آج کل چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ، وزیراعظم عمران خان اور صحت مند مریض خبروں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ مولانا طارق جمیل کا بھی ان سب سے کسی نہ کسی سطح پر رابطہ ہے، صحت مند مریض کو تو وہ اسپتال بھی ملنے گئے تھے، سب سے اہم موجودہ حالات ہیں، آخر مولانا کا دھرنا خاموشی سے کیوں واپس ہو گیا، یہ بھی اہم سوال ہے، صحت مند مریض کے ساتھ ضمانت دینے والا بھی لندن چلا گیا۔
ملک کے اندر ایک دوسرے پر شک کیا جا رہا ہے، پتا نہیں ایسا کیوں ہے۔ سانحہ ماڈل ٹائون کی ابھی تک کوئی خبر نہیں، آخر انہیں جن تو شہید نہیں کر گئے تھے، قصور میں ظلم و زیادتی کے پس پردہ کردار کہاں ہیں، رئیسانی کے گھر سے برآمد ہونے والی رقم کا کیا بنا، گستاخ بلاگرز بھی آزاد، شاہ رخ جتوئی پتا نہیں کہاں ہے، عزیر بلوچ تو پتا نہیں کسی پردے میں چھپا ہوا ہے، صاف پانی کرپشن کیس پتا نہیں صاف ہوا ہے یا نہیں۔
پرویز مشرف غداری کیس کا فیصلہ تو 28نومبر تک محفوظ ہے مگر پرویز رشید غداری کیس کا کچھ پتا نہیں، سستی روٹی کی کرپشن پتا نہیں کس تنور کی نذر ہو گئی، اصغر خان مرحوم کا کیس تو خاموش ہی ہو گیا، بلوچستان کے رکن اسمبلی مجید خان نے گاڑی تلے پولیس اہلکار روندا تھا اس کا کسی کو یاد بھی ہے یا نہیں۔
بلدیہ ٹائون کراچی میں زندہ جلائے جانے والوں کی روحیں ایک دوسرے سے پوچھتی ہوں گی کہ زمین پر ان کے مقدمے کا کیا بنا؟ پتا نہیں فرشتے انہیں کیا جواب دیتے ہوں گے، احد چیمہ کو چھائوں دینے والے لندن چلے گئے، پتا نہیں اس کا اب کیا بنے؟
ڈاکٹر عاصم تو اربوں کا اقرار کرکے بھی خوش ہیں، فواد حسن فواد کی قابلیت کا کیا بنے گا، نام تو ان کا بڑا شاعرانہ ہے، باقی رہے رائو انوار تو وہ تو بہادر بیٹے ہیں، عابد باکسر بھی آ چکا ہے، ارسلان افتخار کی آخری وڈیو ان کے ابا جی کے ساتھ دیکھی تھی، انہی ابا جی کی چھائوں میں تو ارسلان نے سارے کھیل کھیلے۔
میمو اسکینڈل کا ابھی تک تو کچھ نہیں بنا، ٹڈاپ اور نندی پور پر بھی ہم کچھ نہیں بتا سکتے اور نہ ہی اسلام آباد کے بھونچال اور جھکڑ کی خبر دے سکتے ہیں۔ یہ سب کیا ہے، 35سالہ جمہوری سفر نے لوگوں کو کس قدر بے حال کیا ہے، یہ جاننے کیلئے کسی بھی شہر، قصبے یا دیہات کا رخ کیا جا سکتا ہے، زندگی نے ہر جگہ کروٹ لی ہے، پستیوں کا سلسلہ جمہوریت کا ثمر ہے اور اب یہ نظام جواب دیتا جا رہا ہے۔
دعوے اور بڑھکیں اب بھی جاری ہیں مگر لوگوں کے نصیب میں کچھ نہیں، ان کا رشتہ زندگی سے مشکل ترین بن چکا ہے، نظام کی تبدیلی کے بغیر راحت کا سفر مشکل ہے، ترقی کی منازل کا طے کرنا مشکل ہی نہیں مشکل ترین نظر آ رہا ہے۔
یہ تمام باتیں میرے سامنے بکھری پڑی ہیں کہ ایسے میں میرے دیرینہ دوست بودی شاہ آ گئے ہیں۔ بودی شاہ بھی اپنی وضع کے عجیب و غریب آدمی ہیں، نرالے کام اور نرالی باتیں شاہ صاحب کا خاصا ہے۔
آج وہ میرے ساتھ اس طرح ہم کلام ہوئے ’’تم انتہائی نکمّے اور نااہل آدمی ہو، پتا نہیں تم صحافت کی دنیا میں کیوں آ گئے حالانکہ تمہارے دوست عطاء الحق قاسمی نے تمہیں کہا تھا کہ ’’تم ایک ڈیرے دار چوہدری بن کر رہا کرو، حقہ رکھ کر محفلیں جمایا کرو، تہبند کرتا اور پگڑی پہنا کرو‘‘ ڈیرے داری تو تمہاری ہے مگر تم کبھی ممبر نہیں بنے۔
آپ نے کل ایک صحت مند مریض کو دیکھا ہے کس طرح وہ جہاز پر چڑھتا ہے، کس طرح جہاز کے اندر بیٹھ کر ماحول کو انجوائے کرتا ہے، آپ کو پتا ہے وہ ایئر ایمبولینس نہیں تھی بلکہ قطری خاندان کا وی وی آئی پی طیارہ تھا۔ لندن میں بھی صحت مند مریض وی آئی پی گیٹ سے نکلا، آپ نے وہ مناظر بھی دیکھے ہوں گے کہ کس طرح ایک صحت مند مریض مفروروں کے ٹولے سے مل رہا تھا، پتا نہیں یہ کونسے پلیٹلٹس کم ہوئے تھے۔
آپ کو پتا ہے کہ جب پلیٹلٹس چھ ہزار رہ جائیں تو ڈاکٹر کنگھی کرنے سے منع کر دیتے ہیں اور جب پانچ ہزار رہ جائیں تو شیو کرنے، جوتا بدلنے اور لباس تبدیل کرنے سے منع کر دیتے ہیں مگر یہاں تو مریض نے کنگھی بھی کر رکھی تھی، شیو بھی کر رکھی تھی، جوتے اور کپڑے بھی تبدیل کر رکھے تھے، آپ جانتے ہیں کہ ان کا ذاتی ڈاکٹر اتنا ماہر ڈاکٹر ہے کہ وہ خود علاج کرنے کے بجائے یہ بتاتا ہے کہ فلاں ڈاکٹر سے علاج کروایا جائے۔
اب صحت مند مریض آئی سی یو جاتی امرا رائیونڈ سے آئی سی یو ایون فیلڈ لندن شفٹ ہو چکا ہے، اس پر تبصرے کی ضرورت نہیں، نہ ہی آپ نے ہیٹ والے گیم چینجر کی کوئی بات کرنی ہے، نہ دسمبر جنوری کی ضمانت کی بات کرنی ہے، آپ نے کابینہ میں ہونے والی دو خواتین کی لڑائی کا تذکرہ بھی نہیں کرنا اور کسی کو یہ بھی نہیں بتانا کہ وزیراعظم کے کس مشیر کو چین میں ایک میٹنگ سے چینیوں نے اٹھا دیا تھا۔‘‘
ٹھیک ہے شاہ جی! میں کوئی تبصرہ نہیں کرتا، صرف چیف جسٹس سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ عدلیہ سمیت تمام اداروں کے لئے طارق جمیل کے لیکچرز کا اہتمام کروا دیں، ہو سکتا ہے کسی کو کوئی شرم آ جائے۔ بقول ڈاکٹر خورشید رضوی؎
ہر جبر سے خاموش گزر آئے کہ افسوس
جاں بھی ہمیں درکار تھی عزت کے علاوہ