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم،2018 سے فائدہ اٹھانے کے لیے پانچ جائدادیں ظاہر کی تھی۔

ان جائدادوں میں فلیٹ 177، کوڈرینگل ٹاور، کیمبرج اسکوائر، لندن ڈبلیو2 2پی جے، فلیٹ 2، 292 ایلگن ایونیو، لندن ڈبلیو 9 1جے ایس، فلیٹ 4، 19-20، ہائڈ پارک پلیس، لندن ڈبلیو2 2ایل پی، اٹلانٹک ٹاورز اپارٹمنٹ، نمبر 306، دبئی مرینا، دبئی اور ایل 17، 123، اور ایل 17، 125 ریزورٹ سوٹس، پائرامڈ ٹاور، سن وے ریزورٹ ہوٹل ایس ڈی این بی ایچ ڈی شامل تھے۔یہ جائدادیں وفاقی وزیر نے اپنے کاغذات نامزدگی برائے انتخابات،2018 میں پہلی مرتبہ ظاہر کی تھیں۔تاہم، جائدادوں کی خریدوفروخت سے متعلق برطانوی ویب سائٹ زوپلا کے مطابق، مذکورہ فلیٹس آخری مرتبہ 2007-2008 میں فروخت کیے گئے تھے۔

جس کا مطلب یہ ہوا کہ وفاقی وزیر کی ملکیت میں یہ فلیٹس 2007-2008 سے ہیں۔تاہم، انہوں نے اسے پاکستان میں ٹیکس حکام سے چھپائے رکھا۔انہوں نے یہ جائدادیں ظاہر کرنے کا فیصلہ اس وقت کیا جب وہ انتخابات میں حصہ لے رہے تھے اور ایسا بھی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے کیا گیا۔ ٹیکس ماہرین کے مطابق، اگر ان جائدادوں کا حساب مئی،2018 میں پاکستانی کرنسی میں لگایا جائے تو اس کی مالیت 21کروڑ98لاکھ4ہزار روپے بنتی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ وفاقی وزیر کی صرف ایک جائداد کی قیمت ان کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں ظاہر کردہ مکمل رقم سے زیادہ ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ وفاقی وزیر نے حقائق چھپائے اور ٹیکس چوری کی غرض سے جائدادوں کی قیمت کم بتائی۔دستاویزات کے مطابق، مذکورہ وزیر پاکستان میں 2004 سے رجسٹرڈ ٹیکس ادا کنندہ ہیں۔

تاہم، ان کے آن لائن ٹیکس ریکارڈ کے مطابق 2007 سے 2013 تک انہوں نے صفر ٹیکس ادا کیا۔اسی طرح ایف بی آر کی سالانہ ٹیکس اداکنندگان ڈائریکٹریز کے مطابق، انہوں نے 2012 سے 2015تک کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا۔2016 میں انہوں نے 4لاکھ 80ہزار 904روپے ٹیکس ادا کیا اور اپنا ذریعہ آمدن اسٹاک ایکسچینج بتایا۔جب کہ 2017 میں انہوں نے 40لاکھ 90ہزار 197 روپے ٹیکس ادا کیا ، جب کہ ذریعہ آمدن اسٹاک ایکسچینج ہی رہا۔

یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ وفاقی وزیر 2010 سے اب تک پاکستان میں رہائش پذیر ہیں۔ٹیکس ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر مذکورہ وزیر 2010 سے اب تک پاکستان میں رہائش پذیر ہیں تو وہ اپنی دنیا بھر کی آمدنی میں ٹیکس ادا کرنے کے پابند ہیں۔

وہ اس بات کے بھی پابند ہیں کہ وہ دنیا بھر کی جائدادیں ظاہر کریں۔اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو اس کا مطلب انہوں نے ٹیکس حکام کو گمراہ کیا ہےاور وہ ٹیکس چوری کے مرتکب ہوئے ہیں۔

وزیر کے ٹیکس ریکارڈ سے یہ بات بھی معلوم نہیں ہوتی کہ انہوں نے کوئی رقم پاکستان سے باہر بھجوائی ہو۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ انہوں نے منی لانڈرنگ کے ذریعے برطانیہ اور دیگر ممالک میں فلیٹس خریدے ہیں۔

رواں سال کے آغاز میں اس نمائندے نے مذکورہ وفاقی وزیر سے رابطہ کیا تھا اور انہیں تفصیلی سوال نامہ بھیجا تھاجو کہ ان کی بیرون ممالک جائدادوں سے متعلق تھا۔ تاہم انہوں نے کسی بھی سوال کا جواب نہیں دیا تھا۔

تازہ ترین