• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
, ,

زمین گنگناتی ہے، سائنسدانوں کا انکشاف

زمین گنگناتی ہے، سائنسدانوں کا انکشاف


ماہرین فلکیات نے انکشاف کیا ہے کہ کرۂ ارض جس پر انسان بستا ہے وہ بھی گنگناتی ہے جسے ریکارڈ بھی کیا گیا ہے۔

موسیقی کے بارے میں ہر انسان ہی جانتا ہے کہ اسے انسان نے ترتیب دیا ہے اور مختلف آلات کی مدد سے علیحدہ علیحدہ طرح کی آوازیں پیدا کی جاتی ہیں جنہیں ہم دھنیں کہتے ہیں۔

مذکورہ بات کو مد نظر رکھتے ہوئے سائنسدانوں کے انکشاف پر حیرانی بھی ہوتی ہے تاہم ان کے پاس اس کا مشاہدہ بھی موجود ہے۔

برطانوی ٹیبلائڈ کی رپورٹ کے مطابق ماہر فلکیات کا کہنا ہے کہ زمین بھی موسیقی کی دھن اپنے اندر سے نکالتی ہے، تاہم یہاں سوال یہ ابھرتا ہے کہ یہ سب ہوتا کیسے ہے؟

ماہر فلکیات کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ جب سورج سے چارج پارٹیکلز نکلتے ہیں اور وہ زمین کے قریب پہنچ کر اس کی آب و ہوا سے ٹکراتے ہیں تو ایک خوفناک آواز پیدا ہوتی ہے جو مسلسل ہونے کی وجہ سے ایک سُر کی طرح کی ویو (Wave) بناتی ہے اور جب ان ویو کی نقل کی آواز ترتیب دی جائے تو وہ ایک میوزک کی طرح سنائی دیتی ہے۔

یورپین اسپیس ایجنسی (ای ایس اے) کے ماہرین نے مگنیٹک ویوز کا تجزیہ کیا اور اس آواز کو سننے والی ارتعاش میں تبدیل کیا اور اسے سننے کے قابل بنایا۔

ان ویوز کی اس وقت شناخت ہوئی جب ایجنسی نے اپنے 4 اسپیس ایئرکرافٹس کو زمین کے مقناطیسی میدان کے فورشاک خطے میں سے گزار کر خلا میں بھیجے جو سب سے پہلے سورج کا سامنا کرتے ہیں اور یہی وہ حصہ ہے جو سورج کی شعاؤں کا سب سے پہلے مقابلہ کرتا ہے۔

عام طور پر سورج سے نکلنے والے مسلسل چارجڈ پارٹیکلز جو سولر ونڈ میں تبدیل ہوجاتے ہیں، فورشاک پر اثرانداز ہوتے ہوئے میگنیٹک ویو نکالنے کا سبب بنتے ہیں جس سے ایسی ویوز پیدا ہوتی ہیں۔

اس ویو کو سننے کے قابل بنایا جائے تو وہ ایک میوزک جیسی سنائی دیتی ہے۔

اس تحقیق کے لیے ای ایس اے کے کلسٹر ٹو مشن نے ڈیٹا جمع کیا، اس نے 4 ایک جیسے اسپیس ایئرکرافٹ خلا میں متعین کیے جو دنیا کے مقناطیسی کرہ کے ارد گرد گھوم رہے تھے۔

ای ایس اے نے اس مہم کا آغاز سن 2000 میں کیا تھا جو تقریباً 2 دہائیوں سے زمین کی وسیع مقناطیسی میدان کا جائزہ لیتا رہا ہے۔

اپنے مشن کے ابتدائی وقت میں 2001 سے لے کر 2005 تک یہ اسپیس جہاز فورشاک اور سولر اسٹروم کے ٹکراؤ کے درمیان سے گزرے اور اس دوران انہوں نے ان ویزوز کو ریکارڈ کیا جو ٹکراؤ سے پیدا ہوئیں۔

سولر اسٹروم یا سورج کی شعاؤں سے پیدا ہونے والی ان پیچیدہ ویوز کے نمونے بنانے کے لیے مذکورہ ٹیم نے کمپیوٹر کی مدد لیتے ہوئے ان کی نقول تیار کیں۔

اس تیز عمل میں جو ویوز فور شاک پر پیدا ہوتی ہیں انہیں زمین تک پہنچنے میں 10 منٹ لگ جاتے ہیں تاہم اب سائنس دان اس بات کو جاننے کے لیے کوشاں ہیں کہ آخر یہ ویوز کس طرح پیدا ہوتی ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین
تازہ ترین