زین الاسلام
میرے نزدیک فیض ایک شاعر، مفکر اور سیاسی و سماجی رہنما سے سے بڑھ کر ایک ایساعظیم انسانی کردار ہیں ، جو جدید انسانی معاشرے کے فرد کے لئے ایک ’آئیڈیل ‘ کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔
فیض سے اپنی والہانگی کے اظہار کی ایک اور کوشش کرتے ہوئے اپنی یہ خواہش ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ کاش ! میرے شہر کے کسی چوراہے، پارک یا شاہراہ پر فیض کا ایک بہت بڑا مجسمہ نصب ہوتا۔۔۔ کسی بہت منجھے ہوئے مجسمہ ساز کی شاہکار تخلیق ۔۔۔ جس میں فیض اپنی روایتی مسکراہٹ لئے کھڑے ہوتے ، اور میں ہر شام بہت دیر تک اس مجسمہ کو دیکھاکرتا ۔ فیض کے رومان میں ڈوبا جب کبھی اس خواہش کو اپنے دل میں لاتا ہوں ، تو ذہن میں ایک سوا ل اٹھتا ہے کہ اگر کبھی ایسا ہوا تو کہیں مجسمہ سازاپنے شاہکار میں فیض کی پیشانی پر یہ شعر تو نہیں لکھ دے گا؟
مقام، فیض ! کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
اگرایسا ہوا تو یہ اس بات کی دلیل ہوگا کہ مجسمہ ساز فیض کا محض قصیدہ گو نہیں ، بلکہ پیغام ِ فیض نہیں ، بلکہ پیغام ِ فیض سمجھنے والا بھی ہے ۔
فیض کا پیغام! جسے وسیع مفہوم میں تمام ترقی پسند، انسان دوست تحاریک کا پیغام بھی کہا جا سکتا ہے ، دراصل امن کا پیغام ہے۔ اور ظاہر ہے امن سے مراد صرف جنگ بندی نہیں بلکہ عدل و انصاف بھی ہے ۔ اگر فیض کو اس ’اپروچ‘ سے پڑھا اورسمجھا جائے تو فیض کے شعری کلام اور ان کی صحافتی اورادبی تحریروں سے بلند ہونے والی سب سے طاقت ور آواز جنگ کے خاتمے کی ہی صدا ہے۔ فیض کو پڑھنے اور سمجھنے کی یہی وہ جہت ہے ، جس نے ہمیں اس بات کی جان کاری دی ہے کہ کلام فیض سے محض لطف طبع مقصود نہیں بلکہ یہ ایک انتہائی سنجیدہ پیغام بھی ہے۔ یعنی فیض کی غزلوں اور نظموں کوگانے اور انہیں سیاسی نعروں تک محدود کرنے کی بجائے ان سے ایک ایسی قابل تقلید جہت بھی دریافت کی جاسکتی ہے ، جس سے شاید ہم تہذیب کے سفر میں کہیں بہت دور پڑے خود کو چند گام تو آگے دھکیل ہی لیں گے۔ فیض نے ’’بین الاقوامی لینن امن انعام‘‘ کی تقریب کے دوران کی جانے والی اپنی تقریرمیں کہا تھا کہ؛
’’آج کل جب ہم ستاروں کی دنیا میں بیٹھ کر اپنی ہی دنیا کا نظارہ کر سکتے ہیں تو چھوٹی چھوٹی کمینگیاں، خودغرضیاں، یہ زمین کے چند ٹکڑوں کو بانٹنے کی کوششیں اور انسانوں کی چند ٹولیوں پر اپنا سکہ چلانے کی خواہش کیسی بعد ازعقل باتیں ہیں ، اب جبکہ سازی کائنات کے راستے ہم پر کشادہ ہو گئے ہیں ۔ ساری دنیا کے خزینے انسانی بس میں آ سکتے ہیں ، تو کیا انسانوں میں ذی شعور، منصف مزاج اور دیانت دار لوگوں کی اتنی تعداد موجود نہیں ہے جو سب کو منوا سکے کہ یہ جنگی اڈے سمیٹ لو، یہ بم اور راکٹ ، توپیں ، بندوقیں سمندر میں غرق کر دو اور ایک دوسرے پر قبضہ جمانے کی بجائے سب مل کر تسخیر کائنات کوچلو ، جہاں جگہ کی کوئی تنگی نہیں ہے ، جہاں کسی کو کسی سے الجھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، جہاں لا محدود فضائیں ہیں اور ان گنت دنیائیں ۔
فیض اُس شورش زدہ بیسویں صدی میں سانس لے رہے تھے ، جوتاریخ عالم میں جنگ و جدل اور قتل و غارت کے باعث ایک بھیانک حقیقت کی طرح ہمیشہ عبرت ناک باب بن کرزندہ رہے گی ۔ سامراجی طاقتوں کی جانب سے دنیا کے وسائل پر قبضہ کرنے اور زیر دست ، پست اقوام اور تیسری دنیا کو فتح کرنے کی کوشش میں فیض کے ارد گرد جو کچھ ہوا ، فیض نے اس پر اپنا ردعمل کچھ یوں ظاہر کیا ، گویا وہ سامراجی طاقتوں کے خلاف پوری دنیا کے مظلوم عوام اور جنگ کی ہولناکیوں کانشانہ بننے والے انسانوں کی ترجمانی کررہے ہوں ۔
فیض کے مجموعہ کلام ’’ شام شہریاراں‘‘ سے ’’ لینن گراڈ کا گورستان‘‘ کے عنون سے یہ نظم
سرد سلوں پر، زرد سلوں پر
تازہ گرم لہو کی صورت
گلدستوں کے چھینٹے ہیں
کتبے سب بے نام ہیں لیکن
ہر اک پھول پہ نام لکھا ہے
غافل سونے والے کا
یاد میں رونے والے کا
اپنے فرض سے فارغ ہو کر
اپنے لہو کی تان کے چادر
سارے بیٹے خواب میں ہیں
اپنے غموں کا ہار پروکر
اماں اکیلی جاگ رہی ہے
فیض نے جہاں جنگ کی تباہیوں اور وحشتوں کاذکر کیا ہے ، وہیں جنگ کی وجوہات اوراس کے پس پردہ حقائق کوبھی موضوع بنایا ۔ فیض کے نزدیک زمین پر جاری تمام جھگڑوں اور فساد کی جڑ عالمی سامراجی طاقتوں کا وہ نوآبادیاتی نظام ہے ، جس نے زمین کوٹکڑے ٹکڑے کیا اور انسان تقسیم در تقسیم ہوتا چلا گیا ۔ فیض نے ان سامراجی اور سرمایہ دارانہ قوتوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو انہیں جلا وطنی بھی برداشت کرنا پڑی اور زندان کی کال کوٹھڑی میں بھی بھیجے گئے ۔ سامراجیت اور سرمایہ داریت کے خلاف فیض کے عہد میں کئی دیگر آوازیں بھی بلند ہوئیں لیکن ظلم و بربریت کی موجب طاقتوں کے خلاف جس انداز میں فیض نے جدوجہد کی اس سے گویا فیض اسانیت دشمن طاقتوں اور نظریات کے خلاف ایک استعارہ بن گئے ہیں ۔
سامراجیت کے خلاف فیض کی جدوجہد محض ’’سامراج دشمنی‘‘ نہیں بلکہ انسان دوستی پر مبنی ہے ۔
انھوں نے جہاں اپنے وطن پاکستان کے تشویشناک حالات پر قلم اٹھایا ، وہیں افریقہ، لاطینی امریکہ اور مشرق وسطیٰ سمیت دنیا بھر کے مظلوم طبقات کے لئے آواز اٹھا کر یہ ثابت کیا کہ انسانیت سرحدوں کی محتاج نہیں، بلکہ یہ سرحدیں توانسان کو کمزورکرنے اوراقوام پراجارہ داری قائم کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں ۔ اس ضمن میں فلسطین کی آزادی کے لئے فیض کی جدوجہد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ فلسطین پر ان کی نظم ایک نظم بعنوان ’’فلسطینی شہداء جوپردیس میں کام آئے‘‘ ملاحظہ کریں:
میں جہاں پر بھی گیا ارض وطن
تیری تذلیل کے داغوں کی جلن دل میں لئے
تری حرمت کے چراغوں کی لگن دل میں لئے
تیری الفت ، تری یادوں کی کسک ساتھ گئی
تیرے نارنج شگوفوں کی مہک ساتھ گئی
سارے ان دیکھے رفیقوں کا جِلو ساتھ رہا
کتنے ہاتھوں سے ہم آغوش مرا ہاتھ رہا
دور پردیس کی بے مہر گزرگاہوں میں
اجنبی شہر کی بے نام و نشاں راہوں میں
جس زمیں پر بھی کُھلا میرے لہو کا پرچم
لہلہاتا ہے وہاں ارضِ فلسطین کا عَلم
تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطین برباد
میرے زخموں نے کئے کتنے فلسطین آباد (بیروت 1980ء)
فیض نے عالمی سیاسی و اقتصادی حالات پر صرف نوحہ خوانی ہی نہیں کی بلکہ نوآبادیاتی ریاستوں میں بسنے والے اور سامراجیت کی چکی میں پستے کروڑوں انسانوں کو ظلم کے خلاف جدوجہد کرنے اورمتحد ہونے کا بھی درس دیا ۔ فیض 1917 کے اشتراکی انقلاب سے متاثر تھے اور اس انقلاب کو پوری دنیا میں پھیلانے کی خواہش کے ساتھ اپنے قلم کے ذریعے جدوجہد کرتے رہے ۔ دنیا میں قیام امن، معاشی انصاف اور انسانی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے پرفیض مزدروں، کسانوں، محنت کشوں اور جنگ سے متاثرہ طبقات کی سامراجیت اور سرمایہ داریت کے خلاف عالمگیر جدوجہد میں ایک استعارہ بن چکے ہیں ۔ ’’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘‘ ، ’’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘ ، ’’بڑھتے بھی چلو‘‘ ، ’’ ہم محنت کش جگ والوں سے جب اپنا حصہ مانگیں گے‘‘ اور ’’کچھ دور تو نالے جائیں گے‘‘ جیسے انداز بیاں نے فیض کوایک مقبول عوامی شاعر بھی بنا دیا ۔
بیسیویں صدی کے حالات سے جنم لینے والا فیض کا پیغام آج اکیسیویں صدی میں پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے ۔ دنیا ایک عبوری دورسے گزر رہی ہے ، اور ہمیں یقین ہے کہ جب یہ بے منہ عہد ختم ہوگا توکو ئی منجھا ہوا فنکار فیض کا ایک بہت بڑا مجسمہ تخلیق کرے ، جسے دنیا کے تمام امن پسند لوگ مل کرکسی پارک، کسی چوراہے یا کسی شاہراہ پر نصب کریں گے ۔ لیکن تب فیض کے اس مجسمہ کی پیشانی پر یہ شعر لکھا جائے گا؛
گلوئے عشق کو دار ورشن پہنچ نہ سکے
تو لوٹ آئے ترے سر بلند، کیا کرتے
……٭…٭…٭…٭……
ہم دیکھیں گے
ہم دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
یہ دھرتی دھڑدھڑدھڑکے گی
اور اہلِ حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارضِ خدا کے کعبے سے
سب بُت اُٹھوائے جائیں گے
ہم اہلِ سفا مردودِ حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو ناظر بھی ہے منظر بھی
اٹھّے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلقِ خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے