• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا پاکستان کا نافذ العمل، متفقہ اور عوام کو ان کی جان و مال اور دیگر انتہائی بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ و حصول کی ضمانت فراہم کرنے والا متفقہ آئین، جاری نظامِ بد کا ہی ذریعہ بنا رہے گا؟ تادم اس کے نفاذ کا ارتقا منتخب حکومتوں کے اقتدار کی باری پورے ہونے تک ہی محدود ہو کر نہیں رہ گیا؟ 

جیسا کہ پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ گزشتہ دو حکومتوں نے بدترین گورننس اور کرپشن کے ریکارڈ توڑنے کے باوجود اپنی اپنی آئینی مدت تو بہرطور پوری کی، اب تیسری منتخب حکومت بھی اپنی انتظامی نااہلی اور بڑے حجم کی اپوزیشن کے غیر معمولی دبائو کے باوجود ڈگمگائی نہیں اور چل رہی ہے اور یقیناً اسے بھی مدت پوری کرنی چاہئے کہ کم از کم نفاذِ آئین کے حوالے سے جو ارتقا ہوا ہے وہ تو محفوظ رہے لیکن ملک و عوام کا مزید بیڑا غرق ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔

یہ واضح رہے کہ زیر بحث ارتقا کے بینی فشری بدستور حکمران ہی ہیں کہ اپنی بیڈ گورننس کے باوجود حکومت میں ہیں جبکہ عوام کو اس کا ناصرف یہ کہ کوئی فائدہ نہیں ہوا، نہ ہو رہا بلکہ الٹا پڑ رہا ہے لیکن یہ گاڑی اسی طرح نہیں چلے گی۔ 

سوال یہ ہے کہ آئین کی روح کے مطابق وہ آئینی ضمانتیں کیوں رو بہ عمل نہیں ہو رہیں جو ملک کے 22کروڑ عوام کو ان کے انتہائی بنیادی حقوق کے تحفظ و حصول سے متعلق آئین نے فراہم کی ہیں۔ ان (ضمانتوں) نے تبدیلی کی علمبردار اور داعی حکومت کے برسراقتدار آنے پر بھی آخر کب تک اور آخر اب کیوں معطل رہنا ہے؟ 

عوام کے وہ بنیادی حقوق جن کا تعلق خزانہ بھرنے یا اس کی کمزور حالت سے نہیں، وہ انہیں کیوں حاصل نہیں ہوا؟ کہاں ہے وہ ’’ایجوکیشنل ایمرجنسی‘‘ کا نعرہ جس میں ملک کے اسکول ایج کے ڈھائی کروڑ بچوں کی ناگزیر اسکولنگ جنگی بنیاد پر ہونا تھی۔ ان کے ڈیٹا کی کولیکشن ان کی رجسٹریشن سمیت کوئی بھی کام شروع نہ کیا جا سکا، تھانے کچہری کے ظالمانہ نظام ختم کرنے کے لئے کیا کوئی بھی بنیادی قدم اٹھایا گیا ہے؟ 

انتظامی امور کا نالج سائنس کی حد پر آنے اور عوام سے برتے گئے افسر شاہی اور کلرکِ بادشاہی کے گھٹیا رویوں، سینئر کے جونیئرز کو پریشر میں رکھنے کے اداروں کو تباہ کرنے والے رویوں کو ریکارڈ کرنے کو ٹیکنالوجی عام ہونے اور دفاتر میں دستیاب ہونے کے باوجود یہ منفی اور گھٹیا رویے آخر کیوں ریکارڈ نہیں ہو رہے، کیوں نہیں ان کی جواب طلبی اور انتظامی نوعیت کی سزائوں اور ان کی ترقیوں و ترغیبات کو ان کی کارکردگی سے منسلک نہیں کیا جا رہا؟

 عوام کو وہ ریلیف فراہم کرنے کے لئے فوری اور آئین و قانون کے مطابق حکومتی اقدامات کیوں نہیں کیے جا رہے، جس کے حکمران آئینی و قانونی طور پر پابند ہیں؟ نااہلی و اہلیت اور قابلیت کو ریکارڈ کرنا اور اس کے مطابق ان کی ایڈجسٹمنٹ آج کی جدید انتظامی سائنس اور اس کے اطلاق میں کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں، فقط حکمرانوں کی نیت، رویوں اور اہلیت کا معاملہ ہے وہ انفرااسٹرکچر اور وسائل و ذرائع تو موجود ہیں خصوصاً محکموں کی عوام کو سروسز فراہم کرنے کے نظام کی کمپیوٹرائزیشن اس کا متعلقہ عملہ اور ماہرین تو موجود ہیں۔

آخر کب تک ہمارے اسکول، ہمارے اسپتال ہماری بنیادی سہولتوں کا انفراسٹرکچر اور انہیں استعمال کرنے کا نظام کب تک بیورو کریسی کے عوام دشمن رویے، کرپشن اور حکمرانوں کی نااہلی اور عوام سے لاپروائی کا شکار رہے گا؟ ایک خوفناک خلا آئین و قانون کی عوام کو ضمانتوں اور ان کی بلاجواز مشکلات اور تکالیفِ مسلسل کے درمیان موجود چلا آ رہا ہے اور اب تک باقی ہے۔ اس کے نفاذ کے طرف قدم کیوں نہیں اٹھایا؟ 

آخر ہم کب تک اپنے شہروں میں روز مرہ کی صفائی ستھرائی کے لئے ترکی کی کمپنیوں اور کبھی چین کی کسی کمپنیوں کو ٹھیکے دیتے رہیں گے یا اس کی منصوبہ بندیاں کرتے رہیں گے؟ 

ہمارا وہ بلدیاتی نظام کب باقاعدگی سے شروع ہو گا اور کب ایمپاورڈ ہو گا جس کو پاکستانی آئینی جمہوریہ کا پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں جتنا اہم لازمہ قرار دیا گیا ہے اور جو ترقی پذیر جمہوریتوں اور بلند آمرانہ معاشروں میں بھی منظم اور عوام کو سروسز کی حد تک نتیجہ خیز ہے؟

پنجاب رکاوٹیں ڈالنے، سیاسی بلیک میلنگ اور کرپشن و بیڈگورننس کے معاملے میں نسبتاً بہتر صوبہ بلکہ کافی بہتر سمجھا جاتا رہا ہے، تبدیلی کے بعد یہاں تھانہ کچہری کے بدتر نظام اور عوام کو انتظامی امور کے حوالے سے عوامی خدمت کے ماڈلز پر اب تک کام شروع ہو جانا چاہئے تھا۔

لیکن سارا نزلہ پنجاب کی بیورو کریسی پر ڈالا گیا کہ یہ اسٹیٹس کو (نظامِ بد) سے حاصل کئی غیر معمولی مراعات سے محروم ہو گئی جو اسے صوبائی حکومت کے متوازی کمپنیوں کے نظام سے حاصل تھیں۔ 

بلاشبہ محرومی کے بعد افسر شاہی کا جمود ایک تلخ حقیقت ہے، اس کے علاج کے طور بیورو کریسی (خصوصاً پنجاب کی) میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ کے اقدام سے گڈ گورننس کی جانب کچھ آغاز تو ہوا ہے دیکھتے ہیں اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔

یہ آئین و قانون اور متاثرہ عوام کے درمیان بڑے خلا کو کیونکر کم کرتا ہے، بہت جلد میڈیا اس کے نتائج کو رپورٹ کرنا شروع کر دے گا اور رائے عامہ سے اس کا اندازہ ہو جائے گا لیکن ایک بڑا آئینی و قانونی سوال یہ نہیں کہ تبدیلی سرکار نے ایڈوائزی کے نام پر وفادار نااہل اور چالاک مشیروں کی جو بھرتی کی ہوئی ہے، کیا یہ مشیر اپنی اپنی فیلڈ کے ماہر ہیں؟ 

ان کی اہلیت اور نااہلیت کو ماپنے کا کوئی پیمانہ ہے؟ یہ کتنی تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں اور اسکے عوض بڑے ڈیزاسٹر، خاموشی اور واضح نااہلی کے علاوہ انہوں نے اب تک عوام کو کیا دیا ہے؟ 

اس کا حساب ہر وزارت کے حوالے سے عوام کےسامنے آنا چاہئے۔ ایک ماہ کی حالات حاضرہ کی خبروں نے بے نقاب کر دیا ہے کہ ملک میں آئین و قانون کے نفاذ اور مطلوب قانون سازی کا کتنا بڑا بحران ہے، جس کے متاثرین فقط عوام ہیں۔

تازہ ترین