• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’شام‘‘ میں گزشتہ آٹھ برسوں سے زائد عرصے سے جاری خانہ جنگی، دہشت گردی اور بدامنی میں مختلف جنگجو گروہ، دہشت گرد اور سرکاری فوجیں ایک دوسرے سے برسرپیکار تھیں اور اب بھی وہاں امن نہیں ہے۔ شام کے شمال مشرقی خطے میں کرد آبادی ہے جو اس تمام خانہ جنگی میں شدید متاثر ہوئی۔ اس خطے میں گزشتہ دو برسوں سے داعش نے اپنا بڑا دفاعی مرکز بنا رکھا تھا۔ اسے ختم کرنے کے لئے امریکا نے اپنے فوجی اور دیگر اہم ہتھیار کردوں کو بھی دیئے کہ وہ امریکی فوجیوں سے تعاون کرتے ہوئے داعش کو اس خطے سے مار بھگائیں۔ 

اس سے پہلے روس نے دو ڈھائی برس تک داعش کو شام میں پوری طرح سے قدم جمانے اور کسی ایک حصے میں اپنی گرفت مضبوط کر کے دولت اسلامیہ اور خلافت قائم کرنے کے اعلان سے روکے رکھا تھا۔ دوسرے لفظوں میں روسی فوجیوں اور لڑاکا بمباروں نے شام میں داعش کو اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دیا تھا۔ گزشتہ ایک سال سے امریکا اور کرد ،باہمی تعاون سے داعش کے خلاف کارروائیاں کر رہے تھے۔ کردوں نے اس لڑائی میں اہم کردار ادا کیا، آخرکار داعش کو پسپا ہونا پڑا۔ 

پندرہ سو سے زائد دہشت گرد گرفتار ، سیکڑوں ہلاک اور کچھ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کے بعد امریکی صدر ٹرمپ نے شام سے اپنے فوجی واپس بلانے کا عندیہ دیا، جس پر کردوں نے احتجاج کیا کہ، امریکا ہمیں مشکل حالات میں چھوڑ کر جا رہا ہے مگر امریکی فوجیوں کا انخلاء شروع ہو گیا، تب ترکی نے جو اس وقت کا انتظار کر رہا تھا فوراً اپنی فوجیں شام کے شمال مشرقی حصے میں روانہ کرنے کا اعلان کر دیا، جس پر صدر ٹرمپ نے پہلے احتجاج کیا پھر گرین سگنل دے دیا۔ ترکی نے اعلان کیا کہ وہ ترکی کی سرحد سے ملحقہ شامی علاقے کی دس مربع میل پٹی کو کردوں سے خالی کروا کر وہاں شامی پناہ گزینوں کو آباد کرے گا جو ترکی کی سرحد کے ساتھ کیمپوں میں موجود ہیں۔ 

ترکی نے اس ضمن میں روس سے بھی تعاون کرنے کی درخواست کی ہے کہ کردوں کو پیچھے دھکیلنے اور یہ خطہ خالی کرانے میں روس مدد کرے، کیونکہ امریکا اور نیٹو معاہدہ کے ممالک ترکی سے شام میں کسی بھی تعاون کے لئے راضی نہیں ہیں، بلکہ اس کی مخالفت کر رہے ہیں کہ اس نے امریکا یا یورپی ممالک سے جدید اسلحہ کی خریداری کے بجائے روس سے جدید لڑاکا طیاروں اور دیگر اسلحہ کا سودا کر لیا۔ 

اس کے علاوہ یورپی ممالک کا طیب اردگان کی حکومت سے ایک پرانا شکوہ بھی ہے کہ پہلی عالمی جنگ کے دوران ترکوں نے آرمینیائی عوام کا قتل عام کیا تھا اس پر آرمینیا کی حکومت سے معافی مانگے۔ صدر طیب اردگان نے یہ مطالبہ مسترد کر دیا کہ یہ تاریخ کے قدیم مسئلے ہیں اب ان کو سیاسی طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔اس لئے ترکی نے روس سے تعاون کی درخواست کی ہے۔

اب جزوی طور پر روسی، ترکش اور سرکاری فوجیں شمال مشرقی سرحد کی ایک پٹی کی نگرانی کر رہی ہیں، کیونکہ کردوں کی ایک سیاسی جماعت ورکرز پارٹی جو آزادی کا مطالبہ کرتی رہی ہے وہ کردوں کی بھرپور مدد کر رہی ہے اور کردوں نے ترکی کی مداخلت کو مسترد کرتے ہوئے مزاحمت کا اعلان کیا ہے۔ اس تناظر میں روس مطمئن ہے کہ شام میں اس کی موجودگی کو کسی جانب سے مخالفت کا سامنا نہیں ہے اور تاحال صدر اسد کی حامی فوجیں شام کی صورتحال کو تنہا کنٹرول نہیں کر سکتیں، اس لئے صدر اسد کے حامی اور ایران، شام میں روس کی موجودگی کو ضروری خیال کرتے ہیں۔ 

یوں بھی امریکا نے ترکی پر کچھ اقتصادی پابندیاں لگا رکھی ہیں جن کی وجہ سے ترکی کا بھی جھکائو ،روس کی طرف ہو رہا ہے۔شام کے صدر اسد اور ایران کو اندیشہ ہے کہ ترکی نے طویل المدت منصوبے کے تحت شام میں فوجی مداخلت کی ہے اور یہ محض بہانہ ہے کہ بیس مربع میل کی پٹی کردوں سے خالی کروا کر یہاں شامی پناہ گزینوں کو رکھا جائے گا۔

مشرق وسطیٰ پر نظر رکھنے والے سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ، ترکی درحقیقت شامی علاقے پر اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتا ہے جو تیل سے مالامال خطہ ہے۔ قریبی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ترکی شام کے شمال مشرقی حصے میں ڈھائی سو مربع میل کے علاقے میں دس گائوں اور سڑکیں تعمیر کرنا چاہتا ہے جس کے لئے اس نے ستائیس ارب ڈالر کی خطیر رقم مختص کی ہے۔ وہ اس خطے کو ترکی میں شامل کر لے گا۔ یہ خطہ ترکی کی سرحد سے لے کر دریائے فرات تک پھیلا ہوا ہے جس کے لئے محفوظ زون بنانے کا نعرہ لگایا جا رہا ہے۔ 

ترکی کو فی الفور ایک اور بڑا مسئلہ درپیش ہے کہ بارہ سو سے زائد داعش کے دہشت گرد جو اب ترکی کی تحویل میں ہیں ان کی واپسی کے لئے وہ کوشاں ہیں۔ ترکی کے وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ نے اپنے اپنے طور پر مغربی ممالک کو خط لکھے ہیں اور ٹیلی فونک رابطے بھی کئے ہیں کہ وہ اپنے ملکوں کے ان شہریوں کو واپس لیں مگر تاحال کسی یورپی ملک نے ترکی کو جواب نہیں دیا ہے۔ صدر طیب اردگان نے ایک بیان میں کہاہے کہ وہ ان دہشت گردوں کو طیاروں میں بٹھا کر ان کے وطن روانہ کر دیں گے، ان ممالک کو انہیں قبول کرنا ہو گا ،وہ ان کو اپنی جیلوں میں بند رکھیں۔ 

مغربی ذرائع کہتے ہیں کہ اگر ترکی نے ایسا کیا تو جہازوں کو واپس کردیا جائے گا، کوئی بھی یورپی ملک ان دہشت گردوں کو واپس لینے پر راضی نہیں ہے، جب کہ ترکی کے حلق میں یہ ہڈی پھنسی ہوئی ہے۔ بعض یورپی ممالک کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ جس وقت شام اور عراق میں خانہ جنگی ہو رہی تھی ترکی کے راستے یہ لوگ شام اور عراق میں داخل ہو رہے تھے، تب ترکی کے ذمہ دار محکموں اور سیکورٹی اہل کاروںنے انہیں شام اور عراق میں جانے کیوں دیا، اس وقت انہیں واپس کیوں نہیں کیا گیا ،حالانکہ سب کو علم تھا کہ ان ممالک میں حالات نہایت مخدوش ہیں اور شدید بدامنی ہے تو ترکی نے اپنی سرحدیں بند کیوں کی تھیں۔

شام کے مسئلے اور خوفناک خانہ جنگی کی روک تھام کے سلسلے میں وسطی ایشیا میں آستانہ اور دوشنبے کے شہروں میں اقوام متحدہ، یورپی ممالک، روس، ترکی، ایران ، امریکا کے مندوبین اور اعلیٰ عہدیداروں کی چند برسوں میں ایک درجن سے زائد کانفرنسیں ہو چکی ہیں مگر کسی میں بھی کوئی پائیدار حل تلاش نہیں کیا جا سکا۔ ہر بار ایک نئی بات اٹھ کھڑی ہوتی رہی اور مسئلہ جوں کا توں رہا۔کبھی امریکا اور یورپی یونین نے بیشتر ،ترکش تجاویز رد کر دیں، کبھی روس نے یورپی یونین کی تجاویز رد کر دیں۔

درحقیقت شام میں ترکی کا بڑا مفاد ہے۔ شمال مشرقی شام کے پہاڑوں اور سمندری علاقوں میں جہاں کرد آباد ہیں جن کو شام بھی پسند نہیں کرتا، ان کا صفایا کر کے اس پٹی کو اپنی گرفت میں لینا ہے، کیونکہ اب یہ راز نہیں رہا کہ ترکی کی موجودہ حکومت شامی سرحدی پٹی سمیت بحیرہ روم کے مشرقی ساحلوں میں تیل کی تلاش کا کام شروع کرنے جا رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ترکی اس کے لئے اپنی سمندری حدود کو بھی پھلانگ سکتا ہے اور اپنے پڑوسی یونان اور قبرص پر فوجی کارروائی بھی تھوپ سکتا ہے۔ 

ترکی کے صدر طیب اردگان جو قوم پرست اورقدامت پسند مسلم رہنما ہیں، یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ2022ء میں ترکی سو سالہ یورپی قوتوں کے معاہدہ سے آزاد ہو جائے گا اور اپنی سرحدوں کا ازسرنو تعین کر سکے گا، جس کے لئے وہ جدید ترین اسلحہ کی خریداری اور بنانے کی تیاری کر رہا ہے۔ یورپی یونین ترکی سے اس لئے بھی ناراض ہے کہ وہ یورپی ممالک سے اسلحہ کی خریداری کے بجائے روس اور چین پر انحصار کر رہا ہے، جب کہ روس نے نہ صرف ترکی سے بلکہ سعودی عرب سے بھی اسلحہ کی فروخت کے معاہدے کر لئے ہیں، اس طرح پورا خطہ اسلحہ کی خریدوفروخت کی دوڑ میں محو ہے۔ 

مشرق وسطیٰ کی سیاست پر نظر رکھنے والے حلقوں کا دعویٰ ہے کہ، مشرق وسطیٰ کے حوالے سے اسرائیل اور امریکا نے پہلے ہی اس خطے کا نیا نقشہ ترتیب دینے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ یہ بھی زبان زدعام ہے کہ نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ بعض دیگر خطوں میں نئے نقشے بنائے جائیں گے۔شام کی طویل المدت جنگ اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کی سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی ابتری، بدامنی ان خدشات کو فروغ دیتے ہیں۔ ترکی کے آئندہ عزائم کیا ہیں یہ ترکی کی حکومت مختلف انداز سے واضح کر چکی ہے۔ اس حوالے سے خطے میں ایران بھی اپنی دفاعی صلاحیت میں تیزی سے اضافہ کر رہا ہے۔

تازہ ترین