• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر۔۔روبینہ خان ۔۔۔مانچسٹر
جلد بازی اور بیان بازی روبینہ خان مانچسٹرعام لوگوں کی زندگی کی جلد بازی اور سیاسی لوگوں کی بیان بازی کا منطقی انجام رسوائی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا وجہ ظاہر ہے ان دونوں عوامل میں جسم انسانی کا بہترین حصہ یعنی دماغ کا استعمال موقوف ہوتا ہے۔لہٰذاسیاسی میدان میں موصوف یا موصوفہ جو بھی بیان بازیاں کرتے ہیں ، ان کے بیانات پر مزاحیہ ٹوٹے زیادہ مناسب معلوم ہوتے ہیں۔سوچ، الفاظ کا چناؤ ، ہماری سیاست کی بیان بازیوں سے اتنا دور ہے جتنا زمین سے آسمان۔ ایسے میں جائیں تو جائیں کہاں !بس دعا پر یقین کریں اور انتظار کریں کہ کب ایسے لوگوں کی کھیپ تیار ہوگی جو حقیقی منصوبوں پر عمل کریں گے اور بیان بازیوں سے زیادہ کام پر توجہ دیں گے۔ یہ اور بات ہے کہ سیاسی کرداروں سے ان کی کارکردگی کے بارے میں پوچھیں تو ان کا اپنی نظر میں مقام بہت ہی بلند نظر آتا ہے عقل میں آئن اسٹائن اور پاکیزگی میں فرشتوں سےکچھ ہی درجے کم سمجھتے ہوں گے یہ بھی ہمارا خیال ہے ہوسکتا ہے وہ اپنے آپ کو فرشتوں جیسا ہی سمجھتے ہوں۔ پاکستانی آ ج کل ایک اور ٹینشن میں بھی ہیں اور اس ٹینشن کی وجہ ایک بار پھر بیان بازیاں ہیں اور وہ بھی قبل از وقت۔مباحثہ کے اس سلسلے کا عنوان ہے کہ کیا سابق وزیراعظم نواز شریف کو علاج کے لیے پاکستان سے باہر جانے کی اجازت مل جائے گی ان کا نام ای سی ایل سے نکالا جا سکے گا یا نہیں۔ پورے ملک کو ایک بار پھر کسی بحث میں ڈالنے کا سہرا اور لوگوں کے ساتھ نواز شریف کے بیٹے کے سر بھی ہے جن کی جلد بازی کے بیان نے سب کے کان کھڑے کر دیے۔ نواز شریف کی لندن روانگی کی خبر اخبارات میں چھپی ہی تھی کہ بیٹے صاحب ٹویٹ کے ذریعے ناراض ہوگئے کہ" لو یہ ہم جا رہے ہیں " چھوٹا بھائی بڑے بھائی کو نکال کر لے گئے۔بھائیوں کو پہلے جہاز میں تو بیٹھنے دو پھر کوئی بات منہ سے نکالنا لیکن نہیں جلد بازی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ادھر حکومتی مشینری کوبھی جلال آگیا اور وہ بھی جوابی نعرہ ہوئے" جاتے ہو جان جاناں 7ملین دیتے جانا….. بنتے ہوئے کام کو بگاڑنے کے لیے کامن سینس کی عدم موجودگی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔اور یہ باافراط دستیاب ہے۔کیا آپ اس کشمکش کا اندازہ لگا سکتے ہیں جب دو چار ہاتھ دور منزل ہو اور ایک دم پھرسراب بن جائے۔ہمارے کلچر میں جب بچے کوئی کام خراب کرتے ہیں تو ان پر ایک دو ہاتھ جڑ دیے جاتے ہیں۔ لیکن یورپ کے کلچر میں بچے پولیس کو بلالیتے ہیں کہ یہ ان کا بنیادی حق ہے کہ ان پر دست درازی نہ کی جائے۔ تو محترم نواز شریف پہلے تو بیماری سے پریشان ہیں دوسرے بچوں کی ٹھکائی کے لیے ان کو کم از کم پاکستان ایئرپورٹ تک لانا ہوگا جو کہ کچھ مناسب فیصلہ معلوم نہیں ہوتا.بیمار شخص کے لیے ویسے بھی سبھی لوگوں کی ہمدردیاں اور دعائیں ہوتی ہیں اور خاص طور پر اس صورت حال میں پاکستان تحریک انصاف کے لوگ بھی نواز شریف کے لئے دعا گو ہیں۔ ایک تو سیاسی طور پریہ بہت ضروری ہے اور دوسرے ہمارا کلچر ہے کہ " دشمن مرے تے خوشی نہ کریے سجناں وی مر جانا۔بیان بازیوں کی بڑھکوں سے وزیراعظم عمران خان بھی مبرا نہیں ہیں۔کاش مجمع کو خوش کرنے کے لئےوہ ایسی باتوں کو ریپیٹ پر نہ لگاتے جو خواہ پاکستان میں ہو یا امریکہ کے کسی عرینہ میں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے ہوکہ "کیا میں نواز شریف کو جیل میں ایئرکنڈیشنر لگا دوں۔ یہ نہ ہی ان کا یہ کام ہے۔ ان کا کام ہے کہ پاکستان کے عوام کے لیےکچھ کام اور سیریز فیصلے کر یں یہ تو مجمع کو خوش کرنے والی تقریر ہے۔ہاں اقوام متحدہ میں وزیراعظم کی دبنگ تقریر نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو خوشی فراہم کی۔قومی لیڈر کے لیے تو یہ چیز اور بھی ضروری ہو جاتی ہے سوچ ،تدبراور الفاظ کے چناؤ کو پذیرائی ملتی ہے۔وزیروں اور مشیروں کے لیے جہاں پر بات کرنا ضروری ہوتا ہے وہاں پر وزیر اعلیٰ پنجاب جیسے لوگ بھی ہیں جو خاموشی کی زبان میں گفتگو کرتے ہیں جو ایک علیحدہ موضوع ہے۔معاون خصوصی اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا ویکیپیڈیا میں تعارف میں لکھا ہے ، پاکستانی سیاست دان خاتون، جو دہقانی لہجے میں بے تکان گفتگو کرنے کے حوالے سے پہچانی جاتی ہیں۔ اس میں اضافہ یہ ہے کہ وہ اس لب و لہجے میں انگلش کے الفاظ کو استعمال کرتی ہے جیسے اردو کے الفاظ غلطی سےشامل ہوگئے ہیں۔ کے پی کے میں آنے والے زلزلے کے بعد انہوں نے تمسخرانہ انداز میں اپنےقائد کے تبدیلی کے نعرے کو استعمال کیا اور کہا کہ" اب زمین بھی تبدیلی چاہتی ہے۔خواتین حضرات کیا مانتے ہیں کہ زلزلہ ایسی قدرتی آفت پر مذاق کیا جاسکتا ہے جب کہ آپ کے منہ کے آگے دس پندرہ مائیک لگے ہو جو آپ کی باتیں ریکارڈ کر رہے ھوں۔ قائداعظم محمدعلی جناح جیسے لیڈر اور بانی پاکستان کے، پاکستان میں ایسے بیانات کی کوئی گنجائش نہیں۔قائداعظم نے فرمایا "یقین ،نظم وضبط اور بے لوث لگن کے ساتھ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو حاصل نہیں کی جاسکتی۔ ان کے بیانات کچھ اس طرح سے ہوتے تھے" اگر ہم اس عظیم مملکت پاکستان کو خوش اور خوشحال بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی پوری توجہ لوگوں خصوصا غریب طبقے کی فلاح و بہبود پر مرکوز کرنی پڑے گی۔ سیکھنے کے لئے دنیا بھر کے لیڈروں سے اچھی باتیں سیکھی جا سکتی ہیں۔ جون ایڈمز کہتے ہیں اگر آپ کے عمل سے لوگوں میں حوصلہ پیدا ہوتا ہے تو زیادہ سے زیادہ خواب دیکھیں زیادہ سے زیادہ سیکھیں، زیادہ سے زیادہ عمل کریں اور بڑا کام کر جائیں۔ قوموں کی تقدیروں کو بدلنے کے لیے رہنماؤں اور لیڈروں کی ضرورت ہوتی ہے۔کروڑوں عوام کی قسمت اور زندگی کا دارومدار حکومتی فیصلوں اور کاموں پر ہوتا ہے۔عوام امید کرتے ہیں کہ وہ بڑے کام کے لیے سنجیدہ بیانات دیں اورعملی اقدامات کریں۔ ایک چھوٹا لیکن بہت ہی اہم یونٹ گھر یا فیملی ہوتا ہے جس کا سربراہ والدین ہوتے ہیں اور ان کی ذمہ داری بچوں کی تعلیم و تربیت اور شادی بیاہ جیسی ہوتی ہے۔ یہاںاور عام طور پر ایسے ہیں جو کہ تسلسل سےچلے آرہے ہیں خاندانوں میں چلی آرہی ہوتے ہیں یعنی ہماری باپ نے کیا تھا۔
تازہ ترین