• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں صبح سے لے کر شام تک بغرض تحقیق لندن کی انڈیا آفس لائبریری میں بیٹھا کرتا تھا۔ میرے دائیں بائیں طلباء، محقق اور علم کے نایاب موتیوں کے متلاشی اپنے اپنے کام میں مگن ہوتے تھے۔ خاموشی کی اپنی زبان ہوتی ہے اور لائبریری کی خاموشی کی زبان تھی کام اور صرف کام۔ لنچ کے لئے اکثر لوگ کیفے ٹیریا میں آتے تھے یہی ایک جگہ تھی جہاں تعارف اور تبادلہ خیالات ہو سکتا تھا۔

کل عیدِ میلادالنبیﷺ کی ملک بھر میں پھیلی ہوئی ایمان افروز تقریبات ٹی وی اسکرین پر دیکھتے ہوئے مجھے یہ واقعہ بار بار یاد آتا رہا۔ بےشک ہم ہر سال عیدِ میلادالنبیﷺ بڑے جذبے، عشق اور جوش و خروش سے مناتے ہیں اور ہر سال اس میں نئی نئی ’’اختراعیں‘‘ کرتے ہیں۔ 

یہ اختراعیں یا میلادِالنبیؐ منانے کے نئے نئے انداز دراصل ہماری باطنی محبت، حبِ رسولﷺ یا عشقِ رسولﷺ کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ اس عشق کی ہی مختلف جہتیں ہیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ عشقِ رسولﷺ کے بغیر مسلمانی کے تقاضے ہی پورے نہیں ہوتے اور جب تک نبی کریمﷺ سے اپنی ذات اور اپنے والدین سے بڑھ کر محبت نہ کی جائے انسان صحیح معنوں میں مسلمان کہلانے کا حقدار ہی نہیں ہوتا۔ 

عیدِ میلادالنبیﷺ پر میں ہر سال اسی عشق کے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اظہار کے انداز دیکھتا ہوں جن سے آنکھوں میں ٹھنڈک اور قلب میں اطمینان، مسرت کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ پُرانے زمانے میں صرف ذکر و اذکار، مقابلۂ نعت، چراغاں اور چھوٹے چھوٹے جلوسوں کی بہار عیدِ میلادالنبیؐ کا تقاضا سمجھی جاتی تھی۔ 

کچھ برس قبل کیک بنانے اور ’’کیکوں‘‘ کی لمبائی چوڑائی کے مقابلے اور کیک کاٹنے کی تقریبات عیدِ میلادالنبیؐ کا جشن بن کر رہ گئی۔ اس بار ٹی وی اسکرین پر دو سو من حلوہ کی تیاری اور تقسیم چھائی ہوئی تھی۔ میرا دل اس خیال سے باغ باغ ہو رہا تھا کہ اس مبارک تقریب کی برکت سے سینکڑوں غرباء کو مزیدار حلوہ نصیب ہو گا، سینکڑوں کو ایسے کیک نصیب ہوں گے جن کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے اور لاکھوں کو کھانا ملے گا۔

بلاشبہ یہ سب حبُ رسولﷺ یا عشقِ رسولﷺ کی علامتیں ہیں۔ حُبِ رسولﷺ ہماری زندگی کا سب سے بڑا اور سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ یہ سوچتے سوچتے اچانک ذہن میں یہ سوال ابھرا کہ کیا ان ’’اظہاریوں‘‘ سے عشقِ رسولﷺ کے تقاضے پورے ہو جاتے ہیں؟ کیا یہ تقریبات، کیک مقابلے اور منوں حلوے بنانے اور ٹی وی پر مناظر دکھانے سے سچے عشق رسولﷺ کی تسکین ہو جاتی ہے؟ یہ محض نمائشی کارنامے تو نہیں، دکھاوے کا مقابلہ تو نہیں، معاشرے میں ’’ٹوہر‘‘ اور مصنوعی عزت کمانے کے طریقے تو نہیں؟ 

یاد کیجئے عید الضحیٰ کے موقع پر قیمتی سے قیمتی بکروں، بیلوں، اونٹوں اور جانوروں کے مقابلے، اُن کی سجاوٹیں اور اُن سے احساسِ برتری یا معاشرتی عزت کشید کرنا...!! کیا ہم عید الضحیٰ کی قربانی کے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھی کے مانند موٹے نفس کی بھی قربانی کرتے ہیں؟ 

کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم پاکستانی مسلمان مذہب کی اصل روح کو بھُلا کر محض نمائشی اظہاریوں، تقریبات اور ایک دوسرے سے سبقت لینے کی آرزو یا فریب میں کھو گئے ہیں؟

میں اسی سوچ کے ادھیڑ بن میں الجھا ہوا تھا اور اس الجھائو سے نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا تھا کہ مجھے لندن آفس لائبریری میں تحقیق کرنے والا وہ نوجوان انگریز یاد آ گیا جس سے دہائیوں قبل ملاقات ہوئی تھی۔ لنچ کے وقفے کے دوران ہم کیفے ٹیریا میں بیٹھے تھے کہ وہ اپنی نشست چھوڑ کر میرے پاس آن بیٹھا۔ ت

عارف ہوا تو پتا چلا کہ وہ انگلستان کی ایک نامور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہا تھا اور اس کے مقالے یا تھیسس کا عنوان تھا ’’عالمی مذاہب کا مطالعاتی موازنہ‘‘ وہ پاکستان میں بھی کچھ عرصہ گزار کر گیا تھا۔ 

بات چیت شروع ہوئی تو اُس نے مجھ سے اسلامی تعلیمات کے حوالے سے سوالات پوچھے۔ اس کی گفتگو سے اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ اُس نے قرآن حکیم، حدیث اور چند ایک بڑے مسلمان اسکالرز کی کتابوں کا مطالعہ کر رکھا ہے۔ 

میں نے پوچھا تم پاکستان، ہندوستان اور عرب ممالک کو کھلی آنکھوں اور کھلے ذہن سے دیکھ چکے ہو۔ تمہیں سب سے زیادہ کس پہلو نے متاثر کیا؟ وہ ایک دم سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور بلا سوچے سمجھے کہنے لگا ’’میرے اب تک کے مطالعے کے مطابق مسلمانوں اور اسلام کی بقاء اور اسلام کا پھیلائو عشقِ رسولﷺ میں مضمر ہے۔ 

باقی مذاہب اور ادیان میں میں نے اپنے نبی یا پیغمبر کے لئے وہ محبت اور جذبہ نہیں دیکھا جو مسلمانوں میں موجزن نظر آتا ہے۔ مسلمانوں کی اپنی ذات سے بڑھ کر اپنے نبیﷺ سے محبت یا عشق اسلام کا مضبوط ترین پہلو ہے اور تمہارے دین کی بقاء کا ضامن ہے۔

پھر گفتگو کا رُخ اُن جذبوں کی طرف مڑ گیا جن کا مختلف انداز سے اظہار مذہبی تہواروں پر ہوتا ہے۔ عیدِ میلادالنبیﷺ کے جوش و جذبہ کا ذکر ہوا تو اس نے چشم کشا تبصرہ کیا۔ کہنے لگا کہ مجھے ان مواقع پر ہمیشہ احساس ہوا کہ اکثر و بیشتر مسلمانوں کا عشقِ رسول ﷺ سطحی ہے۔ 

یہ سچا عشق نہیں کیونکہ اگر ان کا عشق سچا ہو تو وہ سیرت النبیﷺ کا بغور مطالعہ کریں اور اُسے اپنی ذات پر نافذ کرنے کی کوششیں کریں۔ اتباع رسولؐ پر حد درجہ زور دیا جاتا ہے لیکن اکثر مسلمانوں کی عملی زندگیوں میں اس کی جھلک نظر نہیں آتی۔ 

اگر اُن کا عشق سچا ہو تو وہ حسن سلوک کا بہترین نمونہ ہوں، جھوٹ، دھوکہ، منافع خوری، شراب و زنا، منافقت، حسد و کینہ، قتل و غارت وغیرہ وغیرہ کا مسلمان معاشروں سے نام و نشان مٹ جائے، عدل و انصاف، احترامِ انسانیت، ہمدردی، قانون کی پابندی، سچائی، مساوات اور ایثار وغیرہ مسلمان معاشروں کی پہچان بن جائیں۔ 

میں نے مسلمان معاشروں کو اُس کے برعکس پایا۔ اس لئے میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ آپ لوگوں کی اپنے نبی ﷺ سے محبت سطحی ہے سچی نہیں....!! کل ٹی وی پر عیدِ میلادالنبیﷺ کی تقریبات اور روح پرور مناظر دیکھتے ہوئے مجھے اس انگریز کے الفاظ پریشان کرتے رہے۔

تازہ ترین