خودکشیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان نے تھر کےخطے میں خوف و ہراس کی فضا طاری کردی ہے۔ ہرروزکوئی نہ کوئی شخص اپنے ہاتھوں سے موت کو گلے لگا لیتا ہے۔ تھر کی تحصیلوں مٹھی،اسلام کوٹ،نگرپاکر،چھاچھرو،ڈیپلوکے دیہی علاقوں میں کچھ روز سے ان واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے ۔پولیس کے مطابق گزشتہ چھ سالوں کے دوران کل 276 افراد نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا جن میں اکثریت خواتین کی ہے۔رواںسال 75افراد نے خود کو موت کے حوالے کیا، جب کہ ماہ نومبرمیں ان واقعات میں تیزی آگئی ہے اور12افراد نے خودکشی کرکے زندگی سے نجات حاصل کی ۔
ایک ہی دن میں چار افراد نے خودکشی کی ہے۔۔حالیہ واقعات میں گلے میں پھندا ڈال کرخود کو ہلاک کرنے کی شرح زیادہ ہے۔میں اکثر لاشیں جھونپڑوں کے اندر یا درخت کی شاخوں پر لٹکی ہوئی ملتی ہیں ۔یکم سے دس نومبر کے درمیان گائوں کہڑی میں دو خواتین نے ایک ساتھ درخت میں پھندا ڈال کر خودکشی کی، گائوں سوری جی وانڈھ میں خاتون جیتو بائی،گائوں پابوہر میں21 سالہ خاتون دہریا بائی،مٹھی شہرکی نارٹھ کالونی میں پندرہ سالہ لڑکی سونیا کماری،گائوں لکھمیار میں 22سالہ نوجوان وکرم کمار،گائون لونیھار میں خاتون سورٹھ میگھوڑ،گائوں گڈھڑو میں 25سالہ نوجوان سروپو کولہی نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا ۔
پولیس خودکشی کے واقعات میں اچانک اضافے سے انکار کر رہی ہے ۔ ان افسوس ناک واقعات میں جان دینے والوں میں ہندؤوں کی میگھواڑ، کوہلی اور بھیل برادری کے مرد و خواتین شامل ہیں۔ان برادریوں کے لوگوں کی تعداد مفلس و مفلوک الحال افراد پر مشتمل ہے ۔
خودکشی کے واقعات میں پولیس کی جانب سے دفعہ 174 کے تحت کاروائی کی جاتی ہے،لیکن اگرمذکورہ فرد کی ہلاکت پرمتوفی یا متوفیہ کے اہل خانہ کی جانب سےشک و شبہ کا اظہار کیا جائے تو پولیس کی جانب سے کارروائی آگے بڑھائی جاتی ہے اورواقعہ میں نامز ملزم یا نامعلوم افراد کے خلاف قتل یا اقدام قتل کا مقدمہ درج کیا جاتا ہے وگرنہ ضابطے کی کارروائی مکمل کر کے خودکشی کی رپورٹ مجسٹریٹ کے روبرو پیش کردی جاتی ہے۔ذرائع کے مطابق ہر واقعہ خودکشی کا نہیں ہوتا ہے۔
بعض مرتبہ ایسی چہ مگوئیاں بھی سننے کو ملتی ہیں کسی مرد یا خاتون کو قتل کرنے کے بعد،اس کی لاش کوپھندا ڈال کر لٹکایا گیاہے ۔البتہ ابھی تک تفتیش کے نتیجے میں ایک بھی ایسا واقعہ سامنے نہیں آیا ہے۔خودکشی کے واقعات کا سبب ذہنی تشدد ،غربت ،مرضی کے خلاف شادیاں،سماجی رسم و رواج کے بندھن و مالی مشکلات،گھریلو جھگڑے بتائے جا تے ہیں۔
اس ضمن میں نمائندہ جنگ کی جانب سے رابطہ کرنے پر سماجی رہنماکاشف بجیر نے بتایا کہ تھر میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات میں دن بہ دن اضافے کے باجود انتظامی ادارے وجوہات کا تعین کرنے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔ان واقعات کے محرکات اور اسباب کا سدباب نہ کیا گیا توخودکشیوں کا رجحان مزید بڑھ جائے گا۔نمائندہ جنگ نے ایس ایس پی تھرپارکر، عبداللہ احمد کا مؤقف معلوم کرنے کے لیے ان سے رابطہ کیا۔
جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خودکشیوں کی وجوہات گھریلو جھگڑے،جہالت اورذہنی تنائوہے ۔زیادہ ترواقعات ذاتی و گھریلو مسائل کہ وجہ سے رونماہوتے ہیں ۔خودکشی کرنے والوں میں اکثریت ان پڑھ لوگوں کی ہے۔جنگ کے اس سوال پر کہ جو لوگ خودکشی کی وجہ بن رہے ہیں تو ان کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوتی تو انہوں نے کہ ایسے افراد کے خلاف اگرمرنے والے شخص کاکوئی رشتہ دارپولیس کے پاس فریاد لے کر آئے گا تو ضرور ایکشن لیا جائے گا۔
دریں اثناء خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات نے کئی سولات کو جنم دے دیا ہے کہ تمام تر خودکشیاں پھندا ڈال کر کیوں ہوتی ہیں اور مرنے والوں کی اکثریت شادی شدہ خواتین کی ہی کیوں ہوتی ہے۔ضرورت اس مر کی ہے کہ ان واقعات کی وجوہات کا سراغ لگایا جائے کہ کیا تمام تر واقعات خودکشی ہیں یا کچھ اور بھی وجہ ہے جس پر پردہ ڈانے کے لیے خودکشی کا رنگ دیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی سماجی طور پر آگہی مہم چلا کر ان وقعات کو روکنے کی جامع حکمت عملی بنائی جائے تا کہ جہالت،غربت ،عدم برداشت ،گھریلو تشدد سمیت دیگر وجوہات کے باعث رونما ہونے والے ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔