• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میزبان:محمد اکرم خان

ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی

رپورٹ:طلعت عمران

جنگ نیوز
انجینئر دارو خان اچکزئی
صدر،فیڈریشن آف پاکستان
 چیمبرز  آف کامرس
 اینڈ انڈسٹری

صنعت کار حکومت کے پیج پر ہیں، لیکن حکومت ہمارے پیج پر نہیں،آرمی چیف بھی موجودہ معاشی صورتِ حال پر فکر مند ہیں،روپے کی قدر گرنے سےسب مشکلات کا شکار ہیں،نئی ملازمین دینے کے بہ جائےلاکھوں افراد بے روزگار ہو چکے ہیں،اس وقت حکومت کی تمام تر توجہ ایلیٹ کلاس سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کرنے پر مرکوز ہے، اگر صنعت کاروں کو سہولتیں فراہم کی جائیں،تویہ ملک میں بڑی سرمایہ کاری لاسکتے ہیں،نوجوانوں کوتیکنیکی تعلیم فراہم کرنے سےہنر مند افرادی قوت ملے گی،حکومت صنعت کاروں سے مشاورت نہیں کرتی،چیئرمین نیب سے ملاقاتیں حوصلہ افزا ہیں،البتہ چیئرمین ایف بی آر سے شکایت ہے،نئی صنعتوں کے قیام کے لیےحکومتی پالیسی کے منتظر ہیں،’’آباد‘‘ تعمیرات کے شعبے سے متعلق ایک ٹریننگ سینٹر قائم کر رہی ہے، ٹیکس وصولی کے لیے مائنڈ سیٹ بدلنا ہوگا

انجینئر دارو خان اچکزئی

کاروبار نہ رہا!
زبیر طفیل
سابق صدر، ایف پی سی سی آئی

چیئرمین نیب کی ٹیکس کے معاملات پر مداخلت نہ کرنے کی یقین دہانی سے صنعت کاروں کو سکون ملا اور ان کا اعتماد بحال ہوا، اس وقت خطے میں سب سے زیادہ کاروباری لاگت پاکستان میں ہے، جس کی وجہ سے برآمدات میں اضافہ نہیں ہو رہا، پھر ٹیکسز کا بوجھ بھی صنعت کار ہی برداشت کر رہے ہیں، موجودہ حکومت میں کاروباری سرگرمیاں ٹھپ ہونے سے اب تک 15لاکھ افراد بے روزگار ہو چکے ہیں، موجودہ شرحِ سود میں کوئی بھی انڈسٹری نہیں چل سکتی، ہنر مند افرادی قوت کے لیے ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے، چھوٹے تاجر ٹیکس ادا نہیں کرتے، انہیں ایک معاہدے کے ذریعے ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جا رہا ہے، شناختی کارڈ کی شرط کا مسئلہ حل طلب ہے

زبیر طفیل

جنگ نیوز
عبدالقادر میمن
صدر، پاکستان ٹیکس
 بار ایسوسی ایشن

کاروباری سرگرمیوں میں اضافے کے لیے صنعت کاروں کو آسانیاں فراہم کرنا ہوں گی، نیب کی غیر ضروری فعالیت کی وجہ سے بزنس کمیونٹی خوف میں مبتلا ہے، جس کی وجہ سے ملک میں سرمایہ کاری رک گئی، درآمدات کی حوصلہ شکنی کی وجہ سے ایف بی آر کی آمدنی میں کمی واقع ہوئی، بیورو کریٹس کے خوف میں مبتلا ہونے کے باعث نئے کنٹریکٹس نہیں ہو رہے، اگر نیب ٹیکس معاملات میں مداخلت نہیں کرتی ہے، تو معیشت میں بہتری آئے گی، ایس ایم اِیز اور نوجوانوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، خود کار نظام ہی سے ٹیکس نیٹ میں توسیع ممکن ہے، ریسٹورینٹس کے بل میں شامل سیلز ٹیکس حکومت کو نہیں مل رہا، جی ڈی پی میں 50فی صد حصہ رکھنے والے سیکٹرز صرف 5فی صد ٹیکس ادا کرتے ہیں، ٹیکسز کا سارا بوجھ مینوفیکچرنگ سیکٹر نے اٹھا رکھا ہے،ایف بی آر کو اِن ڈائریکٹ ٹیکسز پر انحصار کم کرنا ہوگا

عبدالقادرمیمن 

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہماری معیشت، سیاست اور معاشرت بالکل جامد ہوچکی ہے۔ اس وقت پاکستانی معیشت کے تمام اشاریے منفی ہیں۔ جی ڈی پی کی شرحِ نمو 5.4فی صد سے کم ہو کر 3.4فی صد ہو چکی ہے، جب کہ آیندہ مالی سال میں 2.4تک گرنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ معاشی صورتِ حال کی سنگینی کا اندازہ گزشتہ دنوں ملک کے چیدہ چیدہ صنعت کاروں کی آرمی چیف سے ملاقات سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد کاروباری برادری کی نمایندہ شخصیات نے وزیرِ اعظم سے بھی ملاقات کی۔ اس وقت معاشی سرگرمیاں ٹھپ پڑی ہیں۔ بے روزگاری اور مہنگائی میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔ نیز، سرکاری جامعات کی فیس بھی دُگنی کی جا رہی ہیں۔اس صورتِ حال کے پیشِ نظر ’’دادا بھائی انسٹی ٹیوٹ آف ہائیر ایجوکیشن‘‘میںگزشتہ دنوں ’’معاشی چیلنجز‘‘ کے موضوع پر جنگ فورم منعقد کیا گیا، جس میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی)کے صدر، انجینئر دارو خان اچکزئی، ایف پی سی سی آئی کے سابق صدر، زبیر طفیل اور پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے صدر، عبدالقادر میمن نے شرکت کی۔ اس موقع پر مقررین نے حاضرین کے سوالات کے جوابات بھی دیے۔ فورم میں ہونے والی گفتگو ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔

کاروبار نہ رہا!
’’دادا بھائی انسٹی ٹیوٹ آف ہائیر ایجوکیشن‘‘میںگزشتہ دنوں ’’معاشی چیلنجز‘‘ کے موضوع پر منعقدہ جنگ فورم کا منظر اور شرکا کا گروپ فوٹو،
ایڈیٹر جنگ فورم ، کراچی محمد اکرم خان میزبانی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں

جنگ :آپ سمیت دیگر صنعت کاروں کو آرمی چیف اور پرائم منسٹر سے ملاقات کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس موقع پر صنعت کاروں کی جانب سے کیا تجاویز دی گئیں اور کیا ان ملاقاتوں کے نتیجے میں بہتری متوقع ہے؟

زبیر طفیل :آرمی چیف نے بہ ذاتِ خود مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے صنعت کاروں کو ملاقات کی دعوت دی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک کی معیشت چل نہیں رہی اور ایسا لگتا ہے کہ صنعت کار سرمایہ کاری نہیں کر رہے۔ انہوں نے اس کی وجوہ دریافت کیں اور کہا کہ اگر آپ لوگوں کو مسائل درپیش ہیں، تو وہ بھی بتائیں اور وہ حکومت سے ان کا حل تلاش کرنے کے لیے کہیں گے۔ اس موقع پر مشیرِ خزانہ، ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، چیئرمین ایف بی آر، شبر زیدی اور وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور، حماد اظہر بھی موجود تھے۔ آرمی چیف نے تقریباً نصف گھنٹے تک خطاب کیا اور اس کے بعد تمام مہمانوں کو اظہارِ خیال کا موقع فراہم کیا۔ اس دوران زیادہ تر صنعت کاروں نے نیب کے بے جا تنگ کرنے کی شکایت کی، جس پر آرمی چیف نے یقین دلایا کہ نیب آپ کو بے جا تنگ نہیں کرے گی۔ بعد ازاں، آرمی چیف کا پیغام ملنے پر چیئرمین نیب، ایف پی سی سی آئی آئے اور انہوں نے آئندہ کاروباری برادری کو تنگ نہ کرنے کی یقین دہائی کروائی۔ اس سلسلے میں ایف پی سی سی آئی کے صدر، انجینئر دارو خان اچکزئی نے کلیدی کردار ادا کیا۔ چیئرمین نیب، جسٹس (ر) جاوید اقبال کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئندہ نیب ٹیکس پر کوئی نوٹس جاری نہیں کرے گی، جس سے صنعت کاروں کو کچھ سکون ملا اور ان کا اعتماد بحال ہوا۔ پاکستان میں کم و بیش 22لاکھ افراد ٹیکس ریٹرنز داخل کرتے ہیں اور ان میں سے بھی 7لاکھ ٹیکس ادا نہیں کرتے اور جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ ان کی سالانہ آمدنی6لاکھ روپے سے کم ہے، جو پریشان کن صورتِ حال ہے۔ زرعی شعبے سے وابستہ افراد ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ ان میں بڑے بڑے سیاست دان بھی شامل ہیں، جو ٹیکس نیٹ سے بچ نکلتے ہیں۔ لہٰذا، ٹیکس کا سارا دبائو تنخواہ دار طبقے اور صنعت کاروں پر ہے۔ اگر صنعت کاروں کے مسائل کی بات کی جائے، تو اس وقت ہماری کاروباری لاگت پورے خطے میں سب سے زیادہ ہے، جس میں بجلی و گیس کی مد میں خرچ ہونے والے اخراجات سب سے زیادہ ہیں۔ زیادہ کاروباری لاگت ہی کی وجہ سے ہم زیادہ برآمدات نہیں کر پا رہے۔ آج سے چند برس قبل ہماری برآمدات کا حجم 25ارب ڈالرز پر پہنچ گیا تھا، جو پھرکم ہو کر 19ارب ڈالرز پر آ گیا، جب کہ درآمدات کا حجم بڑھتے بڑھتے 60ارب ڈالرز پر پہنچ گیا۔ یہ ایک غیر معمولی تجارتی خسارہ تھا۔ تاہم، تارکینِ وطن پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر سے خسارے میں کچھ کمی واقع ہوئی۔ اس وقت ہماری برآمدات کا حجم 25ارب ڈالرز اور ترسیلاتِ زر کا 22ارب ڈالرز ہے، جب کہ درآمدات کا حجم کم ہو کر 55ارب ڈالرز ہو گیا ہے اور اس وقت بھی ہمیں 7سے 8ارب ڈالرز کے تجارتی خسارے کا سامنا ہے اور اسے حکومت بیرونی امداد سے پوری کر رہی ہے۔ تاہم، ہمیں اپنی برآمدات اور ترسیلاتِ زر کو ہر صورت اپنی درآمدات کے حجم کے برابر لانا ہو گا۔

جنگ :روپے کی قدر میں 25فی صد کمی کے باوجود بھی برآمدات میں اضافہ نہیں ہوا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

زبیر طفیل :دراصل، حکومت کے منصوبے کامیاب نہیں ہو رہے۔ وزیرِ اعظم نے کہا تھا کہ وہ ایک کروڑ ملازمتیں دیں گے اور 50لاکھ نئے مکانات تعمیر کریں گے، لیکن اس حکومت کے قیام سے لے کر اب تک 15لاکھ سے زاید افراد بے روزگار ہو چکے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کاروباری سرگرمیاں ٹھپ پڑی ہیں۔ نیز، اب حکومت کہہ رہی ہے کہ 50لاکھ نئے مکانات نجی شعبہ تعمیر کرے گا۔ اس حوالے سے حکومت یہ عذر پیش کرتی ہے کہ اس کے پاس وسائل کی کمی ہے۔

جنگ :کاروباری سرگرمیوں اور نئی صنعتوں کے قیام میں کیا رکاوٹیں درپیش ہیں؟

عبدالقادر میمن :گرچہ حکومت کرپشن پر قابو پانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے، لیکن یہ کاروبار کو ترقی دینے کے لیے کافی نہیں۔ کاروباری سرگرمیوں میں اضافے کے لیے سرمایہ کار کو سہولتیں اور اعتماد فراہم کرنا ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ملازمت کے نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور حکومت کو ٹیکس بھی ملتا ہے۔ پاکستان میں دستاویزی معیشت کے مقابلے میں غیر دستاویزی معیشت کا حجم زیادہ ہے اور اس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہی معاشی پالیسی بنانا پڑتی ہے۔ نیب کی غیر ضروری کارروائیوں کی وجہ سے کاروباری برادری خوف میں مبتلا ہے۔ نیب افسران نے ایسی بڑی بڑی کاروباری شخصیات کو طلب کیا کہ جو نہ صرف ملک میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر سکتی ہیں، بلکہ بیرونِ ملک سے بھی سرمایہ کاری لا سکتی ہیں۔ پھر حکومت نے تجارتی خسارہ کم کرنے کے لیے درآمدات کی حوصلہ شکنی کی، جب کہ ایف بی آر درآمدات پر عاید ٹیکسز اور کنٹریکس کے ذریعے سب سے زیادہ محصولات جمع کرتی ہے۔ درآمدات کا حجم کم ہونے سے رواں مالی سال کی پہلی سہہ ماہی میں ایف بی آر کے محصولات میں 120ارب کی کمی واقع ہوئی۔ پھر اس وقت پی ایس ڈی پی بھی ریلیز نہیں ہو رہا اور بیورو کریٹس اس قدر خوف زدہ ہیں کہ وہ کوئی جائز کنٹریکٹ بھی نہیں کر رہے۔ تاہم، حال ہی میں نیب نے لچک دکھائی ہے اور اپنا رویہ تبدیل کیا ہے کہ وہ سیلز ٹیکس کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی، تو اگر نیب کا یہی رویہ برقرار رہتا ہے، تو اس کی وجہ سے ہماری معیشت کچھ بہتر ہو گی۔ پاکستان میں ترقی کے بے تحاشا امکانات پوشیدہ ہیں۔ اگر اس ملک کو صحیح سمیت پر چلایا جائے، تو یہ نہایت تیز رفتاری سے ترقی کرے گا۔ پاکستان کاٹن برآمد کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے، لیکن بد قسمتی سے اس سال کاٹن کی پیداوار میں بھی کمی واقع ہوئی ہے اور پھر حکومت نے کاٹن درآمد کرنے پر بھی پابندی عاید کر دی ہے۔ علاوہ ازیں، روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے خام مال مہنگا ہو گیا۔ مثال کے طور پر پہلے جو خام مال 100روپے میں ملتا تھا، اب اس کی قیمت 150روپے ہو گئی ہے۔ اس صورتِ حال میں حکومت کو سرمایہ داروں پر ٹیکس کا دبائو ڈالنے کے بہ جائے انہیں مزید سہولتیں فراہم کرنی چاہئیں، تاکہ ان کا اعتماد بحال ہو۔ میں یہاں اس نکتے کی جانب بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اگر دنیا میں کسی معیشت میں انقلاب برپا ہوا ہے، تو اس کا سبب ایس ایم ایز تھیں۔ مثال کے طور جاپان اور چین کو ترقی دینے میں ایس ایم ایز نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے اور اس وقت افریقا میں بھی یہ اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ ایف پی سی سی آئی کو اس جانب توجہ دینی چاہیے۔ اس وقت پاکستان کی نصف آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ نہایت ذہین نوجوان ہیں اور ہمیں ان کی صلاحیتوں کو استعمال میں لانا چاہیے۔

جنگ: گرچہ حکومت ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے کوششیں کر رہی ہے، لیکن ایف بی آر کا نظام اس قدر پیچیدہ ہے کہ لوگ ٹیکس نیٹ میں شامل ہونے سے کتراتے ہیں۔ اس میں اصلاحات کیوں نہیں کی جا رہیں؟

عبدالقادر میمن :جارج واشنگٹن کا کہنا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی فرد خوشی سے ٹیکس ادا نہیں کرتا۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ تاہم، ٹیکس کے حصول کے لیے خوف پیدا کیا جا سکتا ہے اور یہ کسی خود کار نظام ہی سے ممکن ہے۔ جب آپ کے پاس سارا ڈیٹا موجود ہو گا اور کسی فرد کو یہ بتائیں گے کہ اس نے اس عرصے میں اتنا لین دین کیا اور اتنا ٹیکس ادا کیا، تو اس میں خود بہ خود خوف پیدا ہو جائے گا۔ ماریشز میں خود کار نظام اس قدر سادہ ہے کہ وہاں 88فی صد سے زاید افراد آن لائن ٹیکس جمع کرواتے ہیں۔ وہاں اگر کسی فرد کی آمدنی ٹیکس ایبل نہیں ہے، تو اسے مراعات فراہم کی جاتی ہیں، تاکہ وہ اپنی آمدنی کو ٹیکس ایبل بنا سکے۔ ورلڈ بینک نے 68فی صد رقم ٹیکس سسٹم کو خود کار بنانے کے لیے فراہم کی تھی، لیکن ہم اسے خود کار نہیں بنا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیکس فائل کروانے کے آخری دن ایف بی آر کا سسٹم ہی بیٹھ جاتا ہے۔ گرچہ رواں برس کچھ بہتری آئی ہے، لیکن ہمارے پاس وہ مطلوبہ ہارڈ ویئرز موجود نہیں۔ پھر ایک بات یہ بھی ہے کہ جب ہم کسی ریسٹورینٹ میں کھانا کھانے جاتے ہیں، تو ہمارے بل میں سیلز ٹیکس بھی شامل کر لیا جاتا ہے، لیکن وہ سیلز ٹیکس حکومت کو نہیں مل رہا۔ اس سلسلے میں حکومت کو کوئی منصوبہ بندی کرنا ہو گی اور انہیں ٹیکس نیٹ میں لانا کوئی مشکل کام نہیں۔

جنگ :اس وقت پاکستانی معیشت کو کون سے چیلنجز درپیش ہیں اور ان کا حل کیسے نکلے گا؟ نیز، حکومت اور صنعت کار ایک پیج پر کیوں نہیں ہیں؟

انجینئر دارو خان اچکزئی :اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم حکومت کے پیج پر ہیں، لیکن وہ ہمارے پیج پر نہیں ہے۔ دراصل، ہم حقیقت پسند نہیں، بلکہ خود پسند ہیں۔ یعنی جو ہم کہیں، وہ ٹھیک ہے اور جو دوسرا کہے، اس پر غور تک نہ کیا جائے۔ یہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ اگر ہم اپنی انا کے خول سے نکل کر حقیقت پسند بن جائیں، تو مسائل خود بہ خود حل ہو جائیں گے۔ میں زبیر طفیل اور عبدالقادر میمن کی باتوں سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ ہمیں آرمی چیف نے مدعو کیا، کیوں کہ وہ بھی معاشی صورتِ حال پر خاصے فکر مند ہیں۔ روپےکی قدر گرنے کی وجہ سے ہم سب مشکلات سے دوچار ہیں۔ نئی ملازمتیں دینے کے بہ جائے لاکھوں افراد بے روزگار ہو چکے ہیں۔ روزگار چھن جانے کا دکھ وہی محسوس کر سکتا ہے کہ جو بے روزگار ہو۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری ملک میں بزنس کمیونٹی کی سب سے بڑی نمایندہ تنظیم ہے، جو 1950ء سے قائم ہے۔ ایف پی سی سی آئی میں ملک بھر کے تمام رجسٹرڈ کاروباری افراد شامل ہیں۔

جنگ :لیکن اس کے باوجود ایف پی سی سی آئی کافی کمزور ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

انجینئر دارو خان اچکزئی :اس کا سبب میں پہلے ہی بتا چکا ہوں۔ اس وقت حکومت کی تمام تر توجہ ایلیٹ کلاس سے ٹیکس جمع کرنے پر مرکوز ہے۔ میں ٹیکس دینے کے حق میں ہوں، لیکن اگر ان بڑے صنعت کاروں کو سہولتیں فراہم کی جائیں، تو یہ ملک میں بہت بڑی سرمایہ کاری لا سکتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں نوجوانوں کا تناسب سب سے زیادہ ہے اور اگر ہمیں نے ان کی صلاحیتوں کو مثبت انداز میں استعمال نہ کیا، تو خدا نخواستہ ان میں منفی رجحانات غالب آ سکتے ہیں۔ اگر حکومت ان نوجوانوں کے لیے معیاری تعلیم و تربیت کا بندوبست کرے، تو اس کے نتیجے میں ملک کو ہنر مند اور مہارت یافتہ افرادی قوت ملے گی، جس کی وجہ سے ملکی معیشت اس قسم کے مسائل سے دوچار نہیں ہو گی۔ ملک میں روزگار نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت پاکستانی نوجوان بیرونِ ملک جانے پر مجبور ہیں اور وہاں ان کا استحصال کیا جا رہا ہے۔

جنگ :ایف پی سی سی آئی کی نظر میں ایسے کون سے اقدامات ہیں کہ جن کی وجہ سے انڈسٹری کا پہیہ رواں ہو سکتا ہے؟

انجینئر دارو خان اچکزئی :اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت تجارتی سرگرمیوں کی بحالی کے لیے پر خلوص کوششیں کر رہی ہے، لیکن وہ ہم صنعت کاروں سے مشاورت نہیں کرتی۔ موجودہ حکومت کی کوششوں سے کاروبار کے لیے آسانیاں فراہم کرنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان کی 28درجے بہتری واقع ہوئی ہے، جو قابلِ ستائش ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ نوجوانوں پر زیادہ سے زیادہ توجہ دے اور نوجوان ارکانِ اسمبلی ہی کو مختلف وزارتوں کا قلم دان سونپے۔ علاوہ ازیں، چھوٹے پیمانے پر سرمایہ کاری کو فروغ دے، تاکہ نوجوانوں کو روزگار ملے اور اس کے نتیجے میں حکومت کو ٹیکس ملے۔

آصف قریشی :تجارتی سرگرمیوں کی بحالی کے لیے کاروباری برادری نے حکومت سے کیا مطالبات کیے؟

انجینئر دارو خان اچکزئی :ہمارا سب سے اہم مطالبہ یہ تھا کہ نیب کی وجہ سے جو خوف کی فضا طاری ہے، اسے دور کیا جائے، کیوں کہ اس حال میں کاروبار نہیں ہو سکتا۔ ہماری چیئرمین نیب سے تین ملاقاتیں ہو چکی ہیں اور یہ تمام ملاقاتیں ہی نہایت حوصلہ افزا رہیں۔ ہم ان تک چھوٹے تاجروں کی شکایات بھی پہنچا رہے ہیں۔ تاہم، ہمیں ایف بی آر کے چیئرمین، شبر زیدی سے شکایات ہیں۔ نیب کی حد تک خوف کی فضا ختم ہو چکی ہے، لیکن ایف بی آر کا خوف اب بھی برقرار ہے اور اسے بھی ختم ہونا چاہیے۔ ہم اس وقت حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں اور نئی صنعتوں کے قیام کے لیے حکومت کی سرمایہ کاری اور صنعتی پالیسی کے منتظر ہیں۔ حکومت نے فروری میں انڈسٹریلائزیشن کے لیے نئی پالیسی متعارف کروانے اور صنعت کاروں کو سہولتیں فراہم کرنے کا اعلان کیا، مگر ابھی تک یہ پالیسی نہیں آئی۔ حکومت کو ان مسائل کی جانب بھی توجہ دینی چاہیے۔

پرویز بھٹی :پچھلی حکومت میں شرحِ سود 6.25تھی، جی ڈی پی کی شرحِ نمو 5.86تھی اور اسٹاک ایکسچینج 50ہزار پوائنٹس سے بھی تجاوز کر گئی تھی، لیکن نئی حکومت قائم ہونے کے بعد معیشت بیٹھ گئی، تو کیا اس کی وجوہات پر بھی آرمی چیف اور وزیرِ اعظم سے ملاقات میں کوئی بات چیت ہوئی؟

زبیر طفیل :آرمی چیف سے ملاقات میں شرحِ سود میں اضافے پر بات ہوئی تھی، جو ایک سال میں دگنے سے بھی زاید ہو گیا۔ 13فی صد پالیسی ریٹ ہے، جب کہ بینک سے پیسہ لینے جائیں، تو 16سے 17فی صد شرحِ سود پر ملتا ہے۔ ہم نے کہا کہ اس شرحِ سود پر کوئی بھی انڈسٹری نہیں چل سکتی۔ اس پر مشیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ شرحِ سود ہمارے ہاتھ میں نہیں، بلکہ اسٹیٹ بینک کے ہاتھ میں ہے۔ وہی اس کو بڑھا اور گھٹا سکتا ہے۔ دراصل، یہ سب کچھ حکومت کی ایما ہی پر ہو رہا ہے اور ان کا یہ عذر درست نہیں۔

محمدزاہد :صنعت کاروں کو وزیرِ اعظم اور مشیرِ خزانہ سے پہلے آرمی چیف سے ملاقات کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ نیز، کیا صنعت کار نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کے لیے ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز قائم نہیں کر سکتے؟

زبیر طفیل :اس سلسلے میں ایک ہنر فائونڈیشن قائم ہے، جو لوگوں کو الیکٹریشن، پلمبنگ اور ویلڈنگ سمیت دیگر ہنر تین سے چھ ماہ میں سکھاتی ہے۔ اس قسم کے ادارے بھارت میں بھی قائم ہیں، جو تربیت حاصل کرنے والوں کو سرٹیفکیٹس دیتے ہیں۔ یہ سرٹیفکیٹس خلیجی ممالک میں قابلِ قبول ہوتے ہیں اور ان افراد کو دوسروں کے مقابلے میں تنخواہ بھی اچھی ملتی ہے۔ البتہ پاکستان میں ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز کی تعداد اتنی نہیں، جنتی ہونی چاہیے۔ اس وقت کراچی میں ایسے دو چار ادارے قائم ہیں، حالاں کہ کراچی جیسے دو ڈھائی کروڑ آبادی والے شہر میں ایسے پچاس انسٹی ٹیوٹس ہونے چاہئیں۔ آپ کے پہلے سوال کا جواب پہلے ہی دیا جا چکا ہے کہ آرمی چیف نے خود ہمیں دعوت دی تھی۔

عبدالقادر میمن :یہ بات بالکل درست ہے کہ ہمیں ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز پر توجہ دینی چاہیے۔ ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز کے حوالے سے میں یہ بتانا چاہوں گا کہ اس وقت میمن کمیونٹی اور ورلڈ میمن فائونڈیشن کے تحت کورنگی انڈسٹریل ایریا میں ایک بہت بڑا پراجیکٹ چل رہا ہے، لیکن ہمیں اس کے لیے بچے نہیں مل رہے۔ اس میں چار سے پانچ ہزار بچوں کی گنجائش ہے۔

جنگ :ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز کے حوالے ایف پی سی سی آئی کیا کردار ادا کر رہی ہے؟

انجینئر دارو خان اچکزئی :فیڈریشن بہ ذاتِ خود کچھ نہیں، بلکہ یہ 230ارکان کی انجمن ہے۔ ہمارے بہت سارے ارکان انفرادی طور پر ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز چلا رہے ہیں اور فیڈریشن اپنے طور پر اس حوالے سے کچھ نہیں کر سکتی۔ البتہ گزشتہ دنوں کے ہماری ’’آباد‘‘ کے وفد سے ملاقات ہوئی، تو اس کا کہنا تھا کہ وہ تعمیرات سے متعلق ہنر سکھانے کے لیے ایک ادارہ قائم کر رہی ہے۔

محمد عباس :اس وقت پاکستان کی معیشت میں کس سیکٹر کا حصہ سب سے زیادہ ہے اور وہ کتنا ٹیکس ادا کرتا ہے؟

عبدالقادر میمن :ہماری مجموعی قومی پیداوار میں ایگری کلچر سیکٹر کا حصہ 18فی صد ہے، جب کہ یہ صرف ایک فی صد ٹیکس ادا کرتا ہے۔ ری ٹیل اور ہول سیکٹر کا حصہ بھی کم و بیش 18فی صد ہے، جب کہ یہ سیکٹر مجموعی ٹیکس کا 1.5فی صد ادا کرتا ہے، جس میں ایک فی صد سیلز ٹیکس اور 0.5فی صد انکم ٹیکس شامل ہے۔ جی ڈی پی میں ٹرانسپورٹ کا حصہ بھی 17سے 18فی صد ہے، جب کہ یہ 3فی صد ٹیکس ادا کرتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ معیشت میں 50فی صد سے زاید حصہ رکھنے والے سیکٹرز بہ مشکل 5فی صد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اس وقت ٹیکسز کا سارا بوجھ مینوفیکچرنگ سیکٹر نے اٹھا رکھا ہے۔ لہٰذا، جب تک ہم ٹیکس نیٹ میں اضافہ نہیں کریں گے، تو موجودہ ٹیکس دہندگان پر بوجھ بڑھتا جائے گا اور اسی وجہ سے ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو کم ہوتا جا رہا ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ دنیا میں کوئی بھی فرد خوشی سے ٹیکس ادا نہیں کرتا اور اس مقصد کے لیے خوف کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ یہ خوف ٹیکس کے خود کار نظام سے پیدا ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی ریلیف بھی فراہم کرنا ہو گا۔ اس مقصد کے لیے اِن ڈائریکٹ ٹیکسز کے بہ جائے ڈائریکٹ ٹیکسز کا نظام رائج کرنا ہو گا۔ بد قسمتی سے پاکستان میں ڈائریکٹ ٹیکس بھی اِن ڈائریکٹ ٹیکس میں شامل ہو گیا ہے۔ لہٰذا، ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ ڈائریکٹ ٹیکسز پر ہمارا انحصار زیادہ ہو اور اِن ڈائریکٹ ٹیکسز پر کم ہو۔ اس کی وجہ سے غریب طبقے پر کم بوجھ پڑے گا۔ حکومت کو صنعت کاروں کو سہولتیں فراہم کرنا ہوں گی، تاکہ ان کے وسائل اور آمدنی میں اضافہ ہو۔ اس کی وجہ سے حکومت کو ٹیکس بھی زیادہ ملے گا۔ اس کے علاوہ معاشی پالیسی میں مستقل مزاجی لانا ہو گی اور یہ نہیں ہونا چاہیے کہ حکومت تبدیل ہوتے ہی معاشی پالیسی بھی تبدیل ہو جائے۔ چین کی ترقی کا راز بھی یہی ہے اور میری طرف سے یہی تجاویز ہیں۔

جنگ :جب اِن ڈائریکٹ ٹیکسز ہی سے آمدنی حاصل کرنی ہے، تو پھر ایف بی آر کیا کر رہا ہے؟

عبدالقادر میمن :میں ایک بار پھر یہی کہوں گا کہ ایف بی آر کو اِن ڈائریکٹ ٹیکسز پر انحصار کم کرتے ہوئے ڈائریکٹ ٹیکسز پر بڑھانا چاہیے۔

جنگ :ایف بی آر اپنے محصولات میں اضافے کے لیے ٹیکس نیٹ بڑھانے کے بہ جائے موجودہ ٹیکس دہندگان ہی پر دبائو بڑھا رہا ہے۔ کیا اس حوالے سے بھی کوئی بات ہوئی تھی؟

زبیر طفیل :ایف بی آر کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ جب اس کے محصولات میں کمی واقع ہوتی ہے، تو وہ ٹیکس نیٹ بڑھانے کے بہ جائے موجودہ ٹیکس دہندگان پر دبائو بڑھا دیتا ہے۔ اس وقت چھوٹے تاجروں کی تعداد تقریباً 25لاکھ ہے۔ یہ کسی نہ کسی طرح اِن ڈائریکٹ ٹیکس تو ادا کرتے ہوں گے، لیکن ڈائریکٹ ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ اب پہلی مرتبہ انہیں بھی ٹیکس نیٹ میں لایا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں ان سے ایک معاہدہ بھی ہوا ہے۔ میری دعا ہے کہ اس معاہدے پر عمل درآمد ہو، کیوں کہ اس سے پہلے ایسے معاہدوں پر عمل نہیں کیا گیا۔

انجینئر دارو خان اچکزئی :جب تک ہم زمینی حقائق کو نہیں دیکھیں گے، تب تک ہم مسئلے کا حل نہیں نکال سکتے۔ عمران خان نے مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کی بات کی تھی، لیکن ابھی تک مائنڈ سیٹ تبدیل نہیں ہوا۔ ٹیکس وصول کرنے کے لیے سوچ تبدیل کرنا ہو گی۔ ترقی یافتہ ممالک میں بغیر ٹکٹ سفر کرنے والوں کو بھی نا پسند کیا جاتا ہے، جب کہ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ ہمیں اپنی قوم میں یہ سوچ پروان چڑھانی ہے کہ وہ ٹیکس چوری کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کرے اور ٹیکس ادا کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرے، لیکن حکومت کی ساری توجہ ٹیکس نیٹ میں اضافے کے بہ جائے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصولی پر ہے۔ یہی بات قائمہ کمیٹی میں موجود ایف بی آر کے ایک رکن نے بھی ہم سے کہی تھی۔

ایاز :اس ملک میں ہنر مند افراد کی کمی نہیں، لیکن انہیں ملازمتیں نہیں مل رہیں، تو ایسے افراد کو روزگار فراہم کرنے کے لیے صنعت کار کیا اقدامات کر رہے ہیں؟

انجینئر دارو خان اچکزئی :میں ایک صنعت کار ہوں۔ اگر مجھ سے مسابقت کرنے والا ایک صنعت کار کوئی چیز 10روپے میں تیار کر رہا ہے، تو میں اسے 12روپے میں تیار نہیں کر سکتا۔ اس وقت خطے کے دوسرے ممالک کے صنعت کار ہم سے کم قیمت پر مصنوعات تیار کر رہے ہیں، کیوں کہ ہمارے مقابلے میں ان کی کاروباری لاگت کم ہے اور وہاں صنعت کاروں کو آسانیاں بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔ اس وقت پاکستانی کاروباری شخصیات نے سری لنکا اور بنگلا دیش سمیت خطے کے دوسرے ممالک میں اپنی صنعتیں لگا رکھی ہیں۔

نبیل:آپ کا کہنا ہے کہ نیب کی وجہ سے صنعت کار خوف میں مبتلا ہیں اور صنعتیں بند ہو رہی ہیں، تو کیا آپ یہ تو نہیں کہنا چاہتے کہ نیب کو کام ہی نہیں کرنا چاہیے؟

انجینئر دارو خان اچکزئی :قطعاً ایسی کوئی بات نہیں ۔ نیب نے پہلے کام شروع نہیں کیا تھا اور اب شروع کر رہا ہے، جس کی ہم تحسین کرتے ہیں۔ حکومت لوٹی ہوئی دولت نکلوائے۔ ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ملک کی دولت لوٹنے والوں کو معاف کر دیا جائے۔ اس ملک میں ایک ادارہ ایف بی آر قائم ہے، جس کا کام این ٹی این جاری کرنا اور انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کا حساب کتاب رکھنا ہے۔ اگر کوئی اس میں ناکام ہوتا ہے، تو یہ ایف بی آر کا کام ہے کہ وہ اسے شوکاز نوٹس جاری کرے۔ یہ نیب کا کام نہیں ہے۔ نیب کا کام یہ ہے کہ وہ ملک کی دولت لوٹنے والوں کو پکڑے اور ان سے حساب کتاب کرے۔ البتہ ٹیکس چوروں کو پکڑنا ایف بی آر کا کام ہے اور جس ادارے کو جس مقصد کے لیے قائم کیا گیا ہے، اسے وہی کام کرنا چاہیے۔

شہریار خان: کیا آرمی چیف سے ملاقات میں چھوٹے تاجروں کی بھی نمائندگی تھی؟

انجینئر دارو خان اچکزئی: اس ملاقات میں ملک کے چیدہ چیدہ صنعت کار مدعو تھے۔ مہمانوں کا انتخاب دعوت دینے والا خود کرتا ہے۔ جہاں تک ایف پی سی سی آئی کی بات ہے، تو وہ ان تمام تاجروں کی نمائندگی کرتی ہے کہ جو حکومت کو ٹیکس ادا کرتے ہیں اور ٹیکس ریجیم میں شامل ہیں۔ ہمارے ارکان میں بڑے، درمیانے اور چھوٹے درجے کے تاجر بھی شامل ہیں۔

جنگ :شناختی کارڈ کی شرط کے معاملے میں کیا پیش رفت ہوئی، کیوں کہ اس کی وجہ سے چھوٹے تاجروں کے علاوہ بڑے تاجروں پر بھی اثر پڑا ہے؟

زبیر طفیل :یہ شرط فی الحال معطل کر دی گئی ہے۔ بات یہ ہے کہ حکومت اسٹریٹ پاور سے ڈرتی ہے اور یہ طاقت چھوٹے تاجروں کے پاس ہے۔ تاہم، فی الوقت یہ مسئلہ برقرار ہے اور اسے حل ہونا چاہیے۔ میں بنیادی طور پر ایک صنعت کار ہوں۔ ٹیکنیکل ٹریننگ کے حوالے سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میری فیکٹری میں انجینئر سے زیادہ ایک ویلڈر کماتا ہے۔ ایک انجینئر کی ابتدائی تنخواہ 30سے 35ہزار روپے ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں عام لوہے کو ویلڈ کرنے والا ویلڈر ماہانہ 40ہزار روپے کماتا ہے، جب کہ اسٹین لیس اسٹیل ویلڈر یومیہ 3سے 4ہزار روپے کماتا ہے، حالاں کہ اس کے پاس کوئی ڈگری بھی نہیں ہوتی۔ لہٰذا، ووکیشنل ٹریننگ کا بندوبست کرنی چاہیے۔ 

تازہ ترین