• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آصف زرداری اور بودی شاہ


آج پھر صبح سویرے میرے ملازم نے بتایا کہ سر آپ کے دوست شاہ صاحب تشریف لائے ہیں، انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھا آیا ہوں، وہ دو تین مرتبہ آپ کو بلانے کا کہہ چکے ہیں۔ پیغام ملتے ہی میں شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہو گیا، کیا دیکھتا ہوں کہ آج بودی شاہ کے ساتھ پیر چھوٹے شاہ بھی تشریف فرما ہیں، میں نے سلام کیا اور بیٹھ گیا، بودی شاہ غصے سے بھرا بیٹھا تھا۔ 

میرے بیٹھتے ہی شاہ صاحب کا جلالی خطاب شروع ہوگیا، کہنے لگے ......’’تمہیں بالکل شرم نہیں آتی، تم بالکل نکمے اور نااہل ہو، تمہارے سب ملازم بھی نکمے ہیں، کافی دیر ہوگئی ہے نہ ابھی تک چائے آئی ہے، نہ حقہ، ناشتہ تو پتا نہیں دوپہر تک آئے گا اور آج تو پیر چھوٹے شاہ بھی میرے ساتھ آیا ہوا ہے......‘‘

بودی شاہ نے لمحے بھر کی بریک لی تو میں بول پڑا۔ شاہ جی! یہ بےچارے انسان ہیں، جن نہیں ہیں۔ ابھی حقہ، چائے، ناشتہ سب کچھ آجاتا ہے بس تھوڑا سا صبر، ویسے بھی آپ نے کبھی آنے سے پہلے بتانے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ 

میری اس گستاخی پر بودی شاہ سے رہا نہ گیا اور شدید غصے میں بودی شاہ بول پڑا ’’بتانے کے بچے، بودی شاہ نے کبھی آج تک کسی کو نہیں بتایا، مرضی سے آتا جاتا ہے، سیدھی بات کرو تم نکمے ہو، تمہیں کبھی خیال نہیں آیا کہ تم اصلی بیمار آصف زرداری کے بارے میں کچھ لکھو، تمہارے سامنے ایک صحت مند مریض چلا گیا، مجھے تم پر بہت غصہ ہے کہ تم ماضی میں پی ایس ایف میں رہے، تم نے محترمہ بینظیر بھٹو پر ’’شہیدِ مشرق‘‘ کے نام سے کتاب لکھی، تمہارا حاکم زرداری سے میل جول رہا، آصف زرداری اور تمہارے درمیان بڑی خاص محبت ہے، تم دونوں دیسی آدمی بھی ہو، بلاول تمہیں احترام اور محبت سے ملتا ہے، تم کیوں نہیں بتاتے، کیوں نہیں لکھتے کہ آصف زرداری واقعی بیمار ہے‘‘۔

میں نے بودی شاہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ شاہ جی! میں کس کو بتائوں؟ جس پر بودی شاہ گرجنے لگا ’’تمہاری سب طاقتوروں سے دوستیاں ہیں، تم ان طاقتوروں کو کیوں نہیں بتاتے کہ جو چلا گیا ہے، اس کی بیماری تو کہیں نظر نہیں آرہی، آصف زرداری حقیقتاً بیمار ہے، وہ تو لندن میں بھی علاج نہیں کروانا چاہتا ، وہ تو ملک کے اندر کراچی ہی سے علاج کروانا چاہتا ہے، طاقتور اسے کیوں نہیں کراچی جانے دیتے۔ 

طاقتوروں کو کیوں نہیں بتاتے کہ آصف زرداری کے مقدمات کراچی منتقل کرو، یہ کیوں نہیں بتاتے کہ90کی دہائی میں تمہارے خلاف اشتہار شائع کرنے والا آصف زرداری نہیں بلکہ تمہارا چہیتا تھا، تمہارے اس چہیتے ہی نے آرمی چیف کو فضا میں برخاست کیا تھا، تمہارا چہیتا ہی آرمی چیف کو ملک میں اترنے نہیں دے رہا تھا، تمہارے چہیتے ہی نے کارگل کا جیتا ہوا معرکہ شکست میں بدلا تھا، تم اسے پھر اقتدار میں لے آئے، اس کے عہد میں پھر سیکورٹی لیکس ہوئیں، وہ تمہیں سبق سکھانے کی باتیں کرتا رہا، اسی نے خلائی مخلوق کی مشہوری کی۔ 

آصف زرداری نے تو اس وقت ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ بلند کیا جب ہر طرف آگ لگی ہوئی تھی۔ آصف زرداری نے تو عدالتوں پر حملے نہیں کئے۔ یہ کام بھی تمہارے چہیتے ہی نے کیا، تمہارا چہیتا ہی یہ کہتا رہا کہ ججوں میں بغض بھرا ہوا ہے، وڈیو اسیکنڈل بھی وہی لائے، بریف کیسوں کا کام بھی انہوں نے کیا، ٹیلی فون پر فیصلوں سے متعلق ہدایات بھی انہوں نے دیں۔ پیپلز پارٹی تو چپ رہی، اس نے عدالتی قتل بھی برداشت کیا۔ 

ججوں کی تحریک میں بھی پیپلز پارٹی کے لوگ شہید ہوئے، ڈاکٹر اسرار شاہ کی ٹانگیں اڑ گئیں، نرگس فیض ملک موت کے منہ سے واپس آئی، اب ان لوگوں نے عورت کی ہمدردی کہاں سے نکالی لی ہے جب محترمہ بینظیر بھٹو شہید پر ظلم ہوتا تھا تو یہ ہمدردی کہاں تھی؟ پچھلی صدی میں جب شہلا رضا، شرمیلا فاروقی اور شگفتہ جمعانی کو قید و بند کا سامنا تھا تو یہ ہمدردی کہاں سو گئی تھی اور آج جب فریال تالپور قید کاٹ رہی ہیں تو یہ ہمدردی کیوں چپ ہے۔ 

کیا یہ ہمدردی صرف چہیتے کی بیٹی پر جاگتی ہے، آخر یہ ہمدردی حاکم زرداری کی بیٹی پر کیوں خاموش رہتی ہے، بھٹو کی بیٹیوں پر کیوں نہیں بولتی؟ پیپلز پارٹی ہمیشہ انصاف کے دروازوں پر رُلتی رہی مگر بھاگی نہیں، اب تو طاقتوروں نے تمہارے لاڈلے دوست کو بھی بتادیا ہے کہ ان کا اصل چہیتا ایک ہی ہے، اس چہیتے کا انتخاب طاقتوروں نے 1980میں کیا تھا، اس سے محبت اور ہمدردی ابھی تک چل رہی ہے، رہا لاڈلا تو اس سے کوئی محبت نہیں، اس سے محبت وقتی تھی، اب اسے سایہ ملنا بند ہو گیا ہے، اسی لئے تو لاڈلے کی فرسٹریشن بڑھ رہی ہے، اس کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ 

عثمان بزدار سے محبت اسے بھنور میں لے آئی ہے۔ اس کے آس پاس گرداب ہی گرداب ہیں کیونکہ اس نے اپنے گرد ایسی شخصیات جمع کیں جن کے چال چلن کے سرٹیفکیٹ مشکوک ہیں، دریا کی موجوں میں شکوک پیدا ہو چکے ہیں اور اگر کبھی راستے میں شکوک کے ڈیرے لگ جائیں تو پھر جناتی کام تیز ہو جاتے ہیں، حالات ہچکولے کھا رہے ہیں، ہر طرف بھونچال کا سماں ہے۔ 

سیاست میں زلزلہ ہے، پتا نہیں یہ زلزلہ کس کس کے محل کو زمیں بوس کرتا ہے، بہرکیف چہیتا لندن جا چکا ہے، گیم چینجر اُس کے ساتھ ہے، لاڈلا گرداب میں جبکہ آصف زرداری جیل میں انصاف کا منتظر ہے، اس کی بہن ہمدردی کی نگاہیں تلاش رہی ہے حالانکہ وہ خود جیل میں قیدی خواتین کے لئے ہمدردی کی علامت بن چکی ہے مگر ہمدردی ہر ایک کے لئے کہاں ہوتی ہے‘‘۔ 

خالد ندیم شانی کے چند اشعار حالات کے مطابق ہیں کہ

خط کے چھوٹے سے تراشے میں نہیں آئیں گے

غم زیادہ ہیں لفافے میں نہیں آئیں گے

مختصر وقت میں یہ بات نہیں ہو سکتی

درد اتنے ہیں خلاصے میں نہیں آئیں گے

جس طرح آپ نے بیمار سے رخصت لی ہے

صاف لگتا ہے جنازے میں نہیں آئیں گے

تازہ ترین