• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں بیس تا اکیس نومبر ’’تنازع کشمیر، امن کیخلاف ابھرتے ہوئے خطرات اور عالمی برادری کا کردار‘‘ کے زیرِ عنوان بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام لاہور سینٹر فار پیس ریسرچ اور ترک تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ آف اسٹرٹیجک تھنکنگ کے اشتراک سے کیا گیا۔ یہ کانفرنس کشمیر کے بارے میں منعقد ہونے والی کسی بھی کانفرنس کے مقابلے میں اپنی جامعیت، بحث و مباحثے، ورکشاپ اور تجاویز اور نتیجے کے لحاظ سے دیگر تمام کانفرنسوں پر برتری اور امتیازی حیثیت حاصل کیے ہوئے ہے۔ اس کانفرنس میں دنیا کے پچیس سے زائد ممالک کے اعلیٰ پائے کے پچاس سے زیادہ مندوبین، سفارت کاروں، اسکالرز، صحافیوں اور سیاستدانوں کو مدعو کیا گیا جنہوں نے اس کانفرنس میں شرکت کرتے ہوئے نہ صرف اپنے خیالات کا اظہار کیا بلکہ کشمیری عوام پر ہونے والے ظلم و ستم کی بھرپور طریقے سے مذمت کی۔ یہی وجہ ہے کہ جب راقم نے آزاد جموں کشمیر کے صدر سردار مسعود خان سے ترکی ریڈیو اور ٹیلی وژن ٹی آر ٹی کی اردو سروس کے لیے انٹرویو کیا تو انہوں نے برملا کہا کہ ’’میں نے اپنی زندگی میں آج تک کشمیر سے متعلق اتنی بڑی بین الاقوامی کانفرنس نہیں دیکھی۔ اس کانفرنس کے ذریعے پہلی اینٹ رکھ دی گئی ہے اور اب اسے مزید آگے بڑھانا ہے تاکہ تمام ممالک کے تعاون اور اشتراک سے کشمیر کے مسئلے پر قابو پانے کی کوشش کی جاسکے اور مظلوم کشمیریوں کی آزادی کا بندو بست کیا جاسکے‘‘۔ اس کانفرنس کا افتتاح صدر آزاد جموں کشمیر سردار مسعود خان اور ترکی کے نائب صدر فواد اوکتائے نے مشترکہ طور پر کرنا تھا لیکن ترک نائب صدر کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر کانفرنس میں شرکت نہ کر سکے تاہم ترکی کی قومی اسمبلی کے قائم مقام اسپیکر ثریا سعدی بلگیچ، ترکی کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اسماعیل رشدو جیرت، ترک محکمہ مذہبی امور کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر علی ایرباش، برسراقتدار جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے گروپ چیئرمین، نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کے گروپ چیئرمین نے شرکت کر کے ترکی کے کشمیری بھائیوں کی آزادی کی جدو جہد میں ان کے شانہ بشانہ ہونے کا ثبوت فراہم کردیا۔ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے لاہور سینٹر فار پیس ریسرچ کے چیئرمین شمشاد احمد نے کہا کہ ’’کشمیر پر بھارتیوں کا خون ریز فوجی تسلط جاری ہے اور کشمیریوں کی آواز دنیا تک پہنچانے سے روکنے کے لیے بھارت ہر جائز و ناجائز راستہ اپنائے ہوئے ہے‘‘۔ اس موقع پر ترکی کے تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ آف اسٹرٹیجک تھنکنگ کے صدر مہمت سواش قفقا سیالی نےکہا کہ ’’ہم نے ایک ماہ قبل ہی آزاد جموں کشمیر کا دورہ کیا تھا اور ایل او سی پر پہنچ کر اپنی آنکھوں سے صورتِ حال کی کشیدگی کا مشاہدہ کیا۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر پر پچاس روز سے کرفیو لاگو تھا اور آج اس کرفیو کو 108روز بیت چکے ہیں۔ اس کانفرنس کے اہتمام کا مقصد مسئلہ کشمیر کے حل میں مددگار ہونا ہے۔ موجودہ بین الاقوامی نظام کشمیر جیسے مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے اور اب اس بین الاقوامی نظام کو تبدیل کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے لارڈ نذیر احمد نے کہا کہ ’’بھارت ہمیشہ دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے؟ جہاں کشمیریوں کو اپنی رائے دینے کا بھی حق حاصل نہیں اور جب کشمیری عوام اپنی آزادی کی خاطر مظاہرہ کرتے ہیں تو ان پر اور پاکستان پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کا الزام عائد کردیا جاتا ہے۔ اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ 108دن کا کرفیو جس میں پورے لوگ ریاستی مرکزیت سے اذیت کے ساتھ ناقابلِ بیان حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کشمیر دنیا کی سب سے بڑی اوپن ایئر جیل ہے۔

افتتاحی اجلاس کے مہمان خصوصی آزاد جموں کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سنگین انسانی بحران اور بھارت کی بنیاد پرست حکومت کے باعث کشمیر عالمی ریڈار پر آرہا ہے۔ دنیا اس مسئلے کو پہلے ہی فلیش پوائنٹ کے طور پر دیکھ رہی ہے، ایسے میں تمام ذمہ دار حکومتوں کو مسئلہ کشمیر پر امن طریقے سے حل کرانا ہوگا۔ بھارت کے ریاستی مظالم نے مسئلہ کشمیر کو سنگین عالمی مسئلہ بنادیا ہے، مقبوضہ وادی میں قید لاکھوں کشمیری عالمی امن کے لیے خطرے کی وارننگ دے رہے ہیں۔ صدر آزاد کشمیر نے ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کشمیر کے مسئلے کو عالمی فورم پر بلا خوف اور غیر جانبداری سے اٹھایا ہے۔ یہ کانفرنس دو روز جاری رہی پہلے روز افتتاحی اجلاس کے بعد ’’کشمیر کی تاریخ‘‘ کے زیر عنوان سیشن میں موڈریٹر کے طور پر سابق سفیر خالد محمود، پروفیسر ڈاکٹر وکٹوریہ شیفیلڈ، پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار، ایران کے سابق سفیر میر محمد موسوی خمنائی نے اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کیا جبکہ دوسرا سیشن ’’کشمیر کا قانونی پہلو‘‘ کے زیر عنوان تھا جس میں موڈریٹر کے فرائض پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم آئدنلی نے ادا کیے اور اس سیشن میں ڈاکٹر سید نذیر احمد، رنجیت سنگھ، لارا شورمینز، ڈاکٹر لیونڈ سیوین اور سفیر پاکستان محمد سائرس سجاد قاضی نے اپنا اپنا موقف پیش کیا جبکہ تیسرا سیشن ’’کشمیر کا سیاسی پہلو‘‘ تھا جس کے موڈریٹر کے فرائض سی این این کی اینکر پرسن کیمبرلی ڈوزیئر نے ادا کیے اور اس سیشن میں رپرٹ اسٹون، ڈاکٹر عبدالرزاق احمد، ڈاکٹر محمد نجیب، ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر کیرل لیکاشیف اور ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ایرکین اکرم نے حاضرین کو اپنے خیالات سے مستفید کیا۔ چوتھا سیشن ’’کشمیر کا سیکورٹی پہلو‘‘ اگلے روز بیس نومبر کو منعقد ہوا جس کے موڈریٹر کے فرائض ترکی کے سابق سفیر اولوچ اوزلکیر نے ادا کیے اور اس سیشن میں زیادہ تر سابق سینئر فوجی جرنیلوں نے کشمیر کے بارے میں اپنے خیالات اور تجاویز پیش کیں اس کے بعد کشمیر کے بارے میں اسٹرٹیجک ورکشاپ کا بھی اہتمام کیا گیا جو کشمیر کے بارے میں اپنی طرز کی پہلی ورکشاپ تھی جس میں بڑی تعداد میں غیر ملکی مندوبین نے مسئلہ کشمیر کے پیدا ہونے کی وجوہات، اس کے مراحل اور اس کے حل کے بارے میں اپنے خیالات اور تجاویز پیش کیں۔

تازہ ترین