• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مادری زبانوں کے بارے میں بعد میں بات ہو گی، پہلے اس زبان کے بارے میں تو بات ہو جائے جو ہمارے منہ میں ہے۔ کچھ کام ہم اس سے لیتے ہیں اور کچھ کام وہ ہم سے لیتی ہے۔ ہم اس کی وجہ سے بولتے ہیں، اور وہ اس کے نتیجے میں ہمارا پول کھولتی ہے۔ اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ پہلے تولو اور پھر بولو، بعض لوگوں کے بارے میں تو یہ ہدایت بھی موجود ہے کہ جناب! آپ پہلے تولیں اور پھر بھی نہ بولیں، زبانوں کی اور بھی بہت سی قسمیں ہیں۔ مثلاً ایک گاؤ زبان بھی ہے۔ یعنی خمیرہ گاؤ زبان، جسے طبیب حضرات دماغ کی کمزوری دور کرنے کے لئے تجویز کرتے ہیں۔ نہایت لذیز چیز ہے۔ شہد جیسی میٹھی، اگر دماغ کی کمزوری دور نہ بھی ہو تو مریض کو شوگر بہرحال ہو جاتی ہے۔ ایک گاؤ زبان اس کے علاوہ بھی ہے اور یہ اصلی گائے کی اصلی زبان ہے، جو گوالمنڈی کے بٹ صاحبان قلچوں سے نوش جاں فرماتے ہیں۔ نوشِ جاں تو سبھی فرماتے ہیں مگر بدنام صرف بٹ صاحبان کو کیا جاتا ہے!
اب آ جاتے ہیں اس زبان کی طرف جس کا ذکر آپ
زبان یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم
والے مصرعے کی صورت میں بھی سنا ہو گا مگر اس کے دوسرے مصرعے میں پھر وہی زبان درمیان میں آ جاتی ہے، جو میرے آپ کے منہ میں ہے، تاہم دوسرے مصرعے کا مزا تب آئے گا اگر اسے پہلے مصرعے کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے،
زبان یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم
چہ خوش بودے اگر بودے زباش در دہان من
میاں دوسرے مصرعے کا اردو ترجمہ بھی ضرور پیش کرتا اگر میرے اندر ایک شریف انسان نہ چھپا بیٹھا ہوتا، جو بوجہ شرمندگی کبھی باہر نہیں آتا، میں تو اس طرح کے ”معاملات من وتو“ کے ذکر سے بھی گریز کرتا ہوں۔ حتیٰ کہ میں نے کبھی لفظ ”دلبرداشتہ“ بھی اپنے قلم سے نہیں لکھا کیونکہ اس میں ”دلبر“ بھی آتا ہے اور ”داشتہ“ بھی!
بہرحال اب ہم آتے ہیں اس زبان کی طرف جو ہم بولتے ہیں، اور یہ عموماً مادری زبان ہوتی ہے۔ میری مادری زبان پنجابی ہے، واضح رہے ان دنوں مادری زبان اس زبان کو کہا جاتا ہے جو ماں بولتی ہو اس کے بچے نہ بولتے ہوں! مادری زبان کے علاوہ ایک پدری زبان بھی ہوتی ہے۔ یہ پدری زبان کیا ہوتی ہے؟ یہ میں آپ کو بعد میں بتاؤں گا، پہلے یہ جان لیں کہ ہمارے گھروں میں پدر یعنی والد کی حیثیت ایک بدمعاش کی سی ہے، جس کے ذریعے ماں اپنے بچوں کو دھمکاتی ڈراتی رہتی ہے، ”باپ کو آنے دو، تمہاری پٹائی کرواؤں گی“ وغیرہ وغیرہ۔ سو اس تناظر میں پدری زبان وہ زبان ہے جو لوگوں کو ”یرکانے“ کے لئے بولی جاتی ہے، مثلاً انگریزی وغیرہ! ہمارے ”کالے صاحب“ یہ زبان ”گورے صاحب“کے لہجے میں بولتے اور ہم مادری زبان والے کمی کمینوں کو ہماری اوقات یاد دلاتے اور اپنا ”شجرہ نسب“ سمجھاتے ہیں، ان دنوں ہر طرف انگریزی کا راج ہے۔ چنانچہ ہم جیسے کمی کمین، اپنی تنخواہ کا 75 فیصد حصہ اپنے بچوں کو انگلش میڈیم اسکول میں تعلیم دلانے پر خرچ کرتے ہیں تاکہ وہ بھی ”گورے صابوں“ کی صف میں شامل ہو جائیں! زبان ہی کے حوالے سے ایک لفظ ”زبان دراز“ بھی ہے، زبان دراز کی زبان کا سائز تو نارمل ہی ہوتا ہے لیکن اس کے ہاتھوں کسی کی عزت محفوظ نہیں ہوتی، وہ ”بلا امتیاز رنگ و نسل و مذہب و ملت“ سب کو چور، ڈاکو او رلٹیرا قرار دیتا ہے ایسے زبان دراز کو کالم نگار بھی کہا جاتا ہے!
اب آ جاتے ہیں اصلی موضوع کی طرف جو مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کے حوالے سے ہے۔ 21 فروری کو پوری دنیا میں مادری زبانوں کا دن منایا جا رہا ہے۔ 21/ فروری 1952 کے دن ہمارے مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ میں بنگلہ کو پاکستان کی دوسری قومی زبان بنانے کے مطالبے پر مبنی ایک ریلی نکالی گئی تھی جس پر فائرنگ کی گئی، جس کے نتیجے میں بہت سی ہلاکتیں ہوئیں۔ یونیسکو نے اس دن کو بین الاقوامی طور پر منانے کا اعلان کیا اور اقوام متحدہ نے اس کی منظوری بھی دے دی، اور منظوری دینے والے ممالک میں خود پاکستان بھی شامل تھا، سو یہ دن اب پاکستان سمیت پوری دنیا میں مادری زبان سے محبت اور بالواسطہ طور پر پاکستان کی مذمت کے حوالے سے منایا جاتا ہے میں لاہور سے گجرات تک کے سفر میں اس مسئلے پر غور کرتا رہا کہ ایک مقبول مطالبہ یعنی ذریعہ تعلیم مادری زبان ہونا چاہئے کے حق میں کیا دلائل دیئے جا سکتے ہیں لیکن ہر بار ایک رکاوٹ میرے سامنے آ کھڑی ہوتی، مثلاً میں نے سوچا کہ کراچی کے تعلیمی اداروں میں ایک ہی کلاس میں بیٹھ کر پڑھنے والے پٹھانوں، پنجابیوں، سندھیوں، بلوچوں اور مہاجروں“ کے بچوں کو ان کی مادری زبان میں علیحدہ علیحدہ کیسے تعلیم دی جائے گی، بلوچستان میں دس مادری زبانیں ہیں، کیا یہ زبانیں بولنے والے بچوں کو مختلف خانوں میں تبدیل کر دیا جائے گا اور ہر گروپ کی زبان کے لئے علیحدہ استاد ہو گا؟ اس صورتحال کا سامنا صوبہ سرحد میں کیا جائے گا۔ مشرقی پاکستان میں صرف ایک زبان بولی جاتی تھی اور یہ بنگلہ زبان تھی اور یوں ان کا مطالبہ سو فیصد جائز تھا لیکن ہم نے اپنا آدھا ملک گنوا لیا، مگر اردو پر ”آنچ“ نہیں آنے دی جبکہ موجودہ پاکستان میں اس سے بالکل مختلف صورتحال ہے جس کا ایک پہلو تو میں نے ابھی بیان کیا ہے جبکہ دوسرا پہلو یہ ہے کہ پنجاب خصوصاً اور دوسرے صوبوں کے لوگ عموماً شدید احساس کمتری کے تحت اپنے بچوں کی ”مادری زبان“ اردو یا انگریزی بنانے پر تلے ہوئے ہیں، لوئر مڈل کلاس، اپنے گھر میں بچوں کے ساتھ غلط ملط اردو بول کر انہیں ”اپ گریڈ کرنے کی کوشش کرتی ہے اور مڈل اور اپر کلاس کے لوگ اپنے بچوں کو ”گڑھتی“ بھی انگریزی زبان ہی کی دیتے ہیں، پنجابی کے حامیوں میں سے کسی ایک کے بچوں کے ساتھ آپ پنجابی میں بات کر کے دیکھیں، وہ آپ کو جواب گلابی اردو یا گلابی انگریزی میں دے گا، ان سب کے بچے انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھتے ہیں اور اس پر فخر کا اظہار بھی کرتے ہیں!
خواتین و حضرات! صورتحال یہ ہے کہ ابھی تو ہماری قومی زبان اردو کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں، اسے اس کا وہ مقام ہی نہیں دیا گیا جس کا وعدہ کیا گیا تھا، چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ بین الاقوامی زبان انگریزی، قومی زبان اردو کے علاوہ مادری زبانوں کو بیک وقت ان کے حقوق ادا کئے جائیں اسی طرح پورے ملک میں ایک نظام تعلیم اور ایک ذریعہ تعلیم رائج ہو، لیکن کیا پرائیویٹ تعلیمی ادارے کسی ضابطے قانون کی زد میں آ سکتے ہیں یا کوئی مائی کا لال انہیں اس ضابطے میں لانے کی جرأت کر سکتا ہے کیا ایک طبقاتی نظام والے ملک میں جہاں ایچی سن کالج اور ٹاٹ والے اسکول الگ الگ طبقوں کے لئے بنائے گئے ہوں، کسی قومی سوچ کا الگ جزیرہ قائم کیا جا سکتا ہے؟ شاید ابھی نہیں اور ہمارے ہاں شاید کبھی نہیں!
اور اب آخر میں ایک تجویز، تاہم واضح رہے اس کا کوئی تعلق آج کے سیمینار سے نہیں، نور الہدیٰ شاہ نے الحمراء آرٹس کونسل کی ادبی و ثقافتی کانفرنس میں ایک بہت خوبصورت بات کہی تھی، ان کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ خوبصورت زبان سچ کی زبان ہے۔ میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ اردو اگرچہ ہماری قومی اور سرکاری زبان ہو، اسکولوں میں بیشک مادری زبانیں رائج کر دی جائیں اور انگریزی ہماری بین الاقوامی زبان ہو لیکن جس زبان کو فروغ دینے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، وہ سچ کی زبان ہے۔ مجھے یاد ہے ایک زمانے میں جگہ جگہ لکھا ہوتا تھا ”اردو بولو اردو پڑھو، اردو لکھو!“ ہم سمجھ بیٹھے تھے کہ اردو مشرقی اور مغربی پاکستان کو یکجا رکھنے میں مدد گار ثابت ہو گی لیکن یہ ہماری بھول تھی، مشرقی پاکستان زبان اور ثقافت کی بنیاد پر ہم سے الگ ہو گیا، اگر پوری قوم نے سچ کو اپنی زبان بنایا ہوتا، ان دنوں ہمارا میڈیا سچ بول رہا ہوتا اور ہمارے حکمران ہمیں حالات کی سچی تصویر دکھا رہے ہوتے تو ہمیں وہ روز بد نہ دیکھنا پڑتا جس روز ہماری فوج نے انڈیا کے جنرل اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈالے۔ آج بھی پاکستان جس انتشار کا شکار ہے، اس کی وجہ اس زبان سے کنارہ کشی ہے جو سچ کی زبان ہے۔ کیوں نہ آج ہم یہ فیصلہ کر کے اٹھیں کہ ہم نے باقی ماندہ پاکستان کو مضبوط اور مستحکم بنانا ہے اور اس کے لئے آج ہی سے جگہ جگہ وال چاکنگ کریں ”سچ بولو، سچ پڑھو، سچ لکھو“ … کیا اس سلوگن میں ہمارے تمام مسائل کا حل مضمر نہیں ہے؟
(گجرات یونیورسٹی میں منعقدہ قومی سیمینار میں پڑھا گیا)
تازہ ترین