• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجموعی طور پر سندھ کی سول سوسائٹی اور خاص طور پر سندھ کے آبی و بجلی کے ماہرین اس بات پر شدید حیران و پریشان ہیں کہ سندھ کے پانی اور بجلی کے حقوق پر وار پر وار کئے جارہے ہیں۔ یاد رہے کہ ابھی پچھلے دنوں سندھ، کراچی کی سمندری حدود میں واقع ایک اہم جزیرے کو مرکزی حکومت کی تحویل میں دینے کے ایک منصوبے پر کام شروع ہوا‘ اس کارروائی کے خلاف سندھ بھر میں ابھی تک شدید اشتعال ہے یہاں تک کہ سندھ کے وزیر زراعت اسماعیل راہو نے اس کے خلاف شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے سخت بیان جاری کیا۔ اس سے پہلے مرکزی حکومت بشمول سندھ دیگر صوبوں کی رائے معلوم کئے بغیر بھاشا اور دیامیر مہمند ڈیم بنانے کا کام بھی شروع کر چکی ہے جبکہ سی جے کینال پر ارسا کی طرف سے ایک پرائیوٹ کمپنی کو بجلی گھر بنانے کی اجازت دینے کا اعلان کیا گیا اس سلسلے میں انڈس ریور سسٹم اتھارٹی(ارسا) کی طرف سے 18اکتوبر کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا کہ ارسا نے 17اکتوبر 2019کےاجلاس میں اس ایشو کے بارے میں ساری معلومات کا جائزہ لینے کے بعد سی جے ہائیڈرو (پرائیویٹ) لمیٹڈ کو ضلع خوشاب میں چشمہ جہلم لنک کینال پر 25میگا واٹ کا بجلی گھر تعمیر کرنے کےلئے ’’نوآبجیکشن‘‘ سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ اکثریتی ووٹوں سے کیا گیا۔ سندھ‘ جو ارسا کا ممبر ہے، نے اِس تجویز کی اس بنیاد پر مخالفت کی کہ سی جے لنک کینال ایک بین الصوبائی کینال ہے لہٰذا یہ ایشو ارسا کے دائرے میں نہیں آتا۔ بہرحال ارسا محض بجلی پیدا کرنے کے لئے پانی فراہم کرنے کا نہ وعدہ کر سکتی ہے اور نہ اس سلسلے میں کوئی ضمانت دے سکتی ہے۔ اس نوٹیفکیشن کے فوری اجرا کے بعد صوبائی وزیر زراعت محمد اسماعیل راہو کا ایک بیان جاری ہوا جس میں انہوں نے ارسا کی طرف سے ایک پرائیویٹ کمپنی کو 25میگا واٹ کا بجلی گھر سی جے کینال پر قائم کرنے کے سلسلے میں دی گئی اجازت کو ایک شرمناک فعل قرار دیا ہے جبکہ سندھ کو پہلے ہی پانی کی کم فراہمی کا سامنا ہے۔ انہوں نےکہا کہ پانی چوری کی اس سازش کو سندھ قبول نہیں کرے گا۔ اس صورتحال پر پاکستان کے ایک بڑے اخبار نے جو خبر شائع کی ہے اس کے مندرجات میں کہا گیا ہے کہ حکومت سندھ نے ہفتہ کو چشمہ جہلم لنک کینال پر 25میگا واٹ کا بجلی گھر تعمیر کرنے کے سلسلے میں پنجاب کے حکام کو دیئے گئے متنازعہ اجازت نامہ کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ اس سلسلے میں صوبائی وزیر زراعت اسماعیل راہو نے مطالبہ کیاکہ ارسا فوری طور پر اس متعصبانہ فیصلے کو منسوخ کرے ورنہ ہم اس فیصلے کے خلاف ہر فورم پر احتجاج کریں گے۔ ارسا کے ترجمان نے موقف اختیار کیا کہ یہ فیصلہ ایک کے مقابلے میں 4ووٹوں سے کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کے نمائندے نے اس فیصلے سے اس بنیاد پر اختلاف کیا کہ سی جے کینال ایک بین الصوبائی کینال ہے اور یہ ارسا کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی۔ اسماعیل راہو نے خبردار کیا کہ ارسا کو حق نہیں پہنچتا کہ دیگر صوبوں کے معاملات میں مداخلت کرے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ اس فیصلے کو مسترد کرتی ہے اور پنجاب کو اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ بجلی گھر تعمیر کرے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کارروائی پاکستان تحریک انصاف‘ وفاقی حکومت اور صوبوں میں ان کے اتحادیوں کی مدد سے کی گئی ہے جو کہ انتہائی ’’خطرناک‘‘ سازش ہے۔ وقت بوقت سندھ کے مفادات کے خلاف اس قسم کی سازشیں کی جاتی ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبے کئی معاملات میں اب خود مختار ہیں لہٰذا انہوں نے کہا کہ ’’پنجاب‘ سندھ کی اجازت کے بغیر یہ پاور پلانٹ تعمیر نہیں کر سکتا‘‘۔ اس مرحلے پر میں یہ تاریخی حقیقت بھی ریکارڈ پر لاتا جائوں کہ ارسا سندھ کی تجویز کردہ شق کے نتیجے میں وجود میں آئی ورنہ اس سے پہلے صوبوں میں پانی کی تقسیم واپڈا کرتا تھا مگر سندھ کو واپڈا سے شدید شکایات تھیں لہٰذا پانی کے 91کے معاہدے کو آخری شکل دیتے وقت سندھ نے تجویز دی کہ آئندہ صوبوں میں پانی کی تقسیم واپڈا نہیں بلکہ ایک نیا ادارہ کرے گا جس کا نام ’’انڈس ریور سسٹم اتھارٹی‘‘ ہو یہ نام بھی سندھ نے تجویز کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 91کے معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد پانی صوبوںمیں اس شق کے ذریعے تقسیم ہوتا تھا اور کسی صوبے کو بھی اعتراض نہ تھا‘ مگر اسی دوران سندھ کا پانی چوری کیا گیا‘ اس کے خلاف جب سندھ نے شکایات کیں تو اس وقت کے صدر فاروق لغاری نےپانی کے وفاقی وزیر غلام مصطفٰی کھر کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی جس میں چاروں صوبوں کے آبپاشی کے سیکرٹری ممبر تھے۔ اس کمیٹی نے سندھ کی تجویز پر اس جگہ کا فیصلہ کیا جہاں سندھ چاہتا تھا کہ ان کو دریائے سندھ کا پانی فراہم کیا جائے مگرپنجاب کے دبائو میں آکر فیصلے میں یہ بھی لکھ دیا گیا کہ آئندہ جب دریا میں پانی کم ہوگا تو پنجاب اور سندھ میں ’’ہسٹاریکل فارمولا‘‘ کے تحت تقسیم ہوگا۔ یہ بھی طے کیا گیا کہ کے پی اور بلوچستان کو بدستور 91کے معاہدے کی اصل شق کے تحت پانی فراہم کیا جائے گا۔کتنی دلچسپ بات ہے کہ اس شق سے پہلے ارسا کے بورڈ میں کے پی اور بلوچستان نے ہمیشہ سندھ کے ساتھ ووٹ کیا مگر اس شق کے بعد اب تک جب بھی ارسا بورڈ میں ووٹنگ ہوئی ہے تو کے پی اور بلوچستان نے پنجاب کو ووٹ دیا ہے۔

تازہ ترین