دنیا کی تاریخ میں طاقتور قوموں، ریاستوں یا ممالک کی خارجہ پالیسیوں نے اپنی اپنی طاقت اور اثرورسوخ کے مطابق دوسروں کے اندرونی معاملات اور خارجہ پالیسیوں پر اثر چھوڑا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دو طاقتوں نے دنیا کو اپنے اپنے انداز میں تبدیل کیا، اپنے اتحادیوں کی اندرونی اور خارجی پالیسیوں کو اپنے مفادات کے مطابق ڈھالا۔ جس
طاقت کو جو پسند آیا یا جس نظام سے فائدہ پہنچا وہی اس قوم کو ان کے مسائل کا بہترین حل بنا کر پیش کر دیا گیا۔ ایک ہی وقت میں سوشلزم، آمرانہ نظام اور جمہوریت کو قوموں کے لئے بہتر نظام بتایا گیا۔ سقوط ماسکو نے دنیا کو صرف ایک سپر پاور بخشی، جس نے پوری دنیا میں کمزور قوموں کو اپنے شکنجے میں اس طرح کس لیا کہ اسے جمہوریت
یا آمرانہ حکومتیں جتنی دیر پسند آئیں چلتی رہیں وگرنہ مسائل کے حل کے لئے نیا نظام، نئے حکمران لازم و ملزوم ٹھہرے۔ ان پالیسیوں کے لئے زیادہ تر تجربہ گاہیں مسلم ممالک فراہم کرتے رہے۔ سوشلزم کے کمزور ہونے کے بعد جب کارپوریٹ امریکہ کو اپنی صنعتیں چلانے اور اپنی قوم کو نیا دشمن دینا مقصود تھا تو پہلے طالبان، پھر القاعدہ اور
پھر پتہ نہیں کیا کیا نام سامنے آنے لگے۔ اسی عرصہ میں مسلم ممالک کہیں آمرانہ نظام کے تحت چلتے رہے،کہیں بادشاہتوں کے زیر اثر تو کہیں ایسی لولی لنگڑی جمہوریت کے زیر سایہ پلتے رہے جو کسی بھی وقت تبدیل ہو سکے۔ پچھلی ایک دہائی کو دیکھئے: صدام کی پھانسی، مصر میں حسنی مبارک کا تخت پسند نہ آیا تو تبدیل، اخوان المسلمین کا
انقلاب پسند نہ آیا تو تبدیل، لیبیا میں معمر قذافی پسند نہ آیا تو قتل، شام میں بشارالاسد کسی کو پسند تو کسی کو ناپسند، اس لئے وہاں بھی تباہی پھیلا دی گئی۔ افریقی ممالک چاہے مسلمان ہوں یاعیسائی، سپر پاور اپنے مفادات کے مطابق وہاں پر ڈکٹیٹرز یا کمزور جمہوری حکوتوں کا ساتھ دیتی ہے۔ امریکہ میں اگلے صدارتی انتخابات کیلئے اس وقت ڈیموکریٹ
اور ریبلیکن پارٹیاں اپنے اپنے امیدوارمنتخب کرنے کے لئے ووٹ کاسٹ کر رہی ہیں۔ جن میں ڈیموکریٹ پارٹی کی جانب سے ہیلری کلنٹن اور ریبلیکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ کے آمنے سامنے آنے کی امید زیادہ دکھائی دے رہی ہے۔ مسلمانوں، اپنے پڑوسی ملک میکسیکو ، زمبابوے اور یوگنڈا کے آمروں کے خلاف سخت بیانات دینے کے باوجود ٹرمپ تیزی
سے ووٹروں کی تعداد میں اضافہ کرتے چلے گئے۔ ٹرمپ کے مطابق جنوبی ایشیا اور شام کو روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کی مدد سے امن کی جانب لے کر جائیں گے جس کے لئے انہوں نے ابھی سے ولادیمیر پیوٹن سے رابطہ شروع کر دیا ہے جبکہ روسی صدر کی جانب سے بھی ٹرمپ کے لئے خیرسگالی کے پیغامات آ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ
ٹرمپ نے صدام حسین اور معمر قذافی کے ہٹائے جانے کو امریکہ اور دنیا بھر کے لئے تباہی قرار دیا کہ ان دونوں سے امریکہ کو کوئی خطرہ نہیں تھا اور نہ ہی ان کے دیس میں دہشت گردوں کی فیکٹریاں پنپ رہی تھیں جس سے خطرہ ہوتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ مسلم دنیا آمروں کو نہ صرف پسند کرتی ہے بلکہ ان کے زیر کمان
عوام کے ساتھ بہتر انداز میں برتائوکیا جاتا ہے۔ ٹرمپ کے ایسے بیانات مسلم ممالک خصوصاً جہاں جمہوریت ابھی اپنی جڑیں مضبوط نہیں کر پائی،کے لئے خطرے کی گھنٹی ہیں کیونکہ ماضی میں بھی امریکہ مسلم ممالک میں عوامی نمائندوں کے ساتھ معاملات طے کرنے کی بجائے ایک شخص سے بات چیت کرنے کو ترجیح دیتا رہا ہے۔ اب اگر امریکی
آنے والے انتخابات میں ٹرمپ کی صورت میں تبدیلی لے کر آتے ہیں تو اس کا اثر باقی دنیا پر بھی پڑے گا اور بالخصوص مسلم ممالک کے عوام کو ضرور مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔