• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سی پیک پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا منصوبہ ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے سے صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ اس سے خطے کے تمام ممالک میں خوشحالی آئے گی۔ کچھ بیرونی قوتیں پاک چین دوستی سے خائف ہوکر منفی پروپیگنڈا کر رہی ہیں۔ اگر سی پیک منصوبے کو بر وقت مکمل کر لیا گیا تو اس سے پاکستان کی معاشی صورتحال پر مثبت اثرات پڑیں گے۔ سی پیک کی تکمیل سے ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوگا اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ بھارت سی پیک کے حوالے سے کھلم کھلا دھمکیاں دے رہا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ پاکستان معاشی طور پر خود کفیل ہو۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ وہ ملکی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے قومی جذبات کی ترجمانی کرے اور دشمنوں کے تمام ایجنڈوں کو ناکام بناتے ہوئے سی پیک منصوبے کی تکمیل کرکے پاکستان اور عوام کی زندگیوں میں خوشحالی لائے۔ دوست ممالک کو بھی اس منصوبے میں شامل کیا جائے۔ اسی تناظر میں پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹس (پی ایف سی) نے گزشتہ دنوں لاہور سے تعلق رکھنے والے کالم نگاروں اور اینکر پرسن کو بلوچستان کے دور دراز علاقے تربت اور گوادر کا دورہ کروایا۔ مجھے بھی اس دورے کی دعوت دی گئی تھی۔ پی ایف سی کالم نگاروں کی ملک گیر تنظیم ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں پی ایف سی نے پاکستان بھر کے صحافتی حلقوں میں اپنا بھرپور اور فعال کردار ادا کیا ہے۔ بلوچستان کے دورے سے قبل یہ تنظیم کالم نگاروں، اینکروں اور سینئر صحافیوں کو چین، دبئی سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں کا وزٹ کرا چکی ہے۔ اب آئندہ چند دنوں میں دبئی میں انٹرنیشنل بزنس اور میڈیا کانفرنس میں بھی شرکت کے لیے زور و شور سے تیاریاں جاری ہیں۔ ہمیں تربت، گوادر اور کوئٹہ کے دورے میں بلوچستان کے حالات کو جاننے کا بخوبی موقع ملا۔ میرے ساتھ اس دورے میں دیگر کالم نگار عرفان اطہر قاضی، اسد اللہ خان، ملک سلمان اور حسنین چوہدری شریکِ سفر تھے۔ ہمارا پہلا پڑاؤ 12نومبر کو کراچی میں تھا۔ کراچی کے ایک روزہ قیام میں ڈیفنس کلب میں سینئر صحافیوں اور حاضر سروس سول وملٹری بیوروکریسی کے ساتھ عشائیہ میں شرکت کی۔ اس موقع پر شرکاء کے ساتھ کراچی میں امن و امان کی صورتحال اور دیگر امور پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ 13نومبر کی صبح کو پی آئی اے کی فلائٹ میں ہم تربت و گوادر کے دو روزہ دورے کے لیے روانہ ہوگئے۔ تربت میں قیام کا مقصد 14,13نومبر کو وہاں یونیورسٹی آف تربت میں 'Kech Employability Summit 2019'میں شرکت کرنا تھا۔ اس سمٹ کی خصوصی دعوت ڈپٹی کمشنر تربت سکندر ذیشان نے ہمیں دی تھی۔ انہوں نے لاہور سے آنے والے کالم نگاروں کے وفد کی خوب میزبانی کی۔ تربت میں آکر اندازہ ہوا کہ اگر کوئی ڈپٹی کمشنر چاہے تو وہ پورے علاقے کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ تربت یونیورسٹی میں ہونے والی دو روزہ کانفرنس اس بات کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ اس کانفرس میں ضلع تربت کے یونیورسٹی، مختلف اسکول اور کالجوں کے ہزاروں اساتذہ و طلبہ و طالبات شریک ہوئے۔ اس تقریب کی خاص با ت یہ تھی کہ بلوچستان کے نوجوانوں میں زبردست ٹیلنٹ موجود ہے۔ جو ٹیلنٹ ہمیں لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں دکھائی دیتا ہے، وہی مجھے تربت یونیورسٹی میں بھی نظر آیا۔ اس کانفرنس و نمائش میں سوال و جواب کے سیشن میں طلبہ بالخصوص طالبات بہت پُراعتماد دکھائی دے رہی تھیں۔ سائنس میلے میں موجود ماڈل اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘۔ اس پروگرام کی کامیابی کے لیے ڈپٹی کمشنر تربت کی ذاتی دلچسپی اور مخلصانہ کوششوں کا بڑا عمل دخل تھا۔ تربت میں دو روزہ قیام کے دوران وہ آگے بڑھ کر کام کرتے دکھائی دیے۔ تربت یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور دیگر اساتذہ کرام نے بھی ڈی سی تربت کی علم دوست کاوشوں کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ تربت میں کانفرنس سے فراغت کے بعد ڈپٹی کمشنر نے گوادر میں ہمارے وزٹ کا خصوصی اہتمام کیا۔ گوادر رپورٹ پر چینی نمائندے پیٹر ہونے بتایا کہ کہ 2030ء تک گوادر پورٹ اور سی پیک کے منصوبے مکمل ہو جائیں گے۔ اس سے بلوچستان اور پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ گوادر پورٹ مکمل ہو چکی ہے اور وہاں اب بحری جہاز لنگر انداز ہونا شروع ہو گئے ہیں تاہم یہ عمل ابھی سست روی کا شکار ہے۔ اس وقت پورے مکران ڈویژن میں بجلی ایران سے لی جارہی ہے لیکن پاور پلانٹ کی تکمیل کے بعد بجلی کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ اندرونی اور بیرونی سرمایہ کار بھی گوادر میں ترقی کے منصوبوں کی تکمیل کا انتظار کر رہے ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ بہت جلد گوادر ایشیا کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ تربت، گوادر کے وزٹ کے بعد ہم کوئٹہ پہنچے۔ کوئٹہ کلب میں 15نومبر کو ہوم منسٹر بلوچستان ضیاء اللہ لانگو اور دیگر بیورو کریٹس کے ساتھ اہم نشست کا ہمیں موقع ملا۔ یہ جان کر بےحد خوشی ہوئی کہ 2016ء کے بعد بلوچستان کے حالات بڑی حد تک بہتر ہو چکے ہیں اور اس کا کریڈٹ پاک فوج، ایف سی اور بلوچستان لیویز کو جاتا ہے۔ اَن گنت جوانوں کی قربانی کے بعد بلوچستان میں امن آیا ہے۔ کوئٹہ میں لوگوں کی آزادانہ چہل پہل اور زندگی کے آثار دیکھنے سے یہ گمان نہیں ہوتا کہ اس علاقے میں کبھی چلنا پھرنا بہت مشکل تھا۔ تربت، گوادر، کوئٹہ سمیت بلوچستان کا دورہ بڑا یادگار تھا، بالخصوص وہ منظر قابلِ دید تھا کہ جب میں نے تربت یونیورسٹی میں بلوچستان اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگتے دیکھے۔اس دورے میں بلوچستان اور سی پیک کے حوالے سے حقائق جاننے کا بھی موقع ملا۔

تازہ ترین