دنیا بھر میں مقبول اور 2017 میں نوبیل ادبی انعام حاصل کرنے والے جاپانی نژاد برطانوی ادیب’ ’کازواواِشیگورو ۔Kazuo IshiGuro‘‘ نے 2005 میں یہ شاندار ناول لکھا تھا۔ اس معروف ناول’’Never Let Me Go‘‘ کے عنوان کا ترجمہ کیا جائے تو’’مجھے کبھی جانے مت دینا‘‘ جیسا معنوی تاثر قائم ہوتا ہے، جس کی زیریں تہہ میں انسانی نفسیات کے مخفی گوشوں کو بیان کیا گیا ہے۔ دوسرے معنوں میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے، یہ کہانی طبیعات میں آنے والے ایک انقلاب کی راوی بھی ہے۔
اداس محبت کے تکونی محور پر لکھا گیا یہ ایسا ناول ہے، جس کو ناول نگار نے’’اینٹی یوٹوپیا‘‘ اصطلاح کے مطابق لکھا ہے۔ ٹائم میگزین نے اس کو ایک صدی کے بہترین انگریزی ناولوں میں شمار کیا۔ یہ ایسے کرداروں کی کی کہانی ہے، جن کو مستقبل میں اپنے اعضا عطیہ کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ اس کہانی کی مرکزی کردار ’’کیتھی‘‘ ہے، جس کے ذہن میں زمانۂ طالب علمی کی وہ تربیتی اور جذباتی یادیں نقش ہیں، جن دنوں وہ اپنے تعلیمی ادارے کے ہاسٹل میں رہائش پذیر تھی۔
وہاں طلبا کو انسانی زندگی کے مختلف پہلوئوں سے روشناس کروایا جاتا، ساتھ ساتھ تعلیمی اور اخلاقی تربیت بھی دی جاتی، وہیں پر طلبا کو آرٹ کی تعلیم سے بھی آراستہ کیا جاتا تھا۔ مصنف نے اس فنی پلاٹ پر فن و فنکار، ان دونوں کے مزاج کی آمیزش سے کہانی میں انسانی جذبات کی قوس و قزاح کو رقم کیا اور ہجر و وصال کے متوازن تذکرے سے کہانی میں لطیف رنگ بھر دیے۔ ناول میں مختلف انسانی احساسات کے رنگوں کی عکاسی کی گئی ہے۔
مرکزی کردار سے جڑے ہوئے دیگر دو کردار بھی کہانی کے تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ حقیقی دنیا سے دور بسنے والے کردار کس طرح خیالی دنیا سے باہر آتے ہیں، نت نئے احساسات سے متعارف ہوتے ہیں، یہ تانا بانا کہانی کے اسی حسن میں شاندار اضافہ کرتا ہے۔ تقریباً دس مرکزی و ذیلی کرداروں پر مبنی یہ ناول محبت، اداسی اور درد کے رنگوں سے لبریز ہے، موسیقی اور رقص کے دریچے بھی کہانی میں جا بجا کھلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں، اس کہانی کی نیم خاموشی اپنے اندر کاہنگامہ یوں بیان کرتی ہے کہ بقول غالب’’یا رب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے، لوحِ جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں‘‘ کا گماں ہوتا ہے۔
اس شاہکار ناول کے خالق’’کازواو اِشیگورو‘‘ ہیں۔ وہ نومبر 1954 کو’’کازواو اِشیگورو‘‘ جاپان کے شہر’’ناگاساکی‘‘ میں پیدا ہوئے۔ ان کی عمر صرف 5 سال تھی، جب والدین نے ہجرت کی اور جاپان سے برطانیہ آبسے۔ اس دوران یہ صرف ایک مرتبہ 70 کی دہائی میں جاپان گئے۔ ان کے ذہن میں جاپان سے متعلق ذاتی زندگی کی یادیں بہت دھندلی ہیں، یہی وجہ ہے، تمام عمر ایک تصوراتی جاپان سے جڑے رہے، کیونکہ جاپان ان کا آبائی وطن تھا، لندن میں رہتے ہوئے بھی، انہوں نے ایک ایسے گھر میں تربیت حاصل کی، جہاں مکمل طور پر جاپانی تہذیب وتمدن کا دور دورہ تھا ، جاپانی زبان بولی جاتی اور جاپانی ثقافت کے اصولوں کی پابندی کی تربیت دی جاتی تھی۔
ان کی اکثر کہانیوں میں اس تصوراتی جاپان کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ’’کازواو اِشیگورو‘‘ نے ابتدائی تعلیم جاپان میں حاصل کی، لندن میں سکونت پذیر ہونے کے بعد، اسکول، کالج اور مختلف جامعات میں اعلیٰ تعلیم پائی، جن میں یونیورسٹی آف کینٹ اور یونیورسٹی آف ایسٹ اینجلیا بھی شامل ہیں۔ 1980 میں اپنا تعلیمی سفر مکمل کیا، بالخصوص انگریزی زبان اور فلسفے کے مضامین پڑھے اور کریٹیورائٹنگ میں ماسٹرز کیا۔ اپنے ماسٹرز کے تھیسیز ہی کو بہتر کرکے ناول کی شکل دی، یوں’’اے پیل ویو آف ہیلز‘‘ کے عنوان سے 1982 میں، ان کا یہ پہلا اول شایع ہوا۔ وہ اب تک متعددناول اور اسکرین پلیز لکھ چکے ہیں، جبکہ ان کا آخری ناول 2015 میں اس ناول کے ٹھیک دس برس بعد شایع ہوا ہے۔
ان کی کتابوں کے تراجم، دنیا کی تقریباً 40 زبانوں میں ہو چکے ہیں، جن میں فرانسیسی، ہسپانوی، سویڈش، جرمن، جاپانی اور دیگر زبانیں شامل ہیں، جبکہ اردو میں ان کی کچھ منتخب کہانیوں کے تراجم’’فسانۂ عالم‘‘ کے عنوان سے عالمی کہانیوں کے انتخاب میں شامل ہیں، جنہیں نجم الدین احمد نے ترجمہ کیا ہے اورعکس پبلی کیشنز نے یہ انتخاب شایع کیا ہے۔
’’کازواو اِشیگورو‘‘ انگریزی ادبی منظر نامے سے تعلق رکھنے کے باوجود ایسے مصنف ثابت ہوئے، جنہوں نے اپنے طور پر دنیا کو دیکھا اور اپنے محسوسات کو بیان کیا، ان کے تخلیق کیے ہوئے ادب میں جاپانی ثقافت کی جھلک بھی نمایاں ہوتی ہے، پھر ان کے ناولوں کا پلاٹ تاریخ کے واقعات پر مبنی ہوتا ہے، اس لیے کہا جاسکتا ہے، وہ ایک ایسے ناول نگار ہیں، جو تاریخ کی راہدریوں میں چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔
کہیں کہیں ان کی ذاتی زندگی بھی اس ادب میں چھلکتی ہے۔ ان کے تخلیق کیے ہوئے ادب پر جاپانی ادبیات کا اثر کم ہے، البتہ وہ فیودر دوستووسکی اور مارسل پروست سے متاثر رہے ہیں۔ سویڈش اکادمی کی طرف سے جب ان کے تخلیقی انداز کے بارے میں بات کی گئی توانہیں’’جین آسٹن اور فرانز کافکا کا امتزاج بھی‘‘ کہا گیا۔ ویسے بھی انگریزی ادبی حلقوں میں ان کا موازنہ سلمان رشدی، ہنری جیمز اور جین آسٹن سے کیا جاتا ہے، مگر یہ اس طرح کی موازنے کو تسلیم نہیں کرتے، البتہ خود ایسے اور کئی بڑے کلاسیکی ناموں سے متاثر ضرور رہے ہیں ۔
2017 میں نوبیل ادبی انعام حاصل کرنے کے بعد، دنیا بھر میں ان کی شہرت اور مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ جاپان کے وزیراعظم’’شنزوآبے‘‘ سمیت ناگا ساکی شہر کے میئراور شہر کے دیگرلوگوںنے ان کے لیے نیک تمنائوں کا اظہار کیا۔ اہل ناگاساکی نے ان کو’’ناگاساکی کا عظیم بیٹا‘‘ کے عنوان سے یاد کیا۔ لندن میں ان کے ایک 40 سال پرانے دوست اور ان کی کتابوں کے ایڈیٹر’’رابرٹ میکرم‘‘ نے انہیں ’’بغیر انا کا فنکار‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ عمدہ ناول نگار ہونے کے ساتھ ساتھ’’کازواو اِشیگورو‘‘ ایک اچھے گیت نگار بھی ہیں، انہوں نے شارٹ فکشن بھی لکھا اور اسکرین پلے بھی لکھتے ہیں، مگر بنیادی شہرت ناول نگار کے طور پر ہی ہے۔
ان کے دو ناولوں پر فلمیں بھی بنائی گئیں، پہلی فلم’’دی ریمینز آف دی ڈے‘‘ تھی جبکہ دوسری’’نیورلیٹ می گو‘‘ہے، جو ہماری تحریر کا موضوع بھی ہے۔ 2010 میں ریلیز ہونے والی اس فلم کے امریکی ہدایت کار’’مارک رومانک‘‘ ہیں، جبکہ اسکرین پلے ’’ایلکس گرینڈ‘‘ نے لکھا۔ کیری مولیگن اور کیرا نائٹلی جیسی اداکارائوںسمیت ایک بڑی اسٹارکاسٹ نے فلم بینوں کے دل جیت لیے تھے۔ موسیقار’’ریچل پورٹ مین‘‘نے کہانی میں دلکش موسیقی کا تڑکا لگا کر دیکھنے والوں کے لیے اسے مزید پرکشش بنا دیا، ہرچند کہ باکس آفس پر اسے کتاب کی طرح متوقع کامیابی تونہ مل سکی، اس کے باوجود عالمی ادب کا ذوق رکھنے والوں کے لیے یہ فلم ایک توشہ خاص تھی۔
اس بات کا اندازہ یوں بھی کرسکتے ہیں، فلم میں’’کیتھی‘‘ کا مرکزی کردار نبھانے والی اداکارہ ’’کیری مولیگن‘‘ خود اس ناول کو بطور قاری پسند کرتی تھی، اس لیے جب انہیں یہ کردار نبھانے کی پیشکش ہوئی، تو انہوں نے بطور ایک مداح فوری طورپر اسے کرنے کی حامی بھر لی، پھر فلم میں جاندار اداکاری سے ثابت بھی کر دیا، وہ ایک اچھی اداکارہ اور سچی مداح بھی ہے۔
اس فلم کے اسکرین پلے نویس’’ایلکس گرینڈ‘‘ نے جب اس ناول کو پہلی بار پڑھا، تو اس کو ختم کرنے سے پہلے ہی وہ ناول نگار سے اس کے حقوق مانگ چکے تھے تاکہ اسکرین پلے لکھ سکیں۔ 2016 کو جاپان میں اس ناول کو ڈرامائی شکل دے کر ٹیلی وژن پر نشر کیا گیا۔ جدید عالمی ادب کے قارئین اور فلم بین، دونوں کے لیے یہ کہانی یکساں طور پر متاثرکن ہے، یہی وجہ ہے، اس کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی اور آج بھی اس ناول کو پڑھا جاتا ہے ۔