اسلام آباد (عمر چیمہ) وزارت قانون و انصاف نے غداری کے الزامات پر سابق ڈکٹیٹر جنرل (ر) پرویز مشرف کیلئے قانونی چارہ جوئی کرنے والے وکلاء اور ان کو ادا کی گئی فیس کی تفصیلات کے حوالے سے معلومات دینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا ہے کہ یہ مخصوص وزارت ہے، اس لئے عام شہریوں کو جوابدہ نہیں ہوسکتی۔
رائٹ آف ایکسس ٹو انفارمیشن ایکٹ 2017 جسے آر ٹی آئی کے طور پر جانا جاتا ہے، اس کے تحت ایک ٹیکس دہندہ کی جانب سے درخواست دائر کی گئی تھی جو یہ جاننا چاہتا تھا کہ عوام کی جانب سے ٹیکسز کی مد میں دی گئی ان کی رقوم کو وزارت کتنے منصفانہ انداز میں استعما ل کر رہی ہے۔
درخواست گزار مختار احمد علی کے لیے یہ حیرت سے کم نہ تھا کہ وزارت نے اس طرح کی انکوائریوں کیلئے انہیں نااہل قرار دے دیا۔ 1993 میں کابینہ ڈویژن کے نوٹیفکیشن کا حوالہ دیتے ہوئے لیکن اس نوٹیفکیشن کے مندرجات شیئر کیے بغیر اور ان کی وضاحت کئے بغیر وزارت نے یہ کہتے ہوئے استثناء کا دعویٰ کیا کہ اسے مخصوص قرار دیا گیا ہے، اس لئے آپ کی درخواست کو اس پہلو سے مسترد کیا جاتا ہے۔
وزارت سے انکار کے بعد مختار نے پاکستان انفارمیشن کمیشن سے رابطہ کیا جو حکومت کے خلاف درخواست گزاروں کی جانب سے دائر کی گئی شکایات سے نمٹنے کے لیے آر ٹی آئی قانون کے تحت تشکیل دی گئی اپیلینٹ باڈی ہے۔
وزارت کو بھیجے گئے جواب الجواب میں مختار کا کہنا تھا کہ ان کی درخواست کو بغیر مناسب غور کے مسترد کردیا گیا ہے جیسا کہ وزارت نے ان کی درخواست پر فیصلے کے دوران آرٹیکل 19 اے اور رائٹ آف ایکسس ٹو انفارمیشن ایکٹ پر غور کرنے تک کی زحمت گوارا نہیں کی۔
ان کے جواب الجواب میں کہا گیا کہ وزارت کا جواب مبہم ہے جیسا کہ وہ کابینہ ڈویژن کے نوٹیفکیشن کا حوالہ دیتی ہے لیکن وضاحت نہیں کرتی کہ نوٹیفکیشن دراصل کہتا کیا ہے اور رائٹ آف ایکسس ٹو انفارمیشن ایکٹ 2017 کے تحت دائر کی گئی درخواست کے حوالے سے یہ کیسے لاگو ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید دلیل دی کہ اس ایکٹ کا اثر زیادہ ہے، اس کی سیکشن 25 دیکھئے اور اسی لئے دیگر قوانین میں متضاد دفعات کو اس ایکٹ کے تحت معلومات کی درخواستوں کو مسترد کرنے کیلئے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
مختار نے وضاحت کی کہ اس کے باوجود کہ وزارت نے محض انتظامی اطلاع کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی ہے جس کا رائٹ آف ایکسس ٹو انفارمیشن ایکٹ 2017 کی واضح دفعات کی موجودگی میں کوئی قانونی اثر نہیں ہے۔
انہوں نے دلیل دی کہ درحقیقت درخواست کی گئی معلومات کا انکشاف کرنے سے وزارت قانون و انصاف شفافیت اور اچھی حکمرانی کے لئے اپنے عزم کا مظاہرہ کرے گی اور لہٰذا حکومت پر عوامی اعتماد کی تعمیر میں حصہ ڈالے گی۔
مختار نے مزید اشارہ کیا کہ کابینہ ڈویژن کا نوٹیفکیشن جس کا حوالہ دے کر ان کی درخواست رد کی گئی تھی وہ 2010 میں آئین میں آرٹیکل 19 اے کی شمولیت سے بہت پہلے جاری ہوا تھا جس کے تحت معلومات تک رسائی کو ہر شہری کا بنیادی حق قرار دیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اسی لئے معلومات تک رسائی کو رد کرنے کیلئے نوٹیفکیشن پر انحصار شہریوں کے بنیادی حقوق کی جان بوجھ کر خلا ف ورزی ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ لہٰذا مذکورہ نوٹیفکیشن کو آئین کے آرٹیکل 19 اے اور رائٹ آف ایکسس ٹو انفارمیشن ایکٹ 2017 کی دفعات سے متضاد قرار دیئے جانے کی ضرورت ہے۔