• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام ہر سال 3دسمبر کوانٹرنیشنل ڈے آف پرسنز وتھ ڈس ایبلیٹیز(معذوروں کا عالمی یوم) منایا جاتا ہے،تاکہ معذور افراد کو نظر انداز کرنے یا تضحیک کا نشانہ بنانے کی بجائے، معاشرے کا ایک عام فرد سمجھا جائے۔ اس دِن کے لیے کسی تھیم یا سلوگن کا بھی انتخاب کیا جاتا ہے۔ امسال کاتھیم ہے،"THE FUTURE IS ACCESSIBLE"۔یعنی مستقبل دسترس میں ہے۔دراصل معذور افراد کے معاشرے میں فعال نہ ہونے کا ایک بڑا سبب ہمارا معاشرتی رویّہ اور ان کے لیے مؤثر اقدامات کا فقدان ہے۔ اگر رویّوں میں تبدیلی لانے کے ساتھ، معذور افراد کی وجۂ معذوری جان کر اس کامثبت انداز سے تدارک بھی کردیا جائے، تو یہ افراد ایک بہتر زندگی بسر کر سکتے ہیں۔بہرحال، عالمی یوم کی مناسبت سے ایک تفصیلی، معلوماتی مضمون پیشِ خدمت ہے۔

’’میرا بیٹا دیکھ نہیں سکتا،میری بیٹی چل نہیں سکتی، میرا بیٹا سُننے، بولنے سے معذور ہے، میرا بچّہ ڈاؤن سینڈروم ہے، میرے بیٹے کو آٹزم ہے، میری بیٹی ذہنی پس ماندہ ہے۔‘‘ آہ…اولاد کا یہ تعارف جگر چھلنی کر دیتا ہے۔ اور صرف دِل ہی نہیں ٹوٹتا، بلکہ پورا وجود بے شمار ٹکڑوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ اور پھر جب یہ کہا جائے کہ’’میری آرزو تھی، میرا بیٹا آرمی آفیسر بنتا، میرا ارمان تھا، میری بیٹی ڈاکٹر بنتی، میرا بیٹا ٹھیک ہوتا تو پائلٹ ہی بنتا، میرا بچّہ بہت ذہین ہے، اگر اسے آٹزم نہ ہوتا، تو یہ ضرور پوزیشن ہولڈر ہوتا اور کمپیوٹر انجینئر بنتا۔‘‘ ارمان، خواب اور اُمیدیں کرچی کرچی ہوکر لہجے اور آوازکو زخمی کر دیتی ہیں، لب خواہ مُسکرا ہی کیوں نہ رہے ہوں۔ 

بچّوں کی ذہنی معذوری، والدین کے لیے اُن کی جسمانی معذوری سے کہیں زیادہ اذیت ناک اور دقّت طلب ہوتی ہے۔ اسپیشل بچّوں کے والدین صبر، ضبط اور برداشت کی کتنی کڑی منزلیں طے کرتے ہیں، اس کا اندازہ لگاناکسی عام فرد کے بس کی بات نہیں ۔تب ہی تو اللہ تعالیٰ نے اجرِ عظیم کا وعدہ کیاہے، اُن والدین کے لیے جواس دُنیا میں ان کڑے امتحانوں سے گزرتے ہیں۔ والدین کایہ امتحان روز، بلکہ شب و روزجاری رہتا ہے۔ ایک توان بچّوں کے ساتھ پیش آنے والی مشکلات، پھر لوگوں کےدرشت رویّے، کھوجتی نظریں، تجسّس، دِل چیر دینے والی باتیں، طنز، تنقید، سوالات، بِن مانگے مشورے، الزامات، ترس، اپنوں کی بے رُخی، اجتناب اور سرد مہری۔ ایسے میںانھیں کن کن محاذوں پر لڑنا اور ہارنا پڑتا ہے، اس کا ادراک صرف اسپیشل بچّوں کے والدین ہی کر سکتے ہیں۔ 

نومولود کےدُنیا میں آنے سے قبل دیکھے گئے پِلے گروپ، نرسری ، مونٹیسوری، پِری پرائمری، پرائمری، سیکنڈری، میٹرک، کالج اور یونی ورسٹی کے سب خواب، خواب ہی رہ جاتے ہیں کہ اب توبس بھاگ دوڑ ہے، اسپتالوں، کنسلٹنٹ کلینکس، تھراپی سینٹرز، ری ہیبیلیٹشن سینٹر اور اسپیشل اسکولز کی طرف۔جس گھر میں معذور بچّہ پیدا ہو، وہاں فقط بچّہ ہی معذور نہیں ہوتا، بلکہ پورا گھرانا اپنے جذبات و احساسات سمیت معذور ہوجاتا ہے۔ دِن رات کی بدلتی روٹین، بچّے کی نگہداشت کے مسائل، علاج معالجے کی پریشانیاں، مالی مسائل کا انبار، سماجی تعلقات اور رشتے ناتے نبھانے کا ذہنی اور سماجی دباؤ۔ غرض کہ مشکلات ہی مشکلات ہوتی ہیں، جن کا سامنا کرتے کرتے والدین حال سے بےحال ہو جاتے ہیں کہ اسپیشل بچّے کا گھرانا اپنے مکینوں سے ہر دِن، ہر وقت قربانیوں کا طلب گار رہتا ہے۔

عام طور پر والدین کواسپیشل بچّوں کی دیکھ بھال، تعلیم و تربیت اور پرورش میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ مشکل وقت مل بانٹ کرہی گزارا جاسکتا،جس کے لیے وقت، محنت، پیسا اور والدین کے مابین مضبوط تعلق ازحد ضروری ہے ۔یاد رکھیے، ایک مضبوط خاندانی نظام اور سپورٹ سسٹم کی موجودگی ہی حالات بہتر اور آسان بنانے میںمعاون ثابت ہوتی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ اسپیشل بچّوں کے والدین شدید جذباتی دبائو کا شکار رہتے ہیں کہ انھیں گھر کے دیگر افراد، خاص طور پر بچّوں کی اچھی تعلیم و تربیت سمیت مستقبل اور حال کی فکر مستقل پریشان رکھتی ہے۔چوں کہ ان کے لیے زندگی کے تمام معاملات بہتر طریقے سے انجام دینے کی خواہش بہت صبر آزما اور دقّت طلب ہوتی ہے، جو اکثر سماجی تعلقات نبھانے کے دوران ناکام بھی ثابت ہوتی ہے تو یہ اضافی تناؤ، والدین کے درمیان بحث مباحثے، رنجشوں، غلط فہمیوں اور ایک دوسرے کو موردِالزام ٹہرانے کی صُورت نکلتا ہے،جس سے حالات مشکل سے مشکل ترہوتے چلے جاتے ہیں۔ 

اگر دونوں ایک دوسرے سے نالاں رہیں گے،توزندگی گزارنا دوبَھر ہوجائے گا، لہٰذا اس ذہنی دباؤ کے اثرات سے نکلنے کے لیے اوّلین کوشش یہی ہونی چاہیے کہ آپس میں محبّت اور اعتماد کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو جذباتی اور اخلاقی سہارا دیں۔ایک دوسرے کی قربانیوں کو ان کے فرائض کہہ کر بے قدری نہ کریں، بلکہ ایک دوسرے کی محنت کو خلوصِ دِل سےسراہیں۔ اگر والدین میں سے کسی ایک یاپھر دونوں کو کائونسلنگ کی ضرورت ہو،تو ہچکچانے کی بجائے ماہرین سے رجوع کیا جائے،کیوں کہ ایک ڈس ایبل بچّے کی بہتری کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے اکثر والدین، خاص طور پرمائیںخود ڈیپریشن اور اینزائٹی کا شکار ہوجاتی ہیں،جس کا سدِّباب مناسب علاج اور اہلِ خانہ کے تعاون ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ پھرمشترکہ خاندانی نظام میںشامل تمام افراد کو بھی ان مسائل کا ادراک ہونا چاہیے، جن کا سامنا اسپیشل بچّوں کے والدین شب و روز کرتے ہیں۔

گھر کے تمام افراد کی یہی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ اس آزمائش میں ان کا سہارا بنیں، اخلاقی اور جذباتی مدد کریں، نہ کہ ان پر کسی بھی طرح کا اضافی بوجھ اور مزید ذمّے داریاں ڈال دی جائیں۔ گھر میں موجود تمام افراد کو اپنی ذمّے داریوں کابھرپوراحساس ہونا چاہیے،کیوں کہ اگراسپیشل بچّے کی ذمّے داری مل بانٹ کر اُٹھالی جائے، تو مشکل آسانی میں بدل جاتی ہے۔اگر معالج یا تھراپسٹ کے پاس بچّے کے ساتھ والدین کا بھی جانا ضروری ہے، تو گھر کے افرادبچّے کی دیگر ذمّے داریاں نبھانے میں اپنا مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مثلاً بچّے کو پارک یا چہل قدمی کے لیے باہر لے جانا، اس کی ضروریات کا خیال رکھنا، ہنسی خوشی وقت گزارنا، پڑھائی میں مدد دینا، ساتھ بیٹھ کر ٹی وی دیکھنا، موسیقی سُننا، کوئی کہانی سُنا نا یا کوئی کھیل کھیلنا وغیرہ۔ اس طرح والدین کو بھی تھوڑا پُرسکون وقت میسّر آسکے گا۔

اسپیشل بچّوں کےدیگر بہن بھائی بھی بچپن ہی سے مختلف مسائل کا سامنا کرتے ہیں، جس میں روزمرّہ معمولات کی بے قاعدگی سرِفہرست ہے۔ اس کے علاوہ سونے کے اوقات میں کمی، پڑھائی کے لیے پُرسکون ماحول کی عدم دستیابی، گھومنے پھرنے کے لیے اپنی پسندیدہ جگہ نہ جاپا نا، ڈس ایبل بہن بھائی سے شرمندگی محسوس کرنا، گھر پر اپنے دوستوں کو مدعو نہ کرسکنا، اپنی پسندیدہ چیزوں اور وقت کی قربانی دینا وغیرہ شامل ہیں۔سب سے اہم مسئلہ والدین کا اپنے ڈس ایبل بچّے کو زیادہ وقت اور توجّہ دینا ہے۔ 

دوسرے بچّوں سےنہ چاہتے ہوئے بھی عدم توجہی کا مظاہرہ ہوجاتا ہے۔ ان کی معصوم خواہشات کو یہ کہہ کر رَد کردینا کہ ’’تم تو بالکل ٹھیک ہو ،سمجھ دار ہو ، سمجھنے کی کو شش کرو‘‘،نارمل بچّوں میں مایوسی ، بے دِلی اور دیگر نفسیاتی مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔ ایک مضبوط خاندانی نظام، والدین کا ایک پلیٹ فارم پرہونا اور مستحکم باہمی تعلق ان تمام تر مسائل سے نمٹنے کے لیے ناگزیر ہیں۔ اور یہ تب ہی ممکن ہے، جب آپ اپنے مصروف ترین شیڈول سے اپنے لیے بھی کچھ وقت نکالیں۔روزمرّہ معمولات میں توازن اور ترتیب پیدا کریں ۔علاوہ ازیں، اگر گھر میں دادا دادی، نانا نانی یا دیگر رشتے دارموجود ہیں، تو ان سےبھی اپنے مسائل شیئر کریں۔ان کی باہمی رضامندی سے ذمّے داریاں بانٹ لیں۔یہ اقدامات بہترین سپورٹ سسٹم ثابت ہوسکتے ہیں۔ 

عام طور پر والدین اپنے دیگر بچّوں کو بَھرپور وقت نہیں دے پاتے، جو درست نہیں۔ان بچّوں کا بھی آپ پر حق ہے،لہٰذا ان سے خوش گوار ماحول میں بات کریں، ان کے مسائل سُنیں، ان کی معصوم خواہشات کوہر ممکن حد تک پورا کرنے کی کوشش کریں۔ بچّوں کی سمجھ بوجھ اور عُمر کے مطابق ان کے ساتھ اسپیشل بچّے کے مسائل پر گفتگو کی جائے۔ حال اور مستقبل کے بارے میں ان کے خیالات اور خدشات سُنیں، ان کی قربانیوں کو سراہیں،جب کہ انھیںمایوسی اور شرمندگی کے گرداب سے باہرنکالنے کے لیے اپنے ساتھ اسپیشل بچّوں کے اسکول یا سینٹرز لے کر جائیں او روہاں موجود بچّوں سے بھی ملوائیں۔

اس ضمن میں بچّوں کی اسکول ٹیچر سے بھی بات کی جاسکتی ہے کہ وہ کلاس میں اسپیشل بچّوں سے متعلق آگاہی کا پروگرام ترتیب دے۔اس طرح بچّے اپنے ڈس ایبل بہن یا بھائی کو باعثِ شرمندگی نہیں سمجھیں گے۔پھر اپنے بچّوں کو اُن کی عُمر کے مطابق اسپیشل بہن یا بھائی کی چھوٹی چھوٹی ذمّے داریوں میں اپنے ساتھ لازماً شریک کریں۔ انھیں یہ احساس بھی دلائیں کہ وہ اپنے بہن بھائی، والدین اور اس گھر کے لیے کتنے اہم ہیں۔ بچّوں کے سامنے مایوسی کی باتیں کرنے یا نصیب کو دوش دینے سےاجتناب برتیں۔ غرض کہ ہر مثبت طریقے سےان کے ساتھ اپنا اوراسپیشل بچّے کا رشتہ مضبوط کرنے،گھر کے ماحول اور خود کو ممکنہ حدتک پُرسکون اور خوش باش رکھنے کی کوشش کی جائے۔

ترقّی یافتہ مُمالک میں ترجیحی بنیاد پر اسپیشل بچّوں اور بڑوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے،تعلیم و تربیت کےاسپیشل ادارے ان کی خاص ضروریات کے مطابق وضع کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ عام اسکولز اور کالجز میں بھی ان کی تعلیم و تربیت کے لیے بہترین نظام تشکیل دیاجاتا ہے۔بیش تر مُمالک میں تشخیص، علاج اور ابتدائی تعلیم سے لے کر مختلف مراحل، ہنر مندی (Vocational training)، ملازمت کے مواقع،شیلٹرڈ ورکشاپس(Sheltered workshops)اور رہایشی ادارے سرکاری سرپرستی میں تربیت یافتہ اساتذہ، ٹرینرز اور دیگر اسٹاف کی زیرِنگرانی عمل میں آتے ہیں۔بلاشبہ اس ضمن میں ایک صحت مند معاشرہ اور بہترین فلاحی نظام ہی اپنا مثالی کردار ادا کرسکتا ہے، مگر جہاں معاشرہ بدتہذیب ، بداخلاق ہو،نظام بددیانتی اور کرپشن پر مبنی ہو، عام صحت مند افراد بھی مسائل اور پریشانیوں میں الجھے ہوں، وہاںاسپیشل بچّوں اور اُن کے والدین کی سنوائی کیسے ممکن ہے؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر تعلیمی ادارے میں معذورین کی شمولیت کا خاص طور پربندوبست کیا جائے اور ایسے مخصو ص ادارے بھی قائم کیے جائیں، جہاں یہ افراد اپنی اپنی صلاحیتوں اور اہلیت کے مطابق ہنر سیکھ سکیں۔ 

اسپیشل افراد کو ملازمت کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ پارکس اور تفریح گاہوں میں ہفتے میں چند گھنٹے ایسے افراد اور ان کی فیملیز کے لیے مختص کیے جائیں،تاکہ وہ آزادی سے گھوم پِھر سکیں اور خُوب موج مستی کرسکیں۔ ماہرین کی زیرِنگرانی، والدین کو اپنے اسپیشل بچوں کے لیےـ"Day care & Respite Care" کی سہولت فراہم کی جائے۔پھر اسپیشل بچّوں کے لیے اِن ڈور، آؤٹ ڈورگیمز اور اسپورٹس کلبز کا قیام بھی ضروری ہے، تاکہ ڈس ایبل افراد گھروں میں بند رہنے کی بجائے صحت مندانہ سرگرمیوں میں حصّہ لیں اور کوالٹی ٹائم گزار سکیں، جو اُن کابَھرپور حق ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے اور اس سے نبردآزما ہونے کے لیے مستند تربیت یافتہ ماہرین کی زیر نگرانی ایسے رہایش گاہوںکا قیام بھی ناگزیر ہے، جہاں اسپیشل افراد، والدین کی وفات کے بعد ایک بہتر زندگی بسرکر سکیں۔

اگرچہ ہمارے یہاں بھی ہر سال سرکاری اور نجی سطح پر’’ معذوری کا عالمی یوم‘‘ منایا جاتا ہے۔ اس روز کانفرنسز اور سیمینارز وغیرہ کا انعقاد بھی کیا ہوتا ہے، اس بات سے قطع نظر کہ اسپیشل افراد اور ان کے اہلِ خانہ کو بیانات اور ایک روزہ تقریبات کی بجائے ٹھوس، جامع اور عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے، جوزندگیوں میں مثبت تبدیلی لانے اوران افراد کو رکاوٹوں کے بغیر آگے بڑھنے کا ہم وار راستہ فراہم کرنے کا سبب بنے۔ایسے مؤثر اقدامات کیے جائیں، جن کی بدولت اسپیشل افراد کو ایک ایسا مستقبل میسّر آئے، جہاں بلڈنگز میں سیڑھیوں کے بغیر بھی ان افراد کا داخلہ ممکن ہو۔سمندر کنارے جانے کے لیے خصوصی ریمپس(Ramps)ہوں،با آسانی ملازمتیں مل سکیں، بنا اس خوف کے کہ ان سے امتیازی سلوک روا رکھا جائے گا۔ ایسے خوش آئند مستقبل کا حصول ہراسپیشل شہری کا بھی حق ہے،جس کی فراہمی ہم سب کی ذمّے داری ہے۔

تو آئیے، مل جُل کر ایک صحت مند اور مثبت معاشرہ تشکیل دیں اورایک ایسے مستقبل کی تعمیر کریں، جو اسپیشل افراد کو ان کی معذوری کی وجہ سے معاشرے سے علیٰحدہ نہ کرے۔ خاص طور پران افراد کے آگے بڑھنے کی راہ میںجہاں جہاںرکاوٹیں پائیں، اُنھیں ہٹادیں، چاہے وہ رکاوٹیں راستوں کی ہوں یا منفی روّیوں کی۔ (مضمون نگار، سینٹر فار آٹزم،کراچی کی سربراہ ہیں)

تازہ ترین