بروز جمعرات 21نومبر 2019کو چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ صاحب نے اظہارِ خیال کیا۔
آپ کا دستیاب متن ملاحظہ فرماتے چلیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے فرمایا’’طاقتوروں کا طعنہ نہ دیں۔ ہمارے سامنے کوئی طاقتور نہیں، ایک وزیراعظم کو نااہل، دوسرے کو سزا ہم نے دی، سابق آرمی چیف کا جلد فیصلہ آنے والا ہے۔ نواز شریف کو وزیراعظم نے خود اجازت دی، ہائیکورٹ میں صرف طریق کار پر بحث ہوئی۔ وزیراعظم اپنے بیان پر غور اور احتیاط کریں۔ ججز کام عبادت سمجھ کر کرتے ہیں، اپنے وسائل سے بڑھ کر کام کر رہے ہیں، سرکار سے ایک آنہ نہیں مانگا۔ دو تین کے سوا چھتیس لاکھ ناتواں لوگوں کو انصاف دیا جن کو وزیراعظم جانتے بھی نہیں ہوں گے۔ وزیراعظم کا وسائل فراہم کرنے کا اعلان خوش آئند ہے۔ ہمارا موازنہ 2009ء کی عدلیہ سے نہ کیا جائے، اس کے بعد کی عدلیہ مختلف اور آزاد ہے۔ایک خاموش طوفان آ چکا۔ ماڈل کورٹس بنائیں مگر ڈھنڈورا نہیں پیٹا۔ اگر کوئی شخص میڈیا کی مہربانی سے طاقتور بن گیا تو کیا ان لاکھوں افراد کو بھول جائیں جنہیں عدلیہ سے انصاف ملا۔ پولیس ریفارمز کی وجہ سے ایک لاکھ مقدمات عدالتوں میں نہیں آئے‘‘۔
عدالتِ عظمیٰ میں خیبر پختونخوا الیکشن آرڈیننس 2019کو کالعدم قرار دینے سے متعلق مقدمہ کی سماعت کے دوران چیف جسٹس سعید کھوسہ ریمارکس دیتے ہیں کہ فوج کے حوالے سے قانون سازی صوبوں کا نہیں بلکہ وفاق کا اختیار ہے۔ پہلے حراستی مراکز کی آئینی حیثیت کا تعین کریں گے، پھر اگلی بات ہو گی۔ اگر قانون سازی آئین کے خلاف ہوئی تو آرٹیکل 245کا تحفظ نہیں ملے گا۔ ایک عدالتی فیصلے میں ہے کہ کوئی شخص بڑا مجرم ہو تو بھی اس کو آئین کے مطابق اس کی عزت و توقیر حاصل ہے۔
21نومبر 2019ء ہی کے اخبارات میں وزیراعظم پاکستان کا بیان بھی شائع ہوا جس کے مطابق انہوں نے چیف جسٹس کے بیان پر اپنی اظہار خیال کی بے جہت روانی سے انہیں منع کر دیا تاہم اگر یہ ایسا ہے تب اس میں وزیراعظم کی ملک و ملت کے معاملہ میں بصیرت جھلکتی ہے اور اسے ان کی قومی فراست مندی کا نام دیا جا سکتا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ دوستوں نے اس حوالے سے ادھر ادھر کی اڑانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، تاہم اس کے باوجود ان کا یہ فعل قومی فراست مندی ہی میں شمار کیا جائے گا۔
14اگست 1947کو معرض وجود میں آنے والا پاکستان 1971میں دو لخت ہو گیا۔
آغاز میں لیاقت علی خان کی شہادت، قائداعظم کی وفات، حسین شہید سہروردی کی بیرونِ ملک موت جیسے چر کے لگے، بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، بی بی کی شہادت، اس کے دونوں بھائیوں کی پُراسرار اموات جیسے معاملات نے پاکستانیوں کے دلوں میں خوف اور شک کے ایسے جرثومے پیدا کر دیے ہیں کہ وہ پتا کھڑکے تب بھی شک اور خوف سے کاپنے لگتے ہیں، یہاں تو پورا پورا ملکی درخت ہی لڑکھڑا رہا اور طوفانوں کی زد میں ہے۔
عمران خان صاحب اور ان کے ساتھیوں کی کار کردگی کی نااہلی نے پاکستانیوں کو ذہناً نڈھال کر دیا ہے اور روزمرہ کی زندگیوں میں عملاً ان کی حکومت نے عوام کو جس طرح سرکاری اہلکاروں کا چارہ بنایا ہے وہ کم از کم پاکستان کی تاریخ کے منحوس ترین واقعات کا بھی باوا آدم ہے۔
جناب چیف جسٹس کے بیانیے سے امید پیدا ہو چلی ہے کہ ایسی سفاکیوں سے پاکستانیوں کو شاید سکھ کا سانس نصیب ہو سکے۔ جناب چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ صاحب نے یہ بیان دے کر پاکستانیوں کے دل موہ لئے ہیں اور قانون شکنی کے عادی سرکاری اہلکاروں کو تعزیری خوف میں مبتلا کر کے ان کی اس قانونی غنڈہ گردی سے لوگوں کی جان بچا لی ہے۔
محسوس یوں ہوتا ہے کہ چیف جسٹس کے بیان میں بین السطور جو کچھ بھی ہے اس میں کم از کم پاکستانیوں کیلئے تحفظ کا نظام بھرپور طریقے سے قائم ہو چکا ہے اور آپ دیکھ لیں گے کہ آوارہ مزاج سرکاری اہلکار جو قانون کو جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں، وہ عدالتی تعزیر کی کپکپی میں مبتلا ہو کر انسان کے بچوں کی طرح اس ملک کے عوام کو اپنے باپ کا غلام نہیں بلکہ شہری سمجھیں گے، ہمارے لئے اتنا ہی کافی ہے۔
حقیقت یہ ہے اس حکمرانی کے عہد میں ایسے سرکاری اہلکاروں نے قانون کے چولے کا خوف دل سے اتار پھینکا تھا اور چیلوں کی طرح عوام پر ٹوٹ پڑتے تھے۔
میاں صاحب کے بخیریت اتمام لندن پہنچنے پر جناب سہیل وڑائچ نے مورخہ 22 نومبر کے جنگ میں ’’وہ سوتیلا ہے‘‘ کے عنوان سے جو شاہکار لکھ مارا ہے۔
’’وہ سوتیلا ہے‘‘ کے عنوان سے آصف علی زرداری کے بارے انہوں نے لکھا کہ ’’ کئی سال گزر گئے مگر ابھی تک کوئی دستاویز سامنے نہیں آئی۔ کوئی مقدمہ نہیں بنا۔ ’’سوتیلے‘‘ کو البتہ سب وشتم کرنے کیلئے یہ الزامات دہرائے جاتے رہے اور دہرائے جاتے رہیں گے۔
طالبان کے اقرار، ملزمان کی گرفتاری اور سزائوں کے باوجود اکثر اب بھی اسے ہی ’’بیوی‘‘ کا قاتل قرار دیتے ہیں، توجیہات اور سازشی کہانیاں تراشی جاتی ہیں کہ فوراً ’’سوتیلا‘‘ ہی قاتل نظر آتا ہے مگر یہ قاتل کیسا ہے کہ اس کی پارٹی نے اس کو ’’مانا‘‘، پانچ سال صدر بنائے رکھا۔
اسٹیبلشمنٹ اختلافات کے باوجود اس کی تعریفیں بھی کرتی رہیں۔چین کے ساتھ دوستی کے راستے اس نے کھولے، بینظیر کی لاش سندھ گئی تو جگہ جگہ ہنگامے ہو رہے تھے، ایسے میں اسی نے ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگایا، خیبر پختونخوا کو اس کا قومی نام اس نے دیا تھا، اٹھارہویں ترمیم منظور کر کے اسی نے خود اپنے اختیارات پارلیمان کو دیئے۔
یہی ’’سوتیلا‘‘ نے جس نے صوبائی خود مختاری کا دیرینہ خواب رضا ربانی کی سربراہی میں منظور کی گئی اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے پورا کیا تھا...یاد رکھو کہ ’’سوتیلا‘‘ اگر پنجاب سے مر کرسندھ گیا تو گڑھی خدا بخش میں شہیدوں کے قبرستان میں دفن ہو گا اور وہاں سے اس کی سیاسی روح ان سب کو رلائے گی جو اس کو برسوں ’’سوتیلا‘‘ بناتے رہے ہیں۔