اسلام آباد(نمائندہ جنگ‘ایجنسیاں)عدالت عظمیٰ کی جانب سے آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی دوبارہ تقرری سے متعلق کیس کافیصلہ آج سنائے جانے کا امکان ہے ‘
سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے کیس کی سماعت کے دوران حکومت کو (آج) جمعرات تک کوئی حل نکالنے کی مہلت دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت جنرل قمر جاوید باجوہ کو توسیع دینے کی وجوہ ‘اس پر اپنی قانونی پوزیشن اوراس سلسلے میں اختیار کیاگیاپروسیجر اورپروسس بتائے ‘
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ریٹائرڈ شخص کو کیسے آرمی چیف لگایاجاسکتاہے ‘
تین سال کی مدت کا تعین کیسے کیاگیا‘قانون میں ریٹائر منٹ کی مدت مقرر نہیں ‘
ماضی میں جرنیل توسیع لیتے رہے‘کسی نے نہیں پوچھا ‘اب معاملہ ہمارے پاس آیاہے تو طے کرینگے‘
ہمارے سامنے شخصیات نہیں قانون اہم ہوتاہے‘کابینہ نے ازسرنوتعیناتی کی منظوری دی ‘ و
زیراعظم نے تعیناتی کی سمری بھیجی ‘ نوٹیفکیشن توسیع کاہوگیا‘ایسے تواسسٹنٹ کمشنر کی بھی تقرری نہیں ہوتی ‘
آرمی چیف کو شٹل کاک بنادیا گیا ‘لگتا ہے وزارت قانون نے بڑی محنت سے کیس خراب کیا‘وزارت قانون چاہتی ہے آرمی بغیر کمانڈ کے رہے ‘ہم ایسا نہیں چاہتے ‘کیا کل صدر اور وزیراعظم کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا جائیگا‘
حل نکال لیںبصورت دیگر ہم نے آئین کا حلف اٹھایا ہے اور ہم آئینی ڈیوٹی پوری کریں گے ۔
تفصیلا ت کے مطابق بدھ کوچیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اورجسٹس مظہرعالم میاں خیل پرمشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ،
اس موقع پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا آرمی چیف جنرل قمرباجوہ کی مدت ملازمت 28 نومبر کو رات بارہ بجے ختم ہورہی ہے جبکہ نوٹیفکیشن کے مطابق ان کی مدت ملازمت میں29 نومبر سے توسیع دی جارہی ہے اس حوالے سے عدالت کوبتایا جائے کہ یہ بات کس طرح ممکن ہے کہ ریٹاثرمنٹ کے فورًا بعد ہی ان کو ملازمت میںتین سال توسیع دی جائے جس پراٹارنی جنرل نے بتایاکہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع دینا ایک روایت ہے جو ہمیشہ سے ہوتا آرہا ہے یعنی ریٹائرمنٹ اورتوسیع دونوں چیزین بیک وقت رونماہوں گی،
28نومبر کی رات بارہ بجے وہ ریٹائر ہوں گے اوراسی لمحہ سے دوبارہ بطورآرمی چیف اپنی کمانڈ سنبھا لیں گے یعنی اصل میں وہ ریٹائر ہی نہیں ہوں گے کیونکہ انہوں نے اپنی کمانڈ کسی کے سپرد ہی نہیں کی جس کی وجہ یہ ہے کہ آرمی کوبغیر سربراہ کے نہیں چھوڑا جاسکتا،
اوران کی ریٹائرمنٹ تب ہی موثر ہوسکتی ہے جب وہ اپنی کمانڈ کسی کے سپرد کرتا ہے جس کاایک باقاعدہ طریقہ کار ہے اوراس پر عمل کرناپڑتا ہے،جسٹس منصورعلی شاہ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ پہلے آپ خود اپنے مائنڈ کوواضح کریں اورہمیں بتائیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں،کیونکہ آپ دونوں چیزوں پرپاؤں رکھ رہے ہیں،ایک جانب آپ کے مطابق وہ ریٹائر ہورہے ہیں دوسری جانب کہتے ہیں کہ وہ ریٹائر ہی نہیں ہوئے ،
اورتوسیع بھی لے لی، ہمیں بتایا جائے کہ کیا ریٹائر افسر کوبھی آرمی چیف لگایا جاسکتاہے تواٹارنی جنرل نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ ایسا ہوتا ہو لیکن اب تک اس کی کوئی مثال سامنے نہیں آئی ہے،
فاضل جج کا کہنا تھاکہ جب ایک افسر بطور آرمی چیف ریٹائر ہوجاتاہے تواس کاآرمی سے تعلق ختم اوروہ ریٹائر افسر بن جاتا ہے ایسی صورت اگراس کی دوبارہ بطورآرمی چیف تقرری ہوگی تو وہ مدت ملازمت میں توسیع نہیں بلکہ دوبارہ تقرری ہوگی ، اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں عدالت کویہی سمجھا نے کی کوشش کررہا ہوں کہ کہ اس کیس میںدر اصل ریٹائر ہونے کی نوبت ہی نہیں آئی ،آرمی چیف ریٹائر ہوئے بغیر دوبارہ آرمی چیف کی ذمہ داریاں سنبھا لیں گے،یہ کام ماضی سے چلا آرہا ہے ،
اور ایک روایت ہے ۔جسٹس منصور علی شاہ نے ان سے کہا کہ سوال یہ ہے کہ جب آرمی چیف 29 نومبر کوایک ریٹائر افسر ہوں گے تو پھرکس طرح انہیں آرمی چیف مقرر کیا جاسکتاہے قانون کے تحت ان کی مدت ملازمت میں توسیع توہوسکتی ہے لیکن ریٹائر ہونے کے بعد نہیں بلکہ وہ دوبارہ تقرری کہلائے گی، جس پراٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ اس وقت تک ریٹائر نہیں ہوں گے جب تک اپنی کمانڈ کسی کے حوالے نہ کر دیں، وہ 29 سے ریٹائر اوراسی روز سے دوبارہ آرمی چیف کے طورپرتعینات ہوں گے اور ان کے نوٹیفکیشن میںٹرمینیشن کالفظ شامل نہیں،کیونکہ آرمی کوبغیرسربراہ کے نہیں چھوڑا جاسکتا،یہ کمانڈ کاتسلسل ہے،
فاضل جج نے ان سے کہاکہ اگر آرمی چیف ریٹائر نہیں ہورہا اوران کی توسیع کامعاملہ سامنے نہیں توہم سب یہاں کیوں موجود ہیں ، دوسری جانب جب آپ کوتوسیع دینے کا آئینی اختیارحاصل ہے توپھرروایات کی بات کیوں ہو،
آ پ واضح کردیں کہ دوبارہ تقرری کی جارہی ہے جبکہ چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ آپ کے مطابق قانون میں مدت کی وضاحت نہیں لیکن اب 29 نومبر سے تین سال کی توسیع کاآغازہورہا ہے اوریہاں ریٹائرمنٹ اورتوسیع دونوں چیزیں ساتھ سا تھ ملائی جارہی ہیں جودرست نہیں،
اب بھی آپ کے پاس وقت ہے کہ اس معاملے میں درستگی کرلی جائے یہاں ایک باعزت آدمی کومصیبت میں ڈال دیا گیا، وزیراعظم نے دوبارہ تقرری کی سفارش کی اورآرٹیکل 243 کے تحت سمری بھی دوبارہ تقرری کی بات کی گئی لیکن نوٹیفکیشن میں توسیع کرنے کاکہا گیا ہے ہمارے پاس آئی تینوں ڈاکومنٹس میں جواستدعا کی گئی ہے وہ بھی مختلف ہے ،
اس طرح تو نہیں ہونا چاہیے یہ تومعمول کے کام ہیں کوئی نئی چیز نہیں، کہ اس طرح کی غلطیاں ہوں،
جن لوگوں نے یہ سمری بنائی ہیں ان کی ڈگریاں چیک کی جائیں،آئینی دفاتر میں ایسا نہیں ہوتا کل تک معاملہ درست کیاجائے ، کیونکہ ہم کسی کوتنگ نہیں کرناچاہتے لیکن اگرکوئی چیزغلط اورغیرقانونی ہے توہم اللہ کوجوابدہ ہیں ، پراسس صحیح ہونا چاہیے ورنہ کل کے بعد وقت ختم ہوجائے گااورپھرہمیں فیصلہ دیناپڑے گا۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل انورمنصور خان سے پوچھا کہ یہ بات طے ہے کہ گزشتہ روز جن خامیوں کی نشاندہی کی گئی تھی ان کو تسلیم کیا گیا، خامیاں تسلیم کرنے کے بعد ان کی تصحیح کی گئی تھی، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان خامیوں کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر خامیاں تسلیم نہیں کی گئیں تو تصحیح کیوں کی گئی؟ ۔
اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ توسیع کے حوالے سے قانون نہ ہونے کا تاثر غلط ہے، یہ تاثر بھی غلط ہے کہ صرف11ارکان نے ہاں میں جواب دیا تھا جس پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پوچھا کہ اگر باقیوں نے ہاں میں جواب دیا تھا تو کتنے وقت میں دیا تھا یہ بتا دیں؟۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرٹیکل 243 مراعات و دیگر معاملات سے متعلق ہے، کیا تعیناتی کی مدت کی بات کی گئی ہے‘ کیا آرمی چیف حاضر سروس افسر بن سکتا ہے یا ریٹائر جنرل بھی، اس معاملے میں قواعد کو دیکھنا ضروری ہے۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ آئین و قانون کی کس شق کے تحت قواعد تبدیل کیے گئے،
آرٹیکل 255 ان لوگوں کیلئے ہے، جو سروس سے نکالے جاچکے یا ریٹائر ہوچکے ہیں۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کا انتہائی اہم معاملہ ہے‘ماضی میں 5 یا 6 جنرلز خود کو توسیع دیتے رہے ہیں‘یہ معاملہ اب واضح ہونا چاہیے۔جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ آرمی چیف کی مدت 3 سال کہاں مقرر کی گئی ہے؟، کیا آرمی چیف 3 سال بعد گھر چلا جاتا ہے۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ لیفٹیننٹ جنرل 57 سال کی عمر میں 4 سال کی مدت مکمل کر کے ریٹائر ہوتے ہیں،اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ لیفٹیننٹ جنرل کے علاوہ کہیں بھی مدت کا تعین نہیں کیا گیا،
بعض لیفٹیننٹ جنرلز کو تعیناتی کے بعد 4 سال کی مدت نہیں ملتی جبکہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کی مدت کا ذکر ہی نہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ اگر ریٹائرمنٹ سے دو دن قبل آرمی چیف کی توسیع ہوتی ہے تو کیا وہ جاری رہے گی۔انور منصور نے عدالت کو بتایا کہ آرمی چیف پبلک سرونٹ نہیں ہیں، ان کی تعیناتی پبلک سرونٹ کرتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس آرٹیکل میں حالات کے تحت اگر ریٹائرمنٹ نہ دی جاسکے تو 2 ماہ کی توسیع دی جاسکتی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایک بندہ اپنی ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ چکا ہے تو اس کی ریٹائرمنٹ کو معطل کیا جاسکتا ہے، اگر جنگ ہورہی ہو تو پھر آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ میں عارضی تاخیر کی جاسکتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ریٹائرمنٹ کی حد کا کوئی تعین نہیں، اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ ان کی ریٹائرمنٹ نہیں ہوسکتی‘یہ تو بہت عجیب بات ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 255 جس پر آپ انحصار کررہے ہیں وہ تو صرف افسران کیلئے ہے،
جس میں آپ نے ترمیم کی وہ تو آرمی چیف سے متعلق ہے ہی نہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا ریٹائرڈ جنرل کو آرمی چیف تعینات کیا جا سکتا ہے۔عدالتی سوال پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ شاید ریٹائر جنرل بھی بن سکتا ہو لیکن آج تک ایسی کوئی مثال نہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ پہلا سوال یہ ہے کہ آرمی چیف کی مدت تعیناتی کیا ہوگی؟ آرمی چیف کی مدت تعیناتی پر آئین خاموش ہے، دوبارہ آرمی چیف کی تعیناتی کس قانون کے تحت ہوگی،
کیا ریٹائرمنٹ کے بعد ریٹائرڈ جنرل کو دوبارہ آرمی چیف بنایا جا سکتا ہے؟جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرمی چیف کی تعیناتی وزیراعظم کی صوابدید ہے، اصل مسئلہ آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کا ہے، اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرمی چیف کی تعیناتی آرٹیکل 243 کے تحت ہوتی ہے،
مدت مقرر نہ ہو تو کیا آرمی چیف تاحیات عہدے پر رہیں گے، 1947سے تعیناتی کی یہی روایت رہی ہے، عوام کو آگاہ کروں گا تعیناتی کی مدت کا تعین کیسے ہوتا ہے؟۔