• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی دارالحکومت گزشتہ کئی ماہ سے سیاسی، احتجاجی اور حکومت کی دفاعی سرگرمیوں کے حصار میں ہے۔ اگرچہ موسمِ سرما کی شدّت میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے، لیکن ان سرگرمیوں اور سازشی تھیوریز کی حدّت سرد موسم پر بالا دست دکھائی دیتی ہے۔ اسلام آباد کے پُرتعیّش سیکٹرز میں واقع اوپن ایئر ریسٹورینٹس عموماً معروف اینکرز اور سیاست دانوں سے آباد رہتے ہیں، جن کی گُفت و شُنید اور بدن بولی سے مستقبل کے سیاسی منظر نامے کا اندازہ لگایا جاتا ہے، لیکن موسمِ سرما میں یہ با خبر اور با اثر شخصیات یا تو ان ریستورانوں کے اندرونی حصّوں میں منتقل ہو جاتی ہیں یا پھر اپنے گھروں میں دہکتے آتش دانوں کے سامنے بیٹھ کر رات گئے تک حکومت گرانے اور اپوزیشن کو سہارا دینے یا اس کے برعکس حکمتِ عملی ترتیب دینے میں مصروف نظر آتی ہیں۔ 

پھر اس وقت کم و بیش مُلک کے تمام معروف اینکرز ہی نے یو ٹیوب پر اپنے چینلز بنالیے ہیں، جن کی مدد سے وہ ایسی معلومات و انکشافات بھی عوام تک پہنچاتے رہتے ہیں، جنہیں نجی چینلز نشر کرنے کے متحمّل نہیں ہو سکتے۔ 

ان دنوں ان یو ٹیوب چینلز پر یہ سوالات موضوعِ بحث ہیں کہ کیا علاج کی غرض سے لندن میں مقیم سابق وزیرِ اعظم اور پاکستان مسلم لیگ (نون) کے قائد، میاں نواز شریف بحالیٔ صحت کے بعد وطن واپس آئیں گے؟ کیا سابق صدر، آصف علی زرداری بھی جلد بیرونِ مُلک جانے والے ہیں؟ کیا مریم نواز بھی مُلک سے باہر چلی جائیں گی؟ قائدِ حزبِ اختلاف، میاں شہباز شریف کا بیرونِ مُلک قیام مختصر ہوگا یا طویل؟ 

نیز، کیا اپوزیشن، میڈیا اور اسٹیبلشمنٹ کے بعد عدلیہ سے محاذ آرائی کے نتیجے میں حکومت کم زور پڑ گئی ہے؟ واضح رہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپنی کارکردگی کے باعث بھی ہدفِ تنقید بنی ہوئی ہے اور عوامی مسائل سے نمٹنے میں ناکامی پر اپوزیشن اسے آڑے ہاتھوں لے رہی ہے۔ اگر صرف پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت ہی کا تذکرہ کیا جائے، تو ’’اندر کی بات‘‘ جاننے کا دعویٰ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ابتدا ہی سے یہ طے تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت اور قیادت کو ایک سال تک بھرپور مواقع فراہم کیے جائیں گے اور پھر ان کی کارکردگی کی روشنی میں فیصلے ہوں گے۔ 

اگر موجودہ حکومت کی اب تک کی کارکردگی کا بنظرِ غائر جائزہ لیا جائے، تو اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ اس عرصے میں بالخصوص خارجی سطح پر اس نے متعدد ایسے اقدامات اور فیصلے کیے کہ جن پر وہ ’’اچھے نمبروں‘‘ کی مستحق ہے۔ البتہ داخلی سطح پر بالخصوص گُڈ گورنینس اور عوام کو ریلیف دینے کے حوالے سے حکومت کی کارکردگی بہتر دکھائی نہیں دیتی اور اس بات کا اعتراف خود وزرا بھی کرتے ہیں۔ اسی بِنا پر عوام کا ایک بڑا طبقہ، جن میں پاکستان تحریکِ انصاف کے ووٹرز بھی شامل ہیں، حکومت سے نالاں دکھائی دیتا ہے۔ وگرنہ اپوزیشن کو حکومت کے خلاف سڑکوں پر آنے کی ہمّت نہ ہوتی۔ 

علاوہ ازیں، بے شمار معاملات میں وزیرِ اعظم، عمران خان کے بے لچک رویّے کی وجہ سے بھی حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے۔ انہیں اپوزیشن کی جانب سے ’’یوٹرن‘‘ لینے کا طعنہ محض اس لیے دیا جاتا ہے کہ وہ اکثر و بیش تر اپنے فیصلوں سے پیچھے ہٹتے رہتے ہیں، جب کہ اس کے ردِ عمل میں عمران خان یہ جواز بھی پیش کرتے ہیں کہ دُنیا کے بڑے بڑے لیڈرز نے صورتِ حال کے پیشِ نظر اپنے فیصلوں پر نظرِ ثانی کے بعد انہیں یا تو واپس لیا یا پھر تبدیل کر دیا۔ 

تاہم، حیرت انگیز اَمر یہ ہے کہ مُلک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب، میں اپنے نام زد کردہ وزیرِ اعلیٰ، عثمان بُزدار کی کارکردگی سے متعلق مسلسل شکایات سامنے آنے کے باوجود بھی انہوں نے اپنے اس فیصلے پر ابھی تک کوئی یو ٹرن نہیں لیا، بلکہ اس سلسلے میں انہوں نے جو طرزِ عمل اختیار کر رکھا ہے، اُس میں دانش مندی کی بجائے ضد کا عُنصر قدرے نمایاں نظر آتا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک موقعے پر وزیرِ اعظم نے نہ صرف اپنے رفقا کا اپنے پسندیدہ وزیرِ اعلیٰ کے خلاف مؤقف سُننے سے انکار کر دیا، بلکہ یہ تک کہہ دیا کہ ’’جب تک مَیں وزیرِ اعظم ہوں، پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ بزدار ہی رہیں گے۔‘‘

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اپوزیشن حکومت کے خاتمے کے دعوے کیوں کر رہی ہے۔ پھر اس حوالے سے نہ صرف قیاس آرائیاں اور سازشی تھیوریز گردش کر رہی ہیں، بلکہ بعض حلقے بڑے وثوق سے یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ حکومت کو روانہ کرنے کے لیے شروع کیے گئے اقدامات میں دسمبر میں تیزی آجائے گی اور مارچ تک یہ نتیجہ خیز ثابت ہو جائیں گے۔ درحقیقت، اس تاثر نے اُس وقت تقویّت حاصل کی کہ جب جمعیت علمائے اسلام (فے) کے مرکزی امیر، مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کے خلاف آزادی مارچ کا آغاز کیا۔ وہ ایک بہت بڑے احتجاجی کارواں کی قیادت کرتے ہوئے نہ صرف 4روز میں منظّم انداز میں کراچی سے اسلام آباد پہنچے، بلکہ 13روز تک وہاں اپنے کارکنوں کی غیر معمولی تعداد کے ساتھ دھرنا بھی دیا۔ 

گرچہ مولانا کی تقاریر اور سرگرمیوں کی کوریج نہ صرف سرکاری میڈیا بلکہ نجی چینلز پر بھی ممنوعہ حد تک محدود کر دی گئی تھیں، لیکن پھر اچانک ہی کنٹینر سے اُن کا خطاب براہِ راست دکھانے کا سلسلہ شروع ہو گیا، جس پر وزرا نے بعض خدشات اور تحفّظات کا اظہار بھی کیا۔ اپوزیشن کی ایسی ہی سرگرمیوں کے دوران ایک موقعے پر وزیرِ اعظم نے خم ٹھونک کر کہا کہ ’’فوج بھی میرے پیچھے کھڑی ہے۔‘‘ تاہم، اگر ایسا ہے، تو اس کا اس انداز میں اعلانیہ اظہار کسی طور بھی مناسب نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بعد ازاں جب کم و بیش دو ماہ بعد وزیرِ اعظم اور آرمی چیف، جنرل قمر جاویدباجوہ کے درمیان ملاقات ہوئی اور عمران خان خلافِ معمول دو دن کی تعطیل پر چلے گئے، تو اس بارے میں خُوب افسانے بنے۔

دوسری جانب سابق وزیرِ اعظم، میاں نواز شریف کو علاج کے لیے بیرونِ مُلک جانے کی اجازت دینے کے لیے وفاقی حکومت نے زرِ ضمانت کے طور پر 7.5ارب روپے کے انڈیمنٹی بانڈز جمع کروانے کی شرط عاید کی تھی، جسے مسلم لیگ (نون) کے رہنمائو ں نے ’’تاوان‘‘ کا نام دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ قبل ازیں، خود وزیرِ اعظم اور اُن کے وزرا یہی کہتے تھے کہ پلی بارگین ہی وہ واحد صُورت ہے کہ جس کے نتیجے میں میاں نواز شریف مُلک سے باہر جا سکتے ہیں، لیکن ایسا نہ ہو سکا اور آج میاں نواز شریف لندن میں علاج کروا رہے ہیں۔ ان حالات میں چیئرمین نیب، جسٹس (ر) جاوید اقبال نے اسلام آباد میں منعقد ہونے والی ایک تقریب سے خطاب کے دوران کہا کہ ’’ہواؤں کا رُخ بدل رہا ہے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ حکم راں جماعت بری الذمّہ ہے۔‘‘

 چیئرمین نیب کا مزید کہنا تھا کہ ’’اب ہم دوسرے محاذ کی طرف جا رہے ہیں، یک طرفہ احتساب کا تاثر دور کریں گے۔‘‘ اس موقعے پر صرف اپوزیشن ہی نے نہیں، بلکہ سیاسی سمجھ بُوجھ رکھنے والے تمام طبقات نے چیئرمین نیب کے ان کلمات سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اپوزیشن کے بعد اب حکومتی شخصیات کا احتساب بھی شروع ہونے والا ہے، جس کی تیاری کافی عرصے پہلے شروع ہو چکی ہے۔ پھر وزیرِ اعظم، عمران خان نے حویلیاں، مانسہرہ سیکشن موٹر وے کی افتتاحی تقریب میں خطاب کیا، تو اُن کا چہرہ ہی نہیں، بلکہ غصّے سے بھری تقریر بھی اُن کی اندرونی کیفیات اور جذبات کا اظہار کر رہی تھی اور اسی کیفیت میں انہوں نے عدلیہ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ ریمارکس بھی دیے کہ ’’عدلیہ یہ تاثر دُور کرے کہ طاقت وَر اور کم زور کے لیے الگ الگ قانون ہے۔‘‘ 

چوں کہ وزیرِ اعظم نے یہ ریمارکس میاں نواز شریف کی بیرونِ مُلک روانگی کے تناظر میں دیے تھے، لہٰذا عدلیہ کی طرف سے بھی فوری ردِ عمل سامنے آیا۔ اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب میں چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے غیر مبہم الفاظ میں کہا کہ ’’وزیرِ اعظم نے خود اُنہیں (میاں نواز شریف کو) باہر بھیجا ہے۔ ہمیں طاقت وَروں کاطعنہ نہ دیں۔ ہم نے ایک وزیرِ اعظم کو نا اہل کیا اور دوسرے کو سزا دی۔ سابق آرمی چیف کا فیصلہ جلد آنے والا ہے۔ وزیر اعظم اپنے بیان پر غور اور احتیاط کریں۔‘‘

ہر چند کہ رومانی شاعری میں دسمبر کے مہینے کے فراق کا ایک خاص تناظر میں تذکرہ کیا جاتا ہے، لیکن مُلک کی موجودہ صورتِ حال میں سیاسی پیرائے میں بھی اس کا ذکر کیا جاسکتا ہے اور محبوب کی بجائے حکم رانوں کو بھی یہ پیغام دیا جا سکتا ہے کہ ’’اُسے کہنا دسمبر آگیاہے۔‘‘ 

حکومت کے لیے دسمبر کا مہینہ اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ اپوزیشن کی درخواست پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 26نومبر تا 6دسمبر چیف الیکشن کمیشنر کی مدّتِ ملازمت ختم ہونے تک، پاکستان تحریکِ انصاف کے فارن فنڈنگ کیس کی روزانہ سماعت کا فیصلہ کیا ہے۔ گو کہ الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ (نون) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف بھی کھاتے کھول دیے ہیں اور ان کے نمایندوں کو اسکروٹنی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا ہے، لیکن اوّل تو اسی عرصے میں صورتِ حال واضح ہو جائے گی یا پھر موجودہ چیف الیکشن کمیشنر، سردار محمد رضا خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ معاملہ کئی ماہ تک کے لیے ملتوی ہو جائے گا۔ 

البتہ اپوزیشن بالخصوص جمعیت علمائے اسلام (فے) کو یقین ہے کہ اگر فیصلہ موجودہ چیف الیکشن کمیشنر ہی نے کرنا ہے، تو پھر یہ پی ٹی آئی کے خلاف آئے گا، کیوں کہ سردار رضا خان کے پاس سیاسی تاریخ میں اپنا نام زندۂ جاوید رکھنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ پھر الیکشن کمیشن کے دو اراکین کی تقرّری کے حوالے سے بھی وہ موجودہ حکومت سے خاصے نالاں ہیں۔ واضح رہے کہ اگر غیر ملکی فنڈنگ کیس کا فیصلہ پی ٹی آئی کے خلاف آتا ہے، تو پھر پوری جماعت پر پابندی لگ سکتی ہے، جس کی وجہ سے حکومتی جماعت کے رہنمائوں میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ 

تاہم، وزیرِ اعظم نے کور کمیٹی اور کابینہ کے اجلاس میں اپنے رفقا کو تسلّی دیتے ہوئے کہا ہے کہ فارن فنڈنگ میں کسی قسم کی غیر شفّافیت نہیں اور نہ ہی گھبرانے کی ضرورت ہے، لیکن بے یقینی کی صورت ِحال پھر بھی موجود ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ چوں کہ موجودہ سیاسی نظام میں وزیرِ اعظم اس لیے مطلوبہ اقدامات نہیں کر پا رہے کہ پارلیمنٹ میں اُنہیں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں، لہٰذا وہ خود اسمبلیاں تحلیل کر کے دوبارہ الیکشن کروائیں گے، لیکن یہ مشکل ہی نہیں، بلکہ ناممکن بھی دکھائی دیتا ہے، کیوں کہ وزیرِ اعظم کو اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ اگر انہوں نے ان حالات میں نئے انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا، تو شاید پارلیمنٹ میں اُن کی پارٹی کی نشستیں نصف سے بھی کہیں کم ہو جائیں۔ 

یہی وجہ ہے کہ اس وقت صدارتی نظام کی بات بھی ہو رہی ہے۔ گرچہ اس مقصد کے لیے بھی اسمبلیاں تحلیل کرنا پڑیں گی اور ریفرنڈم کا سہارا بھی لیا جا سکتا ہے، لیکن اس دوران امیدوار کو یہ واضح کرنا ہو گا کہ وہ مُلک میں صدارتی نظام لانے کا خواہش مند ہے۔ البتہ اس حوالے سے وزیرِ اعظم ضرور پُر سکون ہوں گے کہ چیف آف آرمی اسٹاف، جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدّتِ ملازمت میں 3سال کی توسیع ہو گئی ہے اور اب وہ 2022ء تک اس عُہدے پر متمکن رہیں گے، جب کہ عسکری شعبے میں دوسری اہم تقرّریاں بھی بطریق احسن مکمل ہو گئی ہیں۔

سیاسی مخالفین سے تضحیک آمیز رویّے کی روایت نئی نہیں

پاکستانی سیاست میں مخالفین کا ٹھٹّھا اُڑانے، اُن کے نام بگاڑنے، نقلیں اُتارنے اور پَھبتیاں کَسنے کا چلن عام ہے، حالاں کہ مہذّب معاشروں میں اسے اخلاقی طور پر بُرا سمجھا جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارا مذہب بھی کسی کی دل آزاری کی اجازت نہیں دیتا۔ اس حوالے سے وزیرِ اعظم، عمران خان پر خاصی تنقید کی جاتی ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے جلسوں میں مولانا فضل الرحمٰن کو بطور خاص طنز و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں اور تضحیک کے لیے اُن کا نام لینے کی بہ جائے وہ لفظ استعمال کرتے ہیں کہ جو مولانا کے لیے مسلم لیگ (نون) کے رہنما، خواجہ آصف نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اُس وقت ’’تجویز‘‘ کیا تھا کہ جب محترمہ بے نظیر بُھٹّو کی حکومت تھی۔ 

تب مولانا فضل الرحمٰن اُن کے اتحادی تھے اور مسلم لیگ اپوزیشن میں تھی۔ اُس وقت یہ بات عام تھی کہ مولانا فضل الرحمٰن نے افغانستان کو ڈیزل کی فراہمی کے لیے حکومت سے پرمٹس لیے ہیں اور تب سے ’’ڈیزل‘‘ کا حوالہ اور جے یو آئی کے مرکزی امیر لازم و ملزوم ہو گئے۔ اگر ماضی میں جھانکا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین، ذُوالفقار علی بُھٹّو بھی وزیرِ اعظم کی حیثیت سے عوامی جلسوں میں اپنے مخالفین کو مضحکہ خیز ناموں سے پکارتے تھے۔ 

مثلاً، ماضی میں صوبۂ سرحد (موجودہ خیبر پختون خوا) سے تعلق رکھنے والے ایک مقبول ترین لیڈر اور اپنے شدید ترین مخالف، خان عبدالقیوم خان کو بُھٹّو اُن کے ڈیل ڈول کے باعث ’’ڈبل بیرل خان‘‘ کہا کرتے تھے۔ اسی طرح ایئر مارشل اصغر خان کو انہوں نے لیاقت باغ، راول پنڈی کے جلسۂ عام میں ’’آلو‘‘ کہہ کر پکارا، تو پارٹی کے جیالوں نے اُن کا نام ہی ’’آلو‘‘ رکھ دیا۔ 

مولانا شاہ احمد نورانی نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایک مرتبہ بُھٹّو کے خوش شکل وزیر، عبدالحفیظ پیرزادہ کو ’’سوہنا مُنڈا‘‘ کہہ کر کیا پکارا کہ اُن کا نام ہی ’’سوہنا مُنڈا‘‘ پڑ گیا۔ اس کے جواب میں مولانا شاہ احمد نورانی کے بارے میں عبدالحفیظ پیر زادہ کا کہنا تھا کہ ’’مولانا قومی اسمبلی کے اجلاس میں گالوں پر لیموں رگڑ کر آتے ہیں‘‘، لیکن اس جملے کو پذیرائی نہ مل سکی۔ 

اسی طرح خواجہ محمد آصف نے قومی اسمبلی کے ایک اجلاس میں پاکستان تحریکِ انصاف کی خاتون رہنما، شیریں مزاری کو ’’ٹریکٹر ٹرالی‘‘ سے تشبیہ دی تھی اور ایک موقعے پرپی ٹی آئی پر تنقید کرتے ہوئے ادا کیے گئے اُن کے اس جملے ’’کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے‘‘نے بھی کافی مقبولیت حاصل کی۔

تازہ ترین