• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا … راجہ اکبر داد خان
 ہماری تاریخ میں جمہوریت ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے کمزور پارٹنر کی حیثیت میں حکمرانی میں حصہ دار چلی آرہی ہے۔ جب مواقع میسر ہوئے سیاسی جماعتیں کوئی ایسا نظام نہ لاسکیں جن سے ریاستی معاملات کو چلانے میں ان کا کردار زیادہ مضبوط انداز میں طے ہوجاتا اور72سال بعد عوام شعوری طور پر ایک میچور جمہوری معاشرہ کا حصہ بن جاتے، ہر چند سال بعد افواج پاکستان کا اقتدار پر قبضہ کرلینے سے جہاں جمہوری تسلسل کو نقصان پہنچے وہاں ہمارے عسکری اداروں کے یہ یقین پختہ ہوئے کہ وہی ملکی مفادات کے بہترین محافظ ہوسکتے ہیں؟ پچھلی دو حکومتوں نے اپنے دورانیے پورے کیے اور پی ٹی آئی حکومت میں توقع کی جارہی ہے کہ ہمارا غیر پختہ سیاسی کلچر استحکام پکڑ سکے گا اور آنے والے وقتوں میں رائے دہندگان بھی اپنی سیاسی جماعتوں سے مزید مضبوط انداز میں جڑے ملیں گے اور بالآخر کہیں نہ کہیں سے مضبوط اور کمزور ادارے بھی ایک ایسے ماحول کی لپیٹ میں آجائیں گے، جہاں سے ہم ایک دوسرے کو کام کرنے کے لیے تعاون اور اسپیس فراہم کرتے ہوئے اہلیت کی بنیاد پر چلنے والے معاشرہ کی بنیادیں رکھ کر ایک بہتر پاکستان کی وجہ بن پائیں گے۔ یورپی ماحول میں رہتے ہوئے ہر قسم کے خواب دیکھے جاسکتے ہیں مگر پاکستانی ماحول میں انتخابی وجوہات کی بنا پر یورپی اقتصادی اٹھان کے خواب بن دینے سے زمینی حقائق نہیں بدل سکتے۔ اکابرین قوم ماسوائے چند کے اسی کرپٹ اور بے اصول معاشرہ کا حصہ بنے رہنا پسند فرماتے ہیں، کیونکہ جس طرف بھی دیکھا جائے انہیں اپنے ہی ہمنوا نظر آتے ہیں اور صرف چند ہی اس آرام دہ ماحول جس میں کرپشن، اقربا پروری، بے اصولیاں اور ہر چیز میں میرا کتنا حصہ ہے؟ جیسی معیوب حقیقتیں ایک فارم بن چکی ہیں کو رد کرتے آگے بڑھتے نظر آتے ہیں۔ جس کی انہیں بھاری قیمتی ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ وہ وزیراعظم جو صبح شام ان معاشی اور معاشرتی برائیوں کے خلاف علم اٹھائے ہوئے ہے، کے لیے پاکستان کو ریاست مدینہ کا عکس بنادینا یا کم از کم انسانوں کے بنیادی حقوق ان کو دلوانے کے ماحول تیار کروا دینا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ 72سال میں مختلف قسم کے بظاہر اسلامی ماحول تیار ہوئے جو انتہائی کم وقتوں میں افق سے مٹ گئے۔ وجوہات یہی ہوسکتی ہیں کہ معاشرہ نام میں تو اسلامی رہا مگر حقیقت میں ہم نے اسلام کا غیر حقیقی خول اپنے اوپر چڑھا رکھا ہے تاکہ ہم معتبر بھی کہلا سکیں اور ساتھ ہی اپنی خدمت بھی کرتے رہیں۔ سوچنا پڑتا ہے کہ وہ کون سے احوال ہیں جو وزیراعظم کو پچھلے ایک سال سے اتنا پریشان کیے ہوئے کہ اسے اٹھتے بیٹھتے ’’میں این آر او نہیں دوں گا‘‘ کہنے پر مجبور کررہے ہیں؟ وزیراعظم اعلیٰ تعلیم یافتہ سیاستدان ہیں، یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کسی این آر او کی پیداوار ہیں یا وزارت عظمیٰ انہیں کسی ڈیل کے نتیجہ میں ملی ہے۔ یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں کہ این آر او کی ان خاندانوں کو ضرورت ہے جو سویلین اسٹیبلشمنٹ کے مرکزی کردار ہیں اور عسکری قیادتوں کے ساتھ ان کے قریبی مراسم بھی جانے پہچانے ہیں، چند سال سے عدلیہ کے مراکز اقتدار بھی مکمل طور پر آزادانہ ہیں ’’اسٹیٹس کو‘‘ نواز فیصلے بھی آئے ہیں اور ’’اسٹیٹس کو‘‘ توڑ بھی پچھلے کچھ عرصہ سے دو بڑے سیاسی گھرانوں کی سیاست نے ملک کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اس صورت حال کو بھی طاقت کے مراکز سے خاموش حمایت مل رہی ہے۔ 2018ء کے انتخابات نتائج کو نہ مانتے ہوئے پورے نظام حکومت کو گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ بھی آئین و قانون کے مطابق چلنے میں حکومت وقت کے ساتھ کھڑی نظر نہیں آرہی، وہ جماعتیں جو حزب اختلاف کا حصہ ہیں، اپنے مقاصد کی خاطر ہر دم سو بھیس بدل لیتی ہیں۔ عقل نہیں مانتی کہ حالیہ دھرنا مختلف حلقوں کی تائید کے بغیر منظم کیا جاسکتا ہے اور دھرنا جس طرح چلا، اس سے مزید واضح ہوگیا کہ انہوں نے حکومت کو غیر مستحکم کرکے اپنے مقاصد حاصل کرلیے ہیں۔ وزیراعظم جن حالات میں حکومتی فیصلے کررہے ہیں اور کسی ٹکرائو سے بچنے کی کوشش کررہے ہیں،انہیں ایسی صورتحال کا چھ ماہ قبل سامنا نہیں تھا۔ طاقتور حلقوں کو عوامی مینڈیٹ کے احترام میں نہ ہی ریاست مدینہ بننے کے خواب سے پریشان ہونا چاہیے اور نہ ایک غیر روایتی اپروچ رکھنے والے وزیراعظم سے، عوام نہیں محسوس کرتے کہ یہ وزیراعظم اسٹیبلشمنٹ مخالف ذہن رکھتے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد وہ ہمیشہ سول ملٹری تعلقات کو بہتر بناتے نظر آتے ہیں۔ اس وزیراعظم کو اپنی سیاسی طاقت میں اضافہ کرنے میں وقت لگے گا۔ بیرون ملک وہ پاکستان کا مثبت اور خوشگوار چہرہ ہے۔ بنیاد پرست قوتوں نے ملک کے معتبر نام کو داغ دار کیا اور ملک اکیلا ہوکر رہ گیا۔ مغربی دنیا میں پاکستان کے اچھے امیج کو پری عمران دور میں جو نقصان ہوا وہ ناقابل تلافی ہے۔ ہم آج ایف ٹی ایف اے میں جس طرح دنیا کی قوموں کے سامنے ملزم کی حیثیت میں کھڑے ہیں، یہ ہماری پرانی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ وزیراعظم نے سیاسی، ذہنی اور معاشرتی کلچر تبدیل کرنے کا جو ’’ہر کولین ٹاسک‘‘ اپنے سامنے رکھا ہوا ہے، جس کے بغیر ملک پرانے وقتوں ہی میں پھنسا رہے گا۔ اسے مکمل کرنے میں وقت لگے گا۔ مہنگائی اور بیروزگاری ایسے مسائل ہیں جو اقتصادی نظام نے ہماری جھولی میں ڈال رکھے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے درمیان بڑھتی سردمہری سے نظام غیرت مستحکم ہوسکتا ہے۔ ایک، دو ڈیلز اگر قومی مفاد میں ضروری ہیں تو ’’لو اور دو‘‘ کی بنیاد پر معاملات طے کرلینے بھی پاکستان کے مفاد میں ہیں۔ ایسے اہم معاملات پر گفت و شنید کے فورمز بھی موجود ہیں، جن کا فائدہ اٹھایا جانا چاہیے، نہ کہ منتخب وزیراعظم پر اتنا دبائو بڑھا دیا جائے کہ وہ چند مخصوص کے لیے کچھ ایسے اقدامات اٹھائے جو وہ قومی مفاد میں درست نہیں سمجھتا اور ’’این آر او‘‘ دینے پر وزیراعظم کا ایک دیرینہ موقف موجود ہے۔ منتخب وزیراعظم کو دیوار سے لگانا نقصان دہ ہے؟ افواج پاکستان اور سول حکومت کے درمیان اعتماد کا جو ماحول بن چکا ہے اور جس کے نتیجہ میں ملک کے ادارے درست سمت میں بڑھنے کی طرف تیاری پر آمادہ نظر آتے ہیں کو موجودہ سول ملٹری تنائو کی نظر نہ ہونے دیا جائے، ہر دم ملک اور قوم کے متعلق سوچنے والے اس وزیراعظم کو ایک بہتر پاکستان بنانے کے لیے عوام پاکستان کے بعد جس قومی ادارہ کی سب سے زیادہ تعاون اور رہنمائی کی ضرورت ہے وہ ہے ہماری اسٹیبلشمنٹ جب دونوں سائیڈز کے درمیان مرکزی ’’نقطہ توجہ‘‘ مملکت پاکستان ہے تو مل کر کام کرنے میں دشواری نہیں ہونی چاہیے۔
تازہ ترین