• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
٭… حضرت امیر حمزہؓ، حضرت عبیدہ بن حارثؓ اورحضرت سعدبن ابی وقاصؓ کی قیادت میں بھیجے گئے مسلّح دستوں کا مختلف مقامات پر کفّارِ مکّہ کے قافلوں سے آمنا سامنا ہوا، تاہم، ان تینوں سرایا میں جنگ کی نوبت نہیں آئی۔ ایک موقعے پر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے کفّار پر تیر پھینکا۔ یہ اسلام کی تاریخ کا پہلا تیر تھا، جو کفّار پر پھینکا گیا۔

نبی کریمﷺ اعلیٰ پائے کے سپہ سالار بھی تھے، چناں چہ مدینہ منوّرہ پر کفّارِ مکّہ کے ممکنہ حملوں کے پیش نظر آپﷺ نے صحابہ کرامؓ خصوصاً انصارِ مدینہ کی عسکری تربیت کا اہتمام کیا، جس میں ہر طرح کے سامانِ حرب کا استعمال، جفاکشی کی صلاحیت، فوجی رموز و اشارات کا استعمال، خبر رسانی کا مضبوط و منظّم نظام، صف بندی کی مشق، جسمانی ورزشیں اور سرحدی گشت شامل تھے۔ جنگ کی اجازت ملنے کے باوجود نبیٔ رحمت ﷺ کی پوری کوشش تھی کہ جنگ و قتال کی نوبت نہ آئے اور امن کا معاہدہ ہو جائے، لیکن دوسری طرف باطل قوّتوں کے غیظ و غضب کا آتش فشاں ہرگزرتے دن کے ساتھ مزید لاوا اُگلنے لگا تھا۔ 

غزوۂ بدر، غزوۂ اُحد اور غزوۂ خندق جیسی ابتدائی جنگیں کفّارِ مکّہ کے حملوں کے نتیجے میں مکّۃ المکرّمہ سے سیکڑوں میل دُور مدینہ منوّرہ کے قرب و جوار میں ہوئیں، جن میں سامانِ حرب اور عددی قوّت کی کمی کے باوجود مُٹھی بھر مجاہدین کی جنگی مہارت، شجاعت و بہادری کے کارنامے دیکھ کر دنیا کے ماہرینِ حرب انگشت بدنداں رہ گئے۔ یہ عزم و ہمّت کے پیکر اپنی راتیں بارگاہِ خداوندی میں آہ وزاری کرتے اور دن گھوڑوں کی پیٹھ پر اس طرح گزارتے کہ دشمن اُن کی ہیبت سے کانپتے تھے۔علاّمہ اقبال نے ایسے ہی سرفروشوں کے بارے میں کہا تھا؎

دونیم اُن کی ٹھوکر سے صحرا و دریا…سمٹ کر پہاڑ اُن کی ہیبت سے رائی۔

سَرِیّہ سیف البحر

رمضان 1ہجری، مارچ623ء

ہجرتِ مدینہ کے ساتویں مہینے نبی کریمﷺ نے حضرت امیر حمزہؓ کی امارت میں تیس مجاہدین پر مشتمل ایک لشکر روانہ کیا تاکہ وہ شام سے آنے والے قریش کے300 افراد پر مشتمل قافلے کا پتا لگائے، جس کی قیادت ابوجہل کر رہا تھا۔ مسلمان اُس قافلے کی تلاش میں ’’عیص‘‘ کی جانب سے بحرِ احمر کے ساحل پر پہنچے، تو اُن کا کفّارِ مکّہ سے آمنا سامنا ہو گیا۔ دونوں جنگ کے لیے صف آرا ہو گئے اور مسلمانوں نے کمانوں پر تیر چڑھا لیے۔ مسلمانوں کا اِس طرح جنگ کے لیے تیار ہو جانا ابوجہل کے لیے بے حد حیران کُن تھا، کیوں کہ یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمان، کفّار کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار تھے۔ اِس سے پہلے کہ جنگ کا آغاز ہوتا، قبیلہ جہینہ کا سردار، مجدی بن عمرو الجہنی درمیان میں حائل ہو گیا۔ وہ مسلمان اور کفّارِ مکّہ یعنی دونوں کا حلیف تھا۔ اُس کی بھاگ دوڑ سے جنگ ٹل گئی۔

یوں کفّار اپنے گھروں کو اور مسلمان مدینہ منوّرہ کی جانب واپس لَوٹ گئے۔ نبی کریمﷺ کا یہ لشکر بھیجنے کا مقصد کفّارِ مکّہ اور ابوجہل کو ایک سخت پیغام پہنچانا تھا، جو اُن تک پہنچ گیا۔ سِیف البحر کے معنی’’ ساحلِ سمندر‘‘ ہیں۔ یہاں سیف کے’’ س‘‘ کے نیچے زیر ہے، جس کا مطلب ساحل ہے۔ یہ اسلامی تاریخ کا پہلا سَرِیّہ تھا۔ سرکارِ دوعالمﷺ نے حضرت امیر حمزہؓ کو اپنے دستِ مبارک سے سفید رنگ کا جھنڈا دیا، جب کہ لشکر کے عَلم بردار، حضرت ابو مرثد کنازؓ بن حصین تھے۔ بعض محقّقین کا قول ہے کہ اس لشکر میں نصف مہاجرین اور نصف انصار تھے، لیکن اہلِ سیر کا اجماع ہے کہ یہ لشکر صرف مہاجرین پر مشتمل تھا اور اس میں مدینے کا کوئی انصار شامل نہیں تھا۔ 

حضورﷺ نے انصار کو غزوۂ بدر سے لشکروں میں شامل کرنا شروع فرمایا تھا، اس سے پہلے اُنہیں کسی فوجی مہم پر نہیں بھیجا گیا(طبقات ابنِ سعد)۔اس سَرِیّہ کے امیر، حضرت حمزہؓ بن عبدالمطلب بن ہاشم، رسول اللہﷺ کے چچا، رضاعی بھائی اور ہم عُمر تھے۔ آپؓ مضبوط اور پھرتیلے جسم کے مالک، نہایت بارُعب، بہادر، نڈر جنگ جُو، شہہ سوار، شمشیر زنی کے ماہر، ظاہری و باطنی حُسن و جمال اور جاہ و جلال کے پیکر تھے۔ مزاج ذرا سخت تھا۔ شکار کے شوقین تھے۔ ایک سہ پہر شکار سے واپس آ رہے تھے کہ ملازمہ نے اطلاع دی’’ ابوجہل نے تمہارے بھتیجے (حضرت)  محمّد(ﷺ) کے ساتھ بدسلوکی کی ہے‘‘، یہ سُننا تھا کہ اُسی وقت ابوجہل کو تلاش کرتے ہوئے خانۂ کعبہ پہنچ گئے اور اُس کے سَر پر اس زور سے کمان ماری کہ سَر سے خون کا فوّارہ پھوٹ پڑا۔ اس واقعے کے بعد ہی حضرت امیر حمزہؓ نے اسلام قبول کیا تھا۔ اُن کی بہادری اور شجاعت کی بناء پر قریش کے تمام سردار اُن کے خون کے پیاسے تھے۔ 

غزوۂ اُحد میں تنِ تنہا تیس کافروں کو واصلِ جہنّم کیا۔ ابوسفیان کی بیوی، ہندہ بنتِ عتبہ کے حبشی غلام، وحشی نے انعام کے لالچ میں اُنہیں جنگ کے دَوران شہید کردیا۔ ہندہ نے آپؓ کا دِل نکال کر چبایا اور ناک، کان کاٹ کر زیور بنا کے گلے میں پہن لیے۔ اُحد کے میدان میں جبلِ اُحد اور جبلِ رماۃ کے درمیان ایک احاطے میں آپؓ اپنے70رفقاء کے ساتھ محوِ استراحت ہیں۔ رسول اللہﷺ کو اُن سے بہت محبّت تھی اور آپﷺ کو ان کی شہادت کا بے حد دُکھ تھا، لیکن اس کے باوجود جب وحشی نے اسلام قبول کر لیا، تو آپﷺ نے اُسے معاف کر دیا۔

سَرِیّہ عبیدہ ؓبن حارث

شوال 1ہجری، اپریل623ء

ہجرت کا آٹھواں مہینہ تھا۔ سرکارِ مدینہﷺ نے حضرت عبیدہؓ بن حارث کی امارت میں60مہاجرین پر مشتمل ایک لشکر روانہ کیا۔ یہ لشکر، حجفہ سے10میل دُور ،رابغ کی وادی میں’’احیاء‘‘ نامی چشمے پر پہنچا، تو اُن کا مکّہ مکرّمہ کے سردار، ابو سفیان سےآمنا سامنا ہوا، جس کے ساتھ دو سو کے لگ بھگ قریش تھے۔ دونوں فریق لڑائی کے لیے تیار تھے کہ اچانک حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے کفّار پر تیر پھینکا۔ یہ مسلمانوں کی طرف سے اسلام کی تاریخ کا پہلا تیر تھا، جو کفّار پر پھینکا گیا۔ ایک ماہ قبل رمضان میں حضرت حمزہؓ کی سربراہی میں مسلمانوں کے لشکر کو دیکھ کر ابوجہل حیران و پریشان ہو گیا تھا اور اب حیران ہونے کی باری ابوسفیان کی تھی۔ 

اُن کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ تیرہ سال تک ہر ظلم و زیادتی برداشت کرنے والے مسلمان چند ہی ماہ بعد سینہ تان کر اُن کے مقابل آ کھڑے ہوں گے۔ چناں چہ یہاں بھی جنگ کی نوبت نہیں آئی اور ابوسفیان اپنے ساتھیوں کو لے کر اپنی راہ ہو لیا۔ اس سَرِیّہ کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ دو مسلمان، حضرت مقدادؓ بن عمرو البہرانی اور حضرت عتبہؓ بن غذوان المازنی کفّار کے لشکر سے نکل کر مسلمانوں سے آ ملے۔ یہ دونوں صحابیؓ اسی غرض سے کفّار کے لشکر میں شامل ہوئے تھے کہ موقع ملنے پر مدینہ منوّرہ چلے جائیں گے یا کہیں بھی مسلمانوں سے جا ملیں گے۔ اس سَرِیّہ میں عَلم سفید تھا اور اس کے علم بردار، حضرت مسطحؓ بن اثاثہ بن مُطلب تھے۔ حضرت عبیدہؓ بن حارث، حضورﷺ کے تایا، حارث کے صاحب زادے تھے۔ حارث، حضرت عبدالمطلب کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ عبیدہؓ بن حارث غزوۂ بدر میں شریک تھے۔ 

جب جنگ شروع ہوئی، تو کفّار نے عرب کے رواج کے مطابق تین افراد عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ کو میدان میں اُتارا۔ سرکارِ دوعالمﷺ نے اُن کے مقابلے کے لیے عوف بن عفراءؓ، معوذ بن عفراءؓ اور عبداللہ بن رواحہؓ کو بھیجا، لیکن عتبہ نے لڑنے سے انکار کردیا اور بلند آواز سے کہا’’ ہمارے مقابلے میں ہمارے ہم پلّہ قریش کے لوگوں کو بھیجو۔‘‘ چناں چہ نبی کریمﷺ نے عتبہ کے مقابلے میں اپنے چچا حضرت حمزہؓ کو، عتبہ کے بھائی شیبہ کے مقابلے میں اپنے تایا زاد بھائی، حضرت عبیدہؓ کو اور عتبہ کے بیٹے ولید کے مقابلے میں اپنے چچا زاد بھائی، حضرت علیؓ کو میدان میں اُتارا۔ حضرت حمزہؓ اور حضرت علیؓ نے پہلے ہی وار میں اپنے حریفوں کے سَر قلم کر دیئے، لیکن شیبہ نے حضرت عبیدہؓ بن حارث کو زخمی کر دیا۔ حضرت علیؓ اور حضرت حمزہؓ نے جب یہ دیکھا، تو نہایت پُھرتی سے شیبہ کو تلوار کے ایک ہی وار سے واصلِ جہنّم کر دیا اور حضرت عبیدہؓ کو لے کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ فتحِ بدر کے بعد واپسی پر وادیٔ صغراء کے مقام پر اُن کا انتقال ہو گیا۔

سَرِیّہ سعد بن ابی وقاصؓ

ذی قعدہ 1ہجری، مئی623ء

اسے’’ سَرِیّہ خَرّار‘‘ بھی کہتے ہیں۔ ہجرت کے نویں مہینے رسول اللہ ﷺ نے 20مجاہدین پر مشتمل ایک دستے کی امارت حضرت سعدبن ابی وقاصؓ کو سونپی اور اُنہیں قریش کے ایک قافلے کا پتا لگانے کے لیے خرّار کی جانب روانہ کیا۔ خرّار، اُن چند کنوئوں کو کہتے ہیں، جو حجفہ سے مکّہ مکرّمہ کی جانب جاتے ہوئے بائیں طرف، خم کے قریب واقع تھے۔ یہ دستہ پیدل روانہ ہوا۔ یہ لوگ رات میں سفر کرتے اور دن میں کسی گھاٹی میں چُھپے رہتے۔ 

اس طرح پانچویں روز صبح خرّار پہنچے، تو معلوم ہوا کہ قریش کا قافلہ رات کو وہاں سے گزر چُکا تھا۔ حضورﷺ نے اُنھیں تاکید فرما دی تھی کہ خرّار سے آگے نہیں جانا، چناں چہ وہ واپس مدینہ منوّرہ لَوٹ آئے۔ اس لشکر کا عَلم سفید تھا اور حضرت مقدادؓ بن عمرو عَلم بردار تھے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، سرکارِ دو عالمﷺ کے ننھیالی رشتے داروں میں سے ہیں۔ آپؓ نے سترہ سال کی عُمر میں اُس وقت اسلام قبول کیا، جب صرف تین یا چار افراد ہی مسلمان ہوئے تھے۔ آپؓ کا شمار’’ عشرۂ مبشرہ ‘‘میں ہوتا ہے، یعنی وہ دس صحابۂ کرامؓ جنہیں رسول اللہﷺ نے اُن کی زندگی ہی میں جنّت کی بشارت دی تھی۔ 

اسلام کے ابتدائی دنوں میں اجیاد کی گھاٹیوں میں کافروں کے خون کا پہلا قطرہ آپؓ ہی کے ہاتھوں زمین پر گرا۔ اللہ کی راہ میں کفّار پر پہلا تیر بھی آپؓ ہی نے چلایا، جس سے ڈر کر ابو سفیان نے اپنے قافلے کے ساتھ راہِ فرار اختیار کی۔ آپؓ تمام غزوات میں نبی کریمﷺ کے ساتھ رہے۔ غزوۂ اُحد میں ایک موقعے پر جب کفّار مسلمانوں پر بڑھ چڑھ کر حملے کر رہے تھے، یہاں تک کہ سرکارِ دوعالمﷺ کو نقصان پہنچانے کے درپے تھے، اُس موقعے پر حضورﷺ نے حضرت سعدؓ کو دیکھ کر فرمایا’’ یا سعد ارم، فداک أبی وأمی‘‘ ’’تیر چلائو، اے سعد تیر چلائو، میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں‘‘(بخاری)۔ اس جنگ میں حضرت سعدؓ نے ایک ہزار تیر چلائے۔ 

آپؓ مہمِ فارس کے سپہ سالار اور مدائن و کسریٰ کے فاتح ہیں۔ کوفہ شہر آپؓ نے بسایا اور نہرِ سعد آپؓ ہی کی یادگار ہے۔ حضرت عُمرؓ کے زمانے میں ایک عرصے تک عراق کے گورنر رہے۔ غزوۂ اُحد میں لڑائی کے دَوران دیکھا کہ رسول اللہﷺ کے دائیں بائیں سفید کپڑوں میں ملبوس دو افراد موجود ہیں، جنہیں پہلے کبھی دیکھا گیا اور نہ بعد میں، وہ حضرت جبرائیلؑ اور حضرت میکائیلؑ تھے، اس طرح آپؓ نے فرشتوں کی زیارت کی۔ جنگِ فارس میں ایک موقعے پر دریائے دجلہ پار کرنے کے لیے کوئی کشتی میّسر نہ تھی، چناں چہ آپؓ نے اپنی فوج کے ساتھ اپنے گھوڑے کو دریا کے بِپھرے پانی میں ڈال دیا۔ 

دریا کی بے قابو لہروں نے اللہ کے ان سپاہیوں کو دیکھا، تو پُرسکون ہو گئیں۔ دریا کے اُس پار کھڑے ایرانیوں نے جب یہ منظر دیکھا، تو اُن پر ہیبت طاری ہو گئی اور وہ مسلمانوں کو کوئی اور مخلوق سمجھ کر شہر سے بھاگ نکلے۔ اسی واقعے پر علّامہ اقبال نے فرمایا؎’’دشت تو دشت ہیں، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے…بحرِ ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے۔‘‘ حضرت سعدبن ابی وقاصؓ نے 16 ہجری کے ماہِ صفر میں ایران فتح کیا۔ اُس وقت کسریٰ کے خزانوں میں تین ارب دینار موجود تھے۔ اس کے علاوہ جو مالِ غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا، اس کی بھی لمبی چوڑی فہرست ہے۔ حضرت سعد بن وقاصؓ نے55ہجری میں80سال کی عُمر میں وفات پائی۔ (جاری ہے)

تازہ ترین