• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دھرنا ہونا تھا اور ہو گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ دھرنا کس طرح ختم کیا جائے؟ جو بھی درمیانی راستہ نکالا جائے یا فیس سیونگ دی جائے گی اس میں کچھ چیزیں تو یقیناً شامل نہیں ہوں گی، (1)وزیراعظم کا استعفیٰ نہیں ہوگا۔ (2)نئے انتخابات نہیں ہوں گے۔ لیکن مولانا فضل الرحمٰن کا ’’آزادی مارچ‘‘ ابھی تک ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔ گزشتہ روز تیز ہوائیں چلیں، بادل بھی برسے، سردی کی شدت میں اضافہ ہوا، ’’دھرنا نشینوں‘‘ کی مشکلات بڑھ گئیں لیکن وہ مولانا فضل الرحمٰن کے اشارے کا انتظار کرتے رہے۔ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ حکومتی کمیٹی وزیر دفاع پرویز خٹک کی زیر قیادت رہبر کمیٹی کے ارکان سے بات چیت میں لگی ہوئی ہے۔ رہبر کمیٹی کے کنوینر اکرم درانی اعلان کرتے ہیں کہ ہم اپنے مطالبات پر قائم ہیں اور وزیراعظم کا استعفیٰ پہلے نکتے پر ہے تو ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے پرویز خٹک بھی شہادت دیتے ہیں کہ فریقین اپنے اپنے مؤقف پر قائم ہیں۔ کسی ایسے حل کی تلاش جاری ہے جس سے دھرنے کو فیس سیونگ مل جائے اور حکومت کا بھی نقصان نہ ہو۔ ایک کے بعد دوسرے دور پر اتفاق کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی فریق بات چیت کا دروازہ بند نہیں کرنا چاہتا۔ مذاکراتی کمیٹیوں کے ساتھ ساتھ مولانا فضل الرحمٰن اور چوہدری برادران کے درمیان بھی بات چیت شروع ہے۔ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی، چوہدری ظہور الٰہی شہید کے سیاسی جانشین (علی الترتیب بیٹے اور بھتیجے) ہیں۔ مرحوم چوہدری صاحب اور مولانا فضل الرحمٰن کے والد مولانا مفتی مرحوم کی سیاست برسوں ہم سفر رہی۔ مولانا فضل الرحمٰن کے نزدیک ان کی اور ان کے نزدیک مولانا کی قدر و قیمت واضح ہے۔ مولانا ان سے ملنے کے لئے بنفسِ نفیس ان کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے۔ معلوم ہوا کہ چوہدری شجاعت کی طبیعت ناساز ہے تو انہوں نے خود پیش قدمی کر لی۔

مولانا وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے پر ڈٹے ہوئے ہیں، انہوں نے دھرنا کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دھاندلی ثابت ہو چکی ہے۔ اس استدلال سے واضح ہوتا ہے کہ انہیں اپنے مؤقف کے بارے میں اٹھائے جانے والے اس سوال کا جواب دینے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے، جس میں پہلے انتخابی دھاندلی کو ثابت کرنے کا تقاضا کیا جاتا ہے۔ مولانا نے اپنی تقریر میں الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے حوالے سے اپنے موقف میں وزن پیدا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن معاملہ کسی ایک، دو یا چار حلقوں کا نہیں منظم دھاندلی کا ہے۔ انتخابات تو اسی وقت کالعدم ہو سکیں گے، جب یہ منوا لیا جائے کہ کسی شخص (یا عنصر) نے باقاعدہ منصوبہ بنا کر نتائج کو الٹ ڈالا ہے۔ عمران خان تحریک انصاف کے چیئرمین کے طور پر جب انتخابی دھاندلی کا الزام لگا رہے تھے تو ابتدا میں ان کا مطالبہ چار حلقوں کو کھولنے کا تھا۔ جب بالآخر اس حوالے سے کمیشن قائم ہو گیا تو اس کا مینڈیٹ یہ تھا کہ ’’منظم دھاندلی‘‘ کا سراغ لگائے۔ 22کروڑ کے ملک میں جہاں ہزاروں پولنگ اسٹیشن قائم ہوتے اور ان میں ووٹ ڈالے جاتے ہیں، وہاں 2، 4، 10اور 20نشستوں پر دھاندلی کے امکانات بہرحال موجود رہتے ہیں۔ اسی لیے انتخابی قوانین میں عدالتی ٹربیونل بنانے کی ضرورت تسلیم کی جاتی ہے تاکہ پیدا ہونے والی شکایات کا ازالہ کیا جا سکے۔ اگر چند نشستوں پر دھاندلی ثابت ہو جائے، اور مقامی افراد یا الیکشن کمیشن کا عملہ اس میں ملوث پایا جائے تو بھی پورے ملک میں ہونے والے انتخابات کی نفی نہیں کی جا سکتی۔ باقاعدہ منظم دھاندلی کے شواہد کے بغیر انتخابی عمل کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے ہم خیال رفقا سے بار بار یہ سوال کیا جاتا ہے اور اس میں مزید وزن اس وقت پیدا ہو جاتا ہے، جب مولانا کے دائیں بائیں کھڑے اپوزیشن رہنما اسمبلیوں میں ابھی تک براجمان نظر آتے ہیں۔ آزادی مارچ و دھرنے میں بھلے لاکھوں افراد شریک ہوئے ہوں، ان کی تعداد تحریک انصاف اور ڈاکٹر طاہر القادری کی ’’دھرنیوں‘‘ سے بہت زیادہ ہو، وزیراعظم عمران خان کی معاشی اور سیاسی پالیسیوں پر بھی جتنی پُرزور تنقید کر لی جائے، اس سب کو وزیراعظم کے استعفے کا جواز کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ یہ تسلیم کہ وزیراعظم سے استعفیٰ مانگنا غیر آئینی نہیں ہے، یہ بھی تسلیم کہ نئے انتخابات کا مطالبہ بھی خلافِ دستور نہیں ہے، اس مقصد کے لیے دھرنا دیا جا سکتا ہے، مارچ بھی کیا جا سکتا ہے لیکن بات زبردستی منوائی نہیں جا سکتی۔ صد شکر کہ مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے کے شرکا کا نظم و ضبط مثالی ہے اور وہ پُرامن انداز میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔

تازہ ترین