• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

اسلام آباد ہائیکورٹ، حکومتی درخواست منظور، خصوصی عدالت کو مشرف کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا

اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو آج پرویز مشرف کیخلاف غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روکدیا


اسلام آباد (رپورٹ: عاصم جاوید) اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو آج پرویز مشرف کیخلاف غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روکدیا ہے۔

عدالت نے وزارت داخلہ کی درخواست منظور کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو 5 دسمبر تک سنگین غداری کیس میں نیا پراسیکیوٹر یا پراسیکیوشن ٹیم تعینات کرنے کا حکم دیا ہے اور خصوصی عدالت کو شفاف اور منصفانہ ٹرائل کے تقاضے پورے کرتے ہوئے تمام فریقین کو جلد سنکر فیصلہ سنانے کی ہدایت کی ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللّٰه‎ نے کہا کہ ایک شخص نے عدلیہ پر وار کیا تھا وہ اشتہاری بھی ہے، اکتوبر 1999 کے اقدامات بھی غیر آئینی قرار پا چکے، اس سب کے باوجودہم نے منصفانہ ٹرائل کرنا ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپکو اتنے سال بعد معلوم ہوا وفاقی حکومت کی شکایت درست نہیں، اگر ایسا ہے تو اپنی شکایت ہی واپس لے لیں۔ عدالت عالیہ اسلام آباد کے تین رکنی لارجر بنچ نے پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر کی درخواست نمٹاتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وہ چاہیں تو ملزم پرویز مشرف کیلئے مقرر کئے گئے سرکاری وکیل کی معاونت کر سکتے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے مختصر فیصلے میں خصوصی عدالت کو جنرل (ر) پرویز مشرف کی بریت کی درخواست کا بھی قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائیگا۔ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کیخلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کرنیوالی خصوصی عدالت نے آج 28 نومبر کو فیصلہ سنانا تھا۔

وزارت داخلہ اور پرویز مشرف کے وکیل نے خصوصی عدالت کا فیصلہ روکنے کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کیں جن کی سماعت بدھ کو چیف جسٹس اطہر من اللّٰه‎ کی سربراہی میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل تین رکنی لارجر بنچ نے کی۔

سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر کو روسٹرم پر کھڑے ہونے کے بجائے نشست پر تشریف رکھنے کی ہدایت کی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ پہلے وزارت داخلہ کی درخواست سنیں گے۔

جسٹس عامر فاروق نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی سے استفسار کیا کہ کیا آپ تمام ریکارڈ ساتھ لائے ہیں؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے سنگین غداری کیس کے ٹرائل کیلئے خصوصی عدالت کی تشکیل کا ریکارڈ عدالت میں پیش کر دیا۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ سیکرٹری قانون کو تمام اصل ریکارڈ کے ساتھ طلب کیا تھا۔

فوٹو کاپیاں پیش نہ کریں، اصل ریکارڈ لیکر آئیں۔ عدالتی حکم کے باوجود سیکرٹری قانون کے پیش نہ ہونے پر عدالت نے برہمی کا اظہار بھی کیا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وزارت قانون کے ڈپٹی سالیسٹر کو کہا کہ کمرہ عدالت سے باہر جا کر سیکرٹری قانون کو آدھے گھنٹے میں عدالت پہنچنے کے حکم سے آگاہ کریں۔

چیف جسٹس اطہر من اللّٰه‎ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ پٹیشنر ہیں فریق نہیں، کیا خصوصی عدالت کی تشکیل کا نوٹیفکیشن گزٹ میں پبلش ہوا؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے کہا کہ اس بارے ابھی کنفرمیشن نہیں ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ تمام نوٹیفکیشن جو خصوصی عدالت کی تشکیل کے دوران جاری ہوتے رہے انکا بتائیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی مشاورت سے خصوصی عدالت کے ججز کی تقرری ہوتی رہی۔ چیف جسٹس اطہر من اللّٰه‎ نے کہا کہ اکتوبر 1999 کے اقدامات کو بھی غیر آئینی قرار دیا گیا،

آپ اس حوالے سے الگ شکایت داخل کیوں نہیں کرتے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے کہا کہ اس حوالے سے ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ یہ غیر معمولی حالات ہیں ، 3 نومبر کی ایمرجنسی کا ٹارگٹ عدلیہ تھی۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ایک طرف آپ کہہ رہے ہیں کہ ٹرائل کیلئے خصوصی عدالت کی تشکیل درست نہیں تھی ، اب آپ دلائل سے بتا رہے ہیں کہ ایسا نہیں ہے، پھر آپ کی درخواست ہی درست نہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جسٹس وقار سیٹھ ، جسٹس نذیر اکبر ، جسٹس شاہد کریم پر مشتمل خصوصی عدالت 4 اکتوبر 2019 کو تشکیل ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ وزارت قانون کے نمائندے فائل لیکر باہر چلے گئے ہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آپ کو اتنے سالوں کے بعد اب معلوم ہوا کہ وفاقی حکومت کی داخل کردہ شکایت درست نہیں ، اگر ایسا ہے تو آپ اپنی شکایت ہی واپس لے لیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ جائیں جا کر بیان دیں ہم مشرف کیخلاف درخواست واپس لے رہے ہیں، عدالت میں کیوں آئے ہیں ، اگر آپ نے تب غلطی کی تھی تو اب اسے ٹھیک کیسے کرائیں گے؟

آپ آج یہ کیس وفاقی کابینہ کی اجازت سے یہاں لے کر آئے ہیں؟ اگر آپ اپنی غلطی تسلیم کر رہے ہیں تو یہی بات متعلقہ ٹریبونل کو جا کر بتائیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے کہا کہ یہ شکایت سیکرٹری داخلہ کی جانب سے داخل کرائی گئی تھی۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ بتا دیں کہ اب ہم نے کیا کرنا ہے؟ آپ ہم سے کیا آرڈر چاہتے ہیں؟ چیف جسٹس اطہر من اللّٰه‎ نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ غداری کیس چلانے کی درخواست بھی غلط تھی اور ٹرائل کا فورم بھی ، آپ کی غلطیاں ہم ہی ٹھیک کریں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آپ یوں کہیں کہ پرویز مشرف کے خلاف کیس نہیں چلانا چاہتے، کیا آج وفاقی حکومت پرویز مشرف کیخلاف ٹرائل نہیں کرنا چاہتی؟ اگر کوئی غلطی ہوئی ہے تو آپ نئی شکایت داخل کر کے غلطی درست کر دیتے۔

چیف جسٹس اطہر من اللّٰه‎ نے کہا کہ یہ کون سی پٹیشن ہے کہ وہ آ کر کہہ رہا ہے میں نے جو کچھ کیا وہ غلط ہے۔ چیف جسٹس کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہماری استدعا ہے کہ خصوصی عدالت پرویز مشرف کیخلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ نہ سنائے۔

اس پر چیف جسٹس اطہر من اللّٰه‎ نے ریمارکس دئیے کہ یہ ہمارے لئے مشکل ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ بات مضحکہ خیز بھی ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ پراسیکیوشن ٹیم کے سربراہ کے مستعفی ہونے کے بعد وفاقی حکومت نے کوئی نئی تقرری نہیں کی؟ ایک سال سے پراسیکیوشن ٹیم کے سربراہ کی تقرری نہیں کی گئی۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اس کا تو یہی مطلب ہے کہ آپ پرویز مشرف کے خلاف کیس چلانا ہی نہیں چاہتے۔ چیف جسٹس اطہر من اللّٰه‎ نے ریمارکس دئیے کہ ایک شخص جس نے عدلیہ پر وار کیا تھا ہمارے سامنے اس کا کیس ہے ، وہ شخص اشتہاری بھی ہو چکا ہوا ہے ، ہم نے اس کے منصفانہ ٹرائل کے تقاضے بھی پورے کرنے ہیں ۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اس وزارت قانون کی کوئی ضرورت ہے کہ وہ جو نوٹیفکیشن بھی کرتے ہیں وہ غلط ہوتا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ 4 دسمبر کو پراسیکیوشن ٹیم کے سربراہ کو نوٹیفائی کیا گیا ، 30 جولائی 2018 کو پراسیکیوشن کے سربراہ نے استعفیٰ دیا ، ٹیم کو 23 اکتوبر 2019 کو ڈی نوٹیفائی کیا گیا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیس کی سماعت کب تھی۔ ایڈیشنل اٹارانی جنرل نے کہا کہ کیس کی سماعت 24 اکتوبر 2019 کو تھی۔ جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ ایک سال سے آپ نے استغاثہ ٹیم کا سربراہ کیوں تعینات نہیں کیا ، ہیڈ آف پراسیکیوشن کو کس نے تعینات کرنا تھا، جوڈیشری یا ایگزیکٹو نے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایگزیکٹو نے تعیناتی کرنی تھی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ایسی حکومت کے وزرات قانون انصاف کے سیکرٹری کے آنے کی کوئی ضرورت ہے؟ لاءمنسٹری جو نوٹیفکیشن جاری کرتی ہے وہ غلط ہوتا ہے اور سزا ساری قوم کو بھگتنا پڑتی ہے۔ اسی اثناءمیں سیکرٹری قانون عدالت میں پیش ہو گئے۔

چیف جسٹس اطہر من اللّٰه‎ نے کہا کہ وزارت قانون کا حال یہ ہے کہ وہ ہمیں بتا رہی ہے کہ انہوں نے اتنے اہم کیس میں یہ سب کیا ہے۔ سیکرٹری قانون نے کہا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل کابینہ سے منظوری کے بعد ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر خصوصی عدالت قانون کے مطابق بنی تو پھر آپ نے درخواست میں کیوں غلط لکھا؟

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ نے غلطی کی اور آپ ہی ٹھیک کریں گے تو ہم کیا کریں؟ جسٹس طاہرہ صفدر کی جگہ جسٹس وقار سیٹھ کی تقرری کی منظوری دکھائیں ،

آپ تاخیر سے عدالت کیوں آئے؟ سیکرٹری قانون نے عدالت کے طلب کردہ نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کئے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اسکا مطلب ہے کہ پھر خصوصی عدالت کی تشکیل درست ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پراسیکیوشن ٹیم کے ڈی نوٹیفائی ہونے کے بعد خصوصی عدالت میں دلائل غیر قانونی تھے۔ خصوصی عدالت نے پراسیکیوشن ٹیم کے تقرر کا موقع ہی نہیں دیا۔ جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا وزارت قانون یا اٹارنی جنرل نے کہیں ایڈوائس کیا کہ یہ شکایت غلط تھی؟

آپ نے خصوصی عدالت کو یہ ساری باتیں بتائی ہی نہیں، اب جب فیصلہ آنے والا ہے تو آپ یہاں آ گئے ہیں۔ سماعت کے دوران توفیق آصف ایڈووکیٹ نے بولنے کی اجازت طلب کی تو عدالت نے انہیں بولنے سے روکدیا اور کہا کہ تمام غیر متعلقہ لوگ بیٹھ جائیں۔

توفیق آصف ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں غیر متعلقہ نہیں ہوں، میں کچھ کہنا چاہتا ہوں ، سپریم کورٹ میں غداری کیس میں پٹیشنر تھا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کو تو آئین سے اصل انحراف کی شکایت داخل کرانی چاہئے تھی ، تین نومبر کی ایمرجنسی تو ججز کے خلاف تھی ، ہمیں آپ نے مشکل صورتحال میں ڈال دیا ہے۔

اس موقع پر جنرل (ر) پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ یہ آپ کیلئے ٹیسٹ کیس ہے، میں نے پرویز مشرف کی طرف سے درخواست نہیں دی ، جب کوئی ملزم اشتہاری ہو جائے تو اس کی طرف سے کوئی وکالت نامہ داخل نہیں کرایا جا سکتا ، عدالت نے ملزم پرویز مشرف کیلئے وکیل مقرر کیا جو عمرے پر گئے تو انہیں بھی نہیں سنا گیا ،

اگر اشتہاری کو کوئی دوسرا وکیل دیا جا رہا ہے تو مجھے پیش ہونے کی اجازت کیوں نہیں دی جا رہی۔ انہوں نے کہا کہ 9 اکتوبر 2018 کو وکالت نامہ داخل کیا ، اس وقت پرویز مشرف مفرور تھے ،12 جون 2019 کو مجھے پرویز مشرف کی طرف سے پیش ہونے سے روکدیا گیا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے بیرسٹر سلمان صفدر کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ کا تو سارا کیس ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے پیش کر دیا ہے۔ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے کہا کہ میں نے مشرف کا کیس نہیں اپنا کیس پیش کیا ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کیا خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو وڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کرانے کی آپشن دی؟

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ جی عدالت نے آپشن دی مگر انہوں نے اسے قبول نہیں کیا۔ پرویز مشرف بیمار اور اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اسکائپ پر بیان ریکارڈ کرا سکیں۔

انہوں نے کہا کہ جب ملزم کی مرضی کے وکیل کو نہیں سنا جا رہا تو فیئر ٹرائل تو وہیں پر کمپرومائز ہو گیا، میرا کیس یہ ہے کہ مجھے کیوں نکالا ہے؟ بیرسٹر سلمان صفدر کے جملے پر کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔

تازہ ترین