میزبان:محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
رپورٹ:طلعت عمران
عکّاسی: اسرائیل انصاری
پی ٹی آئی کی حکومت آنے کے بعد سے روپے کی قدر گرنے اور افراطِ زر اور شرحِ سود میںتیزی سے اضافے کی وجہ سے معیشت کا حجم سکڑتا جا رہا ہے۔ کاروباری سرگرمیوں میں کمی، نیب کی فعالیت،ٹیکس اصلاحات اور پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کے سبب عوام کے ساتھ کاروباری طبقہ بھی خاصا مضطرب ہے۔ گزشتہ دنوں اپنی مشکلات سے آگاہ کرنے اور حکومت کے مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں جاننے کے لیے ملک کے معروف صنعت کاروں نے جی ایچ کیو، راولپنڈی میں آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ اور حکومت کی معاشی ٹیم سے ملاقات کی۔
اس کے اگلے ہی روز کاروباری برادری کے نمائندہ وفد نے وزیرِ اعظم، عمران خان سے ملاقات کی اور ان کے سامنے اپنی شکایات رکھیں۔ آرمی چیف اور وزیرِ اعظم پاکستان سے ملاقات کرنے والے چیدہ چیدہ صنعت کاروں میں ملک کی معروف کاروباری شخصیت اور ماہر معیشت، عارف حبیب بھی شامل تھے۔ گزشتہ دنوں ہماری ان سے خصوصی بات چیت ہوئی۔ ذیل میں ان سے ہونے والی خصوصی گفتگو پیش کی جا رہی ہے۔
جنگ :گزشتہ دنوں آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ نے کم و بیش 25صنعت کاروں کو طلب کیا تھا۔ ان صنعت کاروں میں آپ بھی شامل تھے۔ اس موقع پر آرمی چیف نے معیشت کے حوالے سے کن خیالات کا اظہار کیااور ان سے کاروباری برادری کتنی مطمئن ہے؟
عارف حبیب :آرمی چیف نے ملک کی چیدہ چیدہ کاروباری شخصیات کو جی ایچ کیو طلب کیا تھا اور یہ ملاقات کئی گھنٹے تک جاری رہی۔ اس موقع پر ان کے ساتھ حکومت کی معاشی ٹیم کے ارکان، عبدالحفیظ شیخ، حماد اظہر اور شبر زیدی بھی موجود تھے۔
آرمی چیف نے سرمایہ کاروں کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ملکی معیشت کو اس نہج تک پہنچانے کے فوج اور صنعت کاروں سمیت تمام طبقات ذمے دار ہیں۔ تاہم، اب ہمیں لکیر پیٹنے کے بہ جائے مستقبل میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ ہمیں معیشت کا پہیہ تیز کرنے کی ضرورت ہے۔
صنعت کاروں کو جتنی زیادہ سہولتیں میسر ہوں گی، وہ اتنی آسانی سے کاروبار کر سکیں گے۔ اس کے نتیجے میں حکومت کی آمدنی میں بھی اضافہ ہو گا اور کاروبار کے مواقع بڑھیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آپ یہاں اپنے مسائل سے آگاہ کریں اور میں پالیسی میکرز کو یہ تجویز دوں گا کہ وہ آپ کے مسائل حل کریں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تمام کاروباری افراد باقاعدگی سے ٹیکسز ادا کریں۔ گرچہ بڑے بڑے صنعت کار شفاف انداز سے کاروبار کرتے ہیں، لیکن چھوٹے کاروباری افراد ٹیکسز ادا نہیں کرتے۔ تاہم، تمام کاروباری افراد کو چاہیے کہ وہ باقاعدگی سے ٹیکسز ادا کریں اور سی ایس آر کے تحت سرکاری اسپتالوں اور تعلیمی اداروں میں بھی اپنا حصہ ڈالیں۔
ملاقات کے دوران آرمی چیف نے سرمایہ کاروں کا حوصلہ بڑھایا، ان کا کہنا تھا کہ ملکی معیشت کو اس نہج پر پہنچانے کے ہم سب ذمے دار ہیں اور اب مستقبل میں بہتری لانے کی ضرورت ہے، اس موقع پر صنعت کاروں نے نیب کے خوف،تعمیراتی شعبے کی بحالی، ری فنڈزاور ایکسل لوڈ کا معاملہ اٹھایا، اس کے علاوہ شرحِ سود اور کاروباری لاگت میں کمی پر بھی بات کی،شرحِ سود میں کمی لائی جائے، تو سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو گا
جنگ :آرمی چیف سے ملاقات کے دوران سرمایہ کاروں نے کن خیالات کا اظہار کیا؟
عارف حبیب :صنعت کاروں نے سب سے پہلا اور اہم نکتہ یہ اٹھایا کہ نیب سے لاحق خوف کا کوئی حل نکالا جائے۔ بزنس کمیونٹی کا یہ بھی کہنا تھا کہ تعمیراتی شعبے کی مدد کی جائے، کیوں کہ اس سے دیگر کئی شعبے منسلک ہیں۔ ایکسپورٹرز کو بر وقت ری فنڈز فراہم کیے جائیں۔ ری فنڈ کی مد میں جاری کیے گئے بانڈز کو بینک ایبل اور مارکیٹ ایبل بنایا جائے۔ علاوہ ازیں، ایکسل لوڈ کا مسئلہ حل کیا جائے۔ صنعت کاروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ تعلیمی ادارے گود لینے اور انہیں چلانے پر آمادہ ہیں۔ تاہم، رئیل اسٹیٹ میں سہولت فراہم کی جائے اور شرحِ منافع کو کم کیا جائے۔ پھر کاروبار پر آنے والی لاگت میں کمی لائی جائے۔
اس موقع پر حکومت کی معاشی ٹیم کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ آئی ایم ایف نے تمام شرائط پہلے ہی سے لاگو کر دی ہیں، جس کے نتیجے میں افراطِ زر میں اضافہ ہوا اور اسی وجہ سے عوام پریشانی میں مبتلا ہیں۔ تاہم، اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مشکلات پہلے گزر گئیں اور ہماری توقع سے زیادہ جلدی معیشت بحال ہو رہی ہے۔
مستقبل قریب میں افراطِ زر اور منافع کی شرح بھی کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ معیشت کی رفتار اتنی بھی کم نہیں، جتنا کہ بزنس کمیونٹی ظاہر کر رہی ہے۔ تاہم، ہم اسے سہولتیں دینے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ معمول کے مطابق کاروباری سرگرمیاں شروع ہو جائیں۔ اس دوران نیب کے حوالے آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ان کے پاس تین راستے ہیں۔
جہاں تک نیب قانون میں تبدیلی کی بات ہے، تو وہ اس لیے نہیں کیے جا سکتے کہ پارلیمنٹ میں حکومت کو مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں اور پھر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سخت مخاصمت بھی پائی جاتی ہے۔ البتہ نیب قواعد و ضوابط میں تبدیلی زیرِ غور ہے۔ تیسرا راستہ یہ ہے کہ ہم ایک کمیٹی تشکیل دیں، جس میں کاروباری افراد اور حکومتی ارکان شامل ہوں۔ پھر صنعت کاروں کے مسائل ایک پیرنٹ کمیٹی کے سامنے پیش کیے جائیں گے اور اتفاق ہونے کی صورت میں ان میں پیش رفت کی جائے گی۔ پھر رئیل اسٹیٹ پر فکسڈ ٹیکس لاگو کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
یہ بھی کہا گیا کہ بانڈز پر اسٹیٹ بینک سے بات ہو گئی ہے اور چند روز میں انہیں بھی بینک ایبل کر دیا جائے گا۔ ایکسل لوڈ کے حوالے سے آرمی چیف کا کہنا تھا کہ گاڑیوں پر زیادہ وزن لادنے کی وجہ سے سڑکوں کی مرمت پر آنے والی لاگت بڑھ گئی ہے۔ البتہ انہوں نے ہمارے توجہ دلانے پر ایکسل لوڈ کا مسئلہ حل کر دیا۔ اس موقع پر صنعت کاروں کا آرمی چیف سے کہنا تھا کہ وہ وقتاً فوقتاً خود ہی اس قسم کی میٹنگز کا انعقاد کریں اور اس بات کا جائزہ لیں کہ آیا مذکورہ بالا مسائل کا حل نکلا ہے یا نہیں۔ اس پر آرمی چیف کا کہنا تھا کہ حکومت کی معاشی ٹیم آپ سے مستقل رابطے میں رہے گی اور اس ضمن میں کمیٹی بھی بنا دی گئی ہے۔
جنگ :اس موقع پر شرحِ سود کے حوالے سے ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کا کیا کہنا تھا؟
عارف حبیب: ان کا کہنا تھا کہ اس میں کمی لائی جانی چاہیے۔
جنگ:کیا نیب کے حوالے سے آپ کی بھی شنوائی ہوئی؟
عارف حبیب: جی بالکل۔ اس سلسلے میں نیب نے ایک کمیٹی بنانے کا اعلان کیا ہے۔
جنگ :کیا یہ مسائل حل ہونے سے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے؟
عارف حبیب :جی بالکل۔ میں یہاں یہ واضح کر دینا ہوں کہ آرمی چیف سے ملاقات میں صنعت کار پھٹ نہیں پڑے، بلکہ یہ ایک پارٹنر میٹنگ تھی۔ اس کے اگلے ہی روز ہماری وزیرِ اعظم، عمران خان سے ملاقات ہوئی۔ یہ بزنس کمیونٹی کی ان سے دوسری ملاقات تھی۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ جب تک صنعت کاروں کے مسائل حل نہیں ہوتے، ہر ماہ ہی میٹنگ منعقد کی جائے گی اور اس دوران گزشتہ ملاقات میں طے پانے والے امور کا جائزہ لیا جائے گا۔
اس ملاقات میں انہوں نے نیب کے حوالے سے کمیٹی بنانے کا اعلان کیا۔ اسی طرح بانڈز کا دورانیہ تین برس مقرر کر دیا گیا اور اس کا پرافٹ ریٹ کارپوریٹ بیسڈ ہو گا۔ یہ بانڈز تین برس بعد ٹیکس لائبلٹی کے عوض جمع کروائے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایکسل لوڈ بھی زیرِ غور آیا۔
جنگ :صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات کاروبار اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار نہیں۔ اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
عارف حبیب :روپے کی قدر میں گراوٹ اور شرحِ سود میں اضافے کی وجہ سے حال ہی میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی لاگت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے، جس کی وجہ سے وہ پریشان ہیں۔ پھر ان وجوہ کی بنا پر عوام کی قوتِ خرید میں بھی کمی واقع ہوئی، جس کے سبب معیشت کی رفتار کم ہو گئی۔ مثال کے طور پر محمد علی ٹبہ کی لکی سیمنٹ کا شیئر ایک ہزار سے تجاوز کر گیا تھا ۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کی ویلیو 300ارب ہو گی اور روپے کی قدر گرنے کی وجہ سے یہ 70کروڑ رہ گئی ۔ لہٰذا، سرمایہ کاروں کا غصہ بجا ہے اور زیادہ سرمایہ کاری کرنے والے زیادہ پریشان ہیں۔ ان سرمایہ کاروں کو بینک سے لیے گئے قرضوں کی اقساط بھی واپس کرنی ہیں، جو روپے کی قدر میں گراوٹ کے بعد کافی حد تک بڑھ گئی ہیں۔
جنگ :ملکی معیشت کی بحالی کے لیے کتنا وقت درکار ہے۔ حکومت کا ماننا ہے کہ اس میں مزید تین برس لگیں گے؟
عارف حبیب :ہمارے دو بڑے مسائل تھے۔ رواں تجارتی خسارہ اور بجٹ خسارہ۔ جہاں تک بجٹ خسارے کی بات ہے، تو نوٹ چھاپ کر ہم اس پر قابو پا سکتے ہیں، لیکن ہم ڈالرز نہیں چھاپ سکتے۔ البتہ رواں خسارے میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2018ء میں جو خسارہ 20ارب ڈالرز تھا، وہ 2019ء میں کم ہو کر 13ارب ڈالرز پر آ گیا۔ رواں مالی سال میں اس میں مزید کمی واقع ہو رہی ہے اور اسی وجہ سے ہمارے روپے کی قدر بھی مزید کم نہیں ہو رہی اور اس میں استحکام آ گیا ہے۔ یعنی جو ہونا تھا، وہ ہو گیا۔
البتہ اس کے نتائج سامنے آنے میں وقت لگے گا۔ پھر آئی ایم ایف کی وجہ سے بھی بہت سے معاملات میں نظم و ضبط پیدا ہوا ہے۔ گرچہ عوام پر بوجھ پڑا ہے، لیکن حکومت کے اپنے مالی معاملات میں بہتری واقع ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی بڑھے گا۔ علاوہ ازیں، ملک میں جلد ہی بیرونی سرمایہ کاری کی آمد بھی متوقع ہے۔ اس وقت شرحِ سود زیادہ ہے۔ اگر اس میں کمی واقع ہونا شروع ہو جائے، تو سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھنا شروع ہو جائے گا اور وہ نئی سرمایہ کاری کے بارے میں سوچنے لگے گا۔ تاہم، اس وقت سرمایہ کاروں نے خود کو محدود کر لیا ہے۔
جنگ :مشینری اور کیمیکلز کی درآمدات میں 17فیصد کمی واقع ہوئی ہے، تو کیا اس کی وجہ سے ہماری صنعتوں پر منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے؟
عارف حبیب:آٹو موبلز، کسٹمرز گڈز اور سروسز میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے۔ رواں تجارتی خسارہ کم کرنے کے لیے درآمدات کم کرنا اس لیے ترجیحی انتخاب نہیں ہوتا کہ درآمدات کم ہونے کی وجہ سے ریونیوز کم ہو جاتے ہیں اور ٹیکس اہداف پورے نہیں ہو پاتے۔ چیئرمین ایف بی آر کا بھی یہی کہنا ہے کہ درآمدات کم ہونے کی وجہ سے انہیں نقصان پہنچا۔ تاہم، ہنگامی صورتِ حال میں اس کا انتخاب کیا جا سکتا ہے کہ کہیں معیشت کا دیوالیہ ہی نہ نکل جائے۔ البتہ برآمدات اور ترسیلاتِ زر میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔ انہیں بہتر کرنا ہو گا اور اسی کے نتیجے میں حقیقی بہتری واقع ہو گی۔
جنگ :ایسے اقدامات کیوں نہیں کیے جا رہے کہ جن کی وجہ سے پاکستانی تارکینِ وطن پاکستان میں سرمایہ کاری کی جانب راغب ہوں اور ہم ڈالرز حاصل کر سکیں، چاہے وہ بانڈز ہی کی شکل میں کیوں نہ ہو؟
عارف حبیب :اس وقت ہمارے ہاں شرحِ منافع زیادہ اور بیرونِ ملک کم ہے، لہٰذا پاکستانی تارکینِ وطن نے بانڈز میں کچھ دلچسپی لینا شروع کی ہے۔ اس حوالے سے ٹیکسز میں کچھ تبدیلیاں لائی گئی ہیں اور اب وہ اس طرف آنا شروع ہو گئے ہیں۔ دو، چار بلین ڈالرز تک تو ٹھیک ہے، لیکن حد سے زاید ہاٹ منی کی آمد ٹھیک نہیں ہوتی، کیوں کہ اس کی وجہ سے دبائو بڑھ جاتا ہے۔
اب جہاں تک غیر ملکی سرمایہ کاروں کی بات ہے، تو بد قسمتی سے بیرون ملک پاکستان کا تاثر اس قدر خراب ہو چکا ہے کہ انہوں نے پاکستان میں دلچسپی لینا چھوڑ دی ہے اور انہیں لانے میں ہمیں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس وقت اندرونی عدم استحکام کے علاوہ پڑوسی ممالک سے بھی ہمارے تعلقات کشیدہ ہیں، لہٰذا ہمیں پاکستان کا امیج بہتر کرنے کے لیے سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا میں پاکستان کا امیج بہتر کرنے کے لیے وزیرِ اعظم، عمران خان اچھی کوششیں کر رہے ہیں اور کچھ عالمی طاقتیں بھی ان کے ساتھ ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے لائن آف کنٹرول پار نہ کرنے کے حوالے سے جو بیان دیا ، اس کی بھی پزیرائی ہوئی ہے۔
جنگ :پی ٹی آئی کی حکومت نے آتے ہی 50لاکھ گھروں کی تعمیر اور ایک کروڑ نوکریاں دینے کا اعلان کیا تھا، لیکن ابھی تک اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
عارف حبیب :یہ ایک بہت اچھا تصور ہے، لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو پا رہا۔ حکومت کو اس سلسلے میں تیزی سے پیش رفت کرنا ہو گی۔ گرچہ اس حوالے سے اکا دکا کوششیں ہو رہی ہیں، لیکن وہ ناکافی ہیں۔ پھر اس سلسلے میں صوبائی حکومت کو بھی وفاق کو مدد فراہم کرنا ہو گی، وگرنہ اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا۔
لہٰذا، وفاق کو سندھ حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کرنے چاہئیں، کیوں کہ انہیں اس کی ضرورت ہے۔ بیان بازی کے بہ جائے وفاق کو آگے آنا ہو گا۔ یعنی وفاقی حکومت کو سیاسی انتقام کے بہ جائے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
جنگ :موجودہ حکومت کے برسرِ اقتدار آنے سے پہلے پاکستان کی شرحِ نمو میں اضافہ ہو رہا تھا اور تمام عالمی مالیاتی ادارے ہماری معاشی کارکردگی کی تعریف کر رہے ہیں، لیکن نئی حکومت بننے کے بعد جی ڈی پی سمیت تمام معاشی اشاریوں میں گراوٹ آنے لگی۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ نیز، اگر ہمارا جی ڈی پی گروتھ 2.4فی صد تک پہنچ جاتا ہے، تو اس کے ملکی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
عارف حبیب :پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہونے سے قبل ہماری جی ڈی پی کی شرحِ نمو 5فی صد سے بھی تجاوز کر گئی تھی، لیکن جب یہ حکومت آئی اور اس نے معیشت کی تباہ حالی کا بار بار ذکر کیا، تو لوگوں نے اس بات پر یقین کرنا شروع کر دیا۔ اس پر حکومت نے کہا کہ اتنی بری صورتِ حال بھی نہیں ہے۔ تاہم، لوگوں نے یہ بات ماننے سے انکار کر دیا۔ پھر آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد شروع ہو گیا، تو اس کے نتیجے میں لوگوں کے مفادات پر ضرب پڑی اور وہ چیخنے لگے۔
یاد رہے کہ اسٹیبلائزیشن کے مرحلے میں معاشی ترقی رک جاتی ہے، کیوں کہ سرمایہ کار ہاتھ کھینچ لیتا ہے۔ تاہم، میرا ماننا ہے کہ پاکستان کی معیشت کا مستقبل بلند شرحِ نمو سے وابستہ ہے۔ یاد رہے کہ ہم اپنا قرضہ کم نہیں کر سکتے، لیکن اس کے مقابلے میں اپنی جی ڈی پی میں تیزی سے اضافہ کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی روزگار کے مواقع بھی بڑھیں گے۔ لہٰذا، بلند شرحِ نمو ہی ہماری معیشت کو بچا سکتی ہے اور اس کے ساتھ ہمیں اپنے تجارتی خسارے میں بھی کمی لانا ہو گی۔
اس وقت کئی ایسے ممالک ہیں کہ جن کے قرضے جی ڈی پی کے ایک سو فی صد سے بھی زیادہ ہیں اور ان میں جاپان جیسا ملک بھی شامل ہے۔ اب یہ اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے شرائط میں نرمی کی درخواست کی ہے، تاکہ شرحِ نمو میں کچھ بہتری آئے۔
جنگ: جی ڈی پی کی شرحِ نمو میں اضافے کے لیے کیا اقدامات کرنا ہوں گے؟
عارف حبیب :اس مقصد کے لیے شرحِ سود میں کمی لانا ہو گی۔ جب جی ڈی پی میں اضافہ ہو گا، تو تجارتی سرگرمیاں بھی بڑھیں گی۔ اس کی وجہ سے حکومت کو ٹیکسز بھی زیادہ ملیں گے اور قرضوں میں بھی کمی واقع ہو گی۔
جنگ :کیا مستقبل میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مزید کمی واقع ہو گی یا یہ مستحکم رہے گا؟
عارف حبیب :رئیل ایکسچینج ریٹ کا فارمولا یہ ہے کہ مختلف ممالک کی افراطِ زر کی شروح کے درمیان موازنہ کیا جاتا ہے اور جس ملک میں افراطِ زر کی شرح زیادہ ہوتی ہے، اس کی کرنسی کی قدر میں زیادہ گراوٹ واقع ہوتی ہے۔ ہماری کرنسی کی قدر کو7فی صد زیادہ کم کیا گیا ہے۔ ہمیں مستقبل میں مزید 6سے7فی صد کمی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
جنگ :روپے کی قدر میں کمی کے باوجود برآمدات میں اضافہ کیوں نہیں ہوا؟
عارف حبیب :توانائی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے برآمداتی مصنوعات پر آنے والی لاگت بڑھ گئی ہے اور منافع کی شرح کم ہو گئی ہے۔ اس کی وجہ سے برآمدات میں اضافہ نہیں ہوا۔ تاہم، ابھی حکومت نے ایکسپورٹرز کو سہولتیں فراہم کی ہیں۔ ہم سب کو برآمدات میں اضافے پر توجہ دینی چاہیے، کیوں کہ یہ صرف حکومت کا نہیں، بلکہ پوری قوم کا مسئلہ ہے۔
جنگ :رواں مالی سال میں ایف بی آر نے ٹیکس وصولی کا ہدف 5500ارب روپے مقرر کیا ہے۔ اگر یہ ہدف حاصل نہ ہو سکا، تو کیا ہو گا؟
عارف حبیب: ایسی صورت میں حکومت کو مزید قرض لینا پڑے گا۔ مگر اس ہدف کا آئی ایم ایف کی شرائط سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ ابتدائی خسارہ 0.6فی صد ہونا چاہیے۔ پہلی سہہ ماہی کے اعداد و شمار دیکھے جائیں، تو فی الوقت ایف بی آر ٹھیک جا رہا ہے۔ اسی طرح حکومت آئی ایم ایف کی دوسری شرائط پر بھی عمل درآمد کر رہی ہے۔ تاہم، حکومت کو ترقیاتی اخراجات میں کمی کے ساتھ اپنے جاری اخراجات میں بھی کمی لانا ہو گی، جو پہلے سے بڑھ گئے ہیں۔
جنگ :اس وقت مہنگائی میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک عام آدمی سے لے کر صنعت کار تک پریشان ہے۔ آخر حکومت نے آئی ایم ایف سے کیسا معاہدہ کیا ہے کہ جس کی وجہ سے معیشت کا بھٹہ ہی بیٹھ گیا؟
عارف حبیب :حکومت کا ماننا ہے کہ معیشت کی بہتری کے لیے آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا گیا ۔ اگر ہم چند برس قربانی دیں گے، تو بعد میں حالات بہتر ہو جائیں گے۔ تاہم، ہمارا ماضی یہ بتاتا ہے کہ آئی ایم ایف کے پیکیج سے نکلنے کے بعد دوبارہ ہماری شاہ خرچیاں ہو جاتی ہیں اور نتائج حاصل نہیں ہو پاتے۔
جنگ :گزشتہ دنوں ملک بھر کے تاجروں نے ہڑتال کی۔ پھر ان کے حکومت سے مذاکرات ہوئے، مگر شناختی کارڈ کی شرط ابھی بھی برقرار ہے۔ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
عارف حبیب :حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں تاجروں کی تعداد 35سے40لاکھ ہے، جن میں سے صرف 3لاکھ رجسٹرڈ ٹیکس پیئرز ہیں۔ اگر ایسا ہے، تو حکومت کو ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی کاروباری طبقے کو بھی ٹیکس نادہندگان پر دبائو ڈالنا چاہیے، کیوں کہ آمدنی کے ساتھ ٹیکس کی ادائیگی ضروری ہے۔ حکومت نے ٹیکس نیٹ میں اضافے کا اچھا فیصلہ کیا ہے اور وزیرِ اعظم کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ وہ اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
جنگ: کاروباری لاگت میں کمی کے لیے حکومت کو آپ نے کیا تجاویز دیں؟
عارف حبیب :ہم نے یہ تجاویز دیں کہ خسارے میں کمی کے لیے نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کی جائے۔ اسی طرح توانائی کی قیمتوں میں کمی لانے کے لیے بجلی اور گیس کی چوری روکی جائے۔ توانائی کے حصول کے لیے فرنس آئل جیسے مہنگے ایندھن کے بہ جائے ایسا فیول استعمال کیا جائے کہ جس کی وجہ سے لاگت میں کمی واقع ہو۔ توانائی کے متبادل مقامی ذرایع استعمال کیے جائیں۔
معدنی ذخائر تلاش کر کے انہیں کام میں لایا جائے۔ آئی ٹی کے شعبے کو ترقی دی جائے۔ تعلیم بالخصوص خواتین کی تعلیم پر توجہ دی جائے۔ پاکستانی قوم کسی سے کم تر نہیں۔ ہمیں ہمت دکھانی چاہیے اور سخت محنت کرنی چاہیے، کیوں کہ تکلیف اٹھانے ہی سے انسان کی کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے۔
جنگ :اس وقت سی پیک کی کیا صورتِ حال ہے۔ کیا اس منصوبے میں پیش رفت ہو رہی ہے؟
عارف حبیب :سی پیک کا پہلا فیز مکمل ہو گیا ہے۔ یہ مرحلہ گورٹمنٹ ٹو گورٹمنٹ تھا۔ یہ ایک بہت اچھا منصوبہ ہے اور پاکستان کو اس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ دوسرا مرحلہ انویسٹرز ٹو انویسٹرز کا ہے۔ اب چینی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں صنعتیں لگانے کے لیے راغب کرنا ہے۔ یہ ایک مشکل مرحلہ ہے۔ اس ضمن میں پاکستانی سرمایہ کاروں کو بھی محنت کرنے کی ضرورت ہے اور انہیں اسے اپنا قومی نصب العین سمجھ کر محنت کرنا ہو گی۔ تبھی ہمیں فائدہ ہو گا۔
جنگ :پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ میں پرائیویٹ سیکٹر کا اہم کردار ہے، لیکن نیب کی فعالیت کی وجہ سے پرائیویٹ سیکٹر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا، تو پرائیویٹ سیکٹر کس طرح آگے آئے گا؟
عارف حبیب :اس ضمن میں تاجروں کی چیئرمین نیب سے ملاقات ہوئی ہے۔ وہ ایف پی سی سی آئی میں بھی آئے تھے۔ انہوں نے تاجروں کو یقین دہانی کروائی ہے کہ نیب کے افسران تاجروں کو بے جا تنگ نہیں کریں گے۔ نیب چیئرمین نے اپنے افسران کو ہدایت دی ہے کہ وہ محض معلومات لینے کے لیے تاجروں کو نہ اٹھائیں، کیوں کہ اس سے خوف و ہراس پیدا ہوتا ہے، بلکہ اٹھانے سے پہلے انہیں شوکاز نوٹس جاری کریں۔
قانون یہ کہتا ہے کہ ریگولیٹرز کی اجازت کے بغیر نیب کسی بھی کمپنی کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتا۔ ہم نے یہ بات بھی چیئرمین نیب کے سامنے رکھی، جس کی انہوں نے تائید کی۔ اس کے علاوہ ہم نے انہیں یہ تجویز دی کہ وہ عوام میں آگہی پیدا کریں اور اپنے عملے کو تربیت فراہم کریں۔
جنگ :اس وقت بزنس کمیونٹی اور حکومت کو کیا چیلنجز درپیش ہیں اور ان سے کیسے نمٹا جا سکتا ہے؟
عارف حبیب :اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بلند شرحِ سود ہے اور اس کی وجہ سے یہ پریشانی لاحق ہے کہ قرض کیسے اتارا جائے گا۔ لہٰذا، شرحِ سود میں کمی بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ شرحِ سود میں اضافے کی وجہ سے لاگت میں ایک ہزار ارب کا اضافہ ہو گیا ہے اور جب یہ کم ہو گا، تو حکومت سمیت سب کو ریلیف ملے گا۔