• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

’’مشکوک افراد‘‘ کی فہرست

اللہ نہ کرے کہ آپ کی ’’محبّت کا پودا‘‘ کبھی مرجھائے۔ سو، پیار اور خُلوص سے سینچنے، آب یاری کو حاضر ہیں۔ دیکھا، اس آب پاشیٔ محبت کا جادو، ابھی سے مشامِ جاں معطّر ہونے لگی۔ ارے، یہ خُوش بو تو شگفتہ وشاداب ننّھے گُلوں سے معمور باغِ محبّت سےآ رہی ہے۔ پیار بھری بانہوں کا ہار پہنے خوش رنگ غنچوں، شگوفوں کے کِھلے کِھلے چہروں سےسرِورق بھی مُسکرا رہا ہے۔ ذہنی صحت کے عالمی یوم کی مناسبت سے ڈاکٹر نرگس اسد کے انکشاف ’’سوشل میڈیا کا استعمال نفسیاتی صحت پر بہت اثرانداز ہو رہا ہے‘‘نےہمارے سوال’’لوگ اتنے نفسیاتی کیوں ہوتے جارہے ہیں؟‘‘ کا جواب دے دیا۔ تو،’’ہیلتھ اینڈ فٹنس دوم‘‘ میں ڈاکٹر عمران یوسف کا انکشاف’’ ایسی جدید مشینیں دستیاب ہیں، جن کی مدد سے کسی بھی فرد کی دماغی حالت پڑھی جا سکتی ہے‘‘ پڑھتے ہی ہم نے ان تمام ’’مشکوک افراد‘‘ کی فہرست نکال لی، جن کی دماغی حالت پہ ہمیں شبہ ہے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ذکر تھا ’’یو این جی اے کے ہنگامہ خیز اجلاس کا‘‘ کا تو جناب، وزیرِاعظم کی جوشیلی تقریر قوم کے مشتعل جذبات سُلانے کی کوشش سے زیادہ کچھ نہ تھی کہ تاحال کوئی واضح لائحہ عمل، عملی قدم سامنے نہیں آیا۔ ’’کوچنگ سینٹر کلچر:اسٹیٹس سمبل؟‘‘ ’’سن ڈے اسپیشل‘‘ کے تحت اس سوال کا درست جواب چیئرمین انٹر بورڈ کمیٹی نے دیا کہ’’آج ہر بچّہ کم سے کم پڑھ کر زیادہ سے زیادہ نمبرز لینا چاہتا ہے‘‘۔ مرکزی صفحات پر ننھّی پریوں، کومل کلیوں، تتلیوں، جگنوؤں کی شوخیاں، شرارتیں، اٹکھیلیاں تو خُوب تھیں ہی، اُس پر آپ کی شگفتہ تحریر نے حدیقۂ اطفال مزید مہکا دیا۔ آہ!8 اکتوبرکی تاریخ بھلائے نہیں بھولتی۔ قیامت خیز سا نحے کو14 سال گزر گئے، تعمیرات کے منتظرین تو منتظر ہی رہیں گے کہ موجودہ حکومت کے نزدیک ’’لنگر خانہ‘‘ کھول کر قوم کو بھکاری بنانا زیادہ اہم اور باعثِ اجر و ثواب ہے۔ ’’گفتگو‘‘ میں بلال غوری شکوہ کُناں تھے، پر کیا کیجیے کہ فیورٹ ازم معاشرے کاجزوِ لاینفک بن چکا ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ’’زرد پتّے‘‘ موضوع کے اعتبار سے زرد ہی سی لگی۔ ’’اِس ہفتے کی چِٹھّی‘‘ کا خُوب صورت فریم، رنگوں کا امتزاج پیج ڈیزائنر کے عُمدہ جمالیاتی ذوق کا عکّاس لگا بلکہ ہمارا تو پورا سن ڈے میگزین ہی عُمدہ ذوق کا آئینہ دار ہے۔ کیوں، ٹھیک کہا ناں…؟ (نادیہ ناز غوری، لانڈھی، کراچی)

ج: ہمیں تو تمھارا کہا ٹھیک ہی لگے گا کہ تعریف بھلا کسے اچھی نہیں لگتی۔ اور ہاں، ایک فہرست ہمارے پاس بھی ہے۔ جب مشین منگواؤ تو ہمیں ضرور بتانا۔

زور دار مبارک باد

آج دوماہ بعد تبصرے کے لیے قلم اٹھایا، تو یوں محسوس ہوا جیسے اِک عرصہ بیت گیا ہو۔ بہرحال، شمارے نظروں سے گزرتے رہے اور لطیف سُر بکھیر کر ماحول کو بھی رنگین بناتے رہے۔ تازہ شمارے کے سرِورق پر درج مصرع ’’تمام رنگ اُدھورے لگے ترے آگے…‘‘ بہت خُوب تھا، حالاں کہ ماڈل سے کچھ زیادہ میچ نہیں کررہا تھا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے مستحکم معیشت کی بابت مفید مغزماری کی۔ ڈاکٹر سیّد محمّد غفران سعید نے ’’عالمی یومِ خوراک ‘‘کے حوالے سے عمدہ مضمون لکھا، تو ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں طلعت عمران مودی سرکار کی نفرت انگیز مہم لے کر آئے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر عالیہ کاشف عظیمی کی مختصر تحریر پر امجد اسلام امجد کی نظم رنگ جمانے میں کام یاب رہی۔ ناول کا تو بس نہ پوچھیں۔ ہر قسط ہی کا اختتام سنسنی خیز ہوتا ہے۔ ارے واہ! ’’نئی کتابیں‘‘ میں مدیرہ (آپ کا) کا تبصرہ، بڑی بات ہے بھئی، آپ نےہمارےلیےاتناوقت نکالا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں رشتوں کی مالا پر عروسہ شہوار نے بڑے سلیقے سے قلم اٹھایا اور دسترخوان پر حیدرآبادی پکوان کی مہک نے تو واقعی منہ میں پانی بھردیا۔ ناقابلِ فراموش کی دونوں کہانیاں بھی سبق کی چاشنی سے مزیّن تھیں اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں بھی ایک خوش گوار حیرت منتظر تھی۔ وہ یہ کہ پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی کو بھی بالآخر مسند نشینی کا اعزاز مل ہی گیا۔ ایک زور دار مبارک باد تو بنتی ہے۔ (ملک محمد رضوان، محلّہ نشیمن اقبال، واپڈا ٹاؤن، لاہور)

ج:’’خیر مبارک‘‘ ہماری طرف سے قبول کرلیں۔ وگرنہ پروفیسر صاحب کہیں 10,10صفحات کے دو خطوط، صرف اس’’زور دار مبارک باد‘‘ کو پکڑ کر ہی نہ لکھ ماریں۔

شکایت کا بروقت ازالہ

سنڈے میگزین میں نور خان محمّد حسنی کا ضلع چاغی سے متعلق مضمون دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی۔ بلاشبہ، دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔ میری شکایت کا بروقت ازالہ کرنے پر آپ کا بہت بہت شکریہ اور ’’عبداللہ III‘‘ کا تو مَیں پورا ہفتہ اس طرح انتظار کرتی ہوں، جیسے بچپن میں کسی دل چسپ ڈرامے کی اگلی قسط کا کرتی تھی۔ جریدے میں بلوچستان کے مسائل اور علمی ادبی شخصیات کو جگہ دے کر تو آپ نے ہمارا دل جیت لیا ہے۔ (لائبہ درّانی، کوئٹہ)

ج:کون سی شکایت…؟؟ کیسا ازالہ، ہم تو ہمہ وقت شکایات کے انبار ہی میں گِھرے رہتے ہیں۔آئندہ کبھی اس قدر شکریہ ادا کریں، تو اُس امر پر بھی ضرور روشنی ڈالیں، جو قصداً یا غیر ارادی طورپر ہم سے سرزد ہوگیا ہو۔

’’نئے پاکستان‘‘ جیسا…

اس بار تو چمتکار ہوگیا ’’گلبرگ ٹائون اِن، لال کوٹھی ائوٹ‘‘ نرجس ملک صاحبہ! اس کو ہم کیا سمجھیں…؟ پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ اور سنڈے میگزین سے رابطہ استوار رکھ یا مدیرہ کی کڑوی کسیلی باتیں اگنور کیے جا۔ بہرحال، پروفیسر مجیب کو بہت بہت مبارک۔ ناقابلِ فراموش کی دونوں کہانیاں سبق آموزتھیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں عروسہ شہوار اپنے بچپن کو یاد کرتی نظرآئیں۔ مَیں عام طور پر’’نئی کتابیں‘‘ نظرانداز کر کے گزر جاتا ہوں، لیکن اس مرتبہ نرجس ملک کا نام دیکھا، تو دل پڑھنے کے لیے مچلنے لگا اور پھر نہ نہ کرتے بھی سب پڑھ ڈالا۔ طلعت عمران نے ہندو انتہا پسندوں کی گھٹیا ذہنیت، بزدلی اور موقع پرستی کو خُوب اچھی طرح آشکار کیا۔ منور راجپوت ’’نیاگوادر‘‘ لے کر آئے، تو خوشی کے ساتھ پریشانی بھی ہوئی۔ پریشانی اس بات پر کہ نیا گوادر بھی کہیں نئے پاکستان جیسا نہ ہو۔(عبدالسلام صدیقی بن عبیداللہ تائب، خیام بس اسٹاپ، نارتھ کراچی، کراچی)

ج:اللہ نہ کرے۔ نیا گوادر، اِن شاءاللہ تعالیٰ نیا گوادر ہی ہوگا کہ اُس کے سنگِ بنیاد اور بنیادوں میں بھی’’تبدیلی سرکار‘‘ کا کچھ خاص عمل دخل نہیں۔

دال روٹی پوری نہیں ہورہی

’’اسٹائل‘‘ کی تحریر میں جملہ ’’قیامت ڈھارہا ہے‘‘ استعمال نہ کیا کریں۔ ہم اتنے عرصے سے یہ الفاظ سُن رہے ہیں۔ کیا قیامت اتنی آسانی سے ڈھائی جاسکتی ہے۔ بےجا تعریفوں کے پُل باندھنے سے گریز کیا کریں۔ ملبوسات پر حقیقی تبصرہ ہونا چاہیے اور کسی زمانے میں میگزین میں ’’تین مرد تین کہانیاں‘‘ کا سلسلہ شامل تھا۔ براہِ مہربانی وہ سلسلہ بحال کریں اور ہاں، نئی کتابوں پر تبصرہ بھی شایع نہ کیا کریں۔ یہ صفحہ بالکل ہی فضول ہے۔ آج کل لوگوں کی دال، روٹی پوری نہیں ہورہی، آپ نئی کتابیں خریدنے کے مشورے دے رہی ہیں۔ (نواب زادہ خادم ملک، سعید آباد، کراچی)

ج:آپ تو لگتا ہے ’’جہالت آباد‘‘ کے نواب زادے ہیں۔ بلاوجہ ہی نئی کتابوں پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔ آپ صرف اُن صفحات تک محدود کیوں نہیں رہتے، جو آپ کی ’’سمجھ دانی‘‘ میں بآسانی سما سکیں۔ ناحق خود بھی سرکھپاتےہیں اورہمیں بھی غصّہ دلا دیتے ہیں۔

کُوزے میں دریا

’’قصص الانبیاءؑ ‘‘ کاایمان افروز سلسلہ، بے بہا معلومات کے خزانے بکھیرنے کے بعد اختتام پذیر ہوا۔ اللہ پاک آپ لوگوں کو اس نیکی کا اجر عظیم عطا فرمائے۔ مانا کہ سنڈے میگزین کا سائز بھی چھوٹا ہوا اور صفحات بھی کم ہوئے ہیں، لیکن بھئی تم نے تو دریا کو کُوزے میں بند کردیا ہے اور یہ تمہاری اعلیٰ مہارت، بہترین منصوبہ بندی اور شان دار حکمتِ عملی ہی کی بدولت ہے۔ خاص طورپر کسی خاتون میں ایسی خصوصیات کا یک جا ہونا خداداد صلاحیتوں کے ساتھ والدین کی اعلیٰ تربیت کا بھی نتیجہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان صلاحیتوں میں مزید اضافہ فرمائے، آمین۔ بانجھ پن، پولیو کے عالمی دن سےمتعلق مضامین اورعبداللہ کا سلسلہ باکمال ہے۔ (ریحانہ ممتاز، کراچی)

ج:بہت شکریہ ریحانہ صاحبہ! بس اپنی سی کوشش رہتی ہے کہ محدود اور دست یاب وسائل میں بھی جریدے کو جس قدر بہتر سے بہتر کرکے آپ لوگوں کی خدمت میں پیش کیا جاسکتا ہے، کرتے رہیں۔

مِلے، دیکھے بغیر

’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ سلسلے میں میری والدہ پر لکھی کہانی شمارے میں شامل کرکے آپ نے میرے دل میں جگہ بنالی۔ یہ اور بات کہ انسان سوچتا کچھ اور ہوتا کچھ ہے۔ مدرز ڈے کے اگلے ہی روز میری ماں، میری کائنات، جس کی خاطر میں نے میاں کے ساتھ پنڈی شفٹنگ کا پروگرام بناتے، گھر کا سامان اونے پونے سیل کردیا کہ اب باقی زندگی ماں کی خدمت کرتے، اپنی خطائوں، کوتاہیوں کا ازالہ کروں گی، مگر منزل پر پہنچ بھی نہ پائی اور بالکل اچانک والدہ مجھ سے مِلے، دیکھے بغیر ہی اس دنیا سے منہ موڑ گئیں اور اُن کے بعد تو جیسے صدمات نے میرا گھر دیکھ لیا۔ خیر، جریدے سے متعلق اتنا ہی کہنا ہے بے مثال، لا جواب ہے۔ کچھ تحریریں بھیج رہی ہوں، مناسب لگیں تو شایع فرمادیں۔ (شہناز حمید، راول پنڈی)

ج:اللہ پاک آپ کو صبرِجمیل عطافرمائے۔ مشکلات، آسانیوں میں، فکریں، پریشانیاں، خوشیوں، راحتوں میں بدل جائیں۔ تحریریں قابلِ اشاعت ہوئیں تو ضرور شایع ہو جائیں گی۔

یہ کیا مذاق ہے

واہ بھئی واہ، آپ نے تو ڈیجیٹل دَور کے ذکر کے ساتھ یہ کہہ کے کہ ’’آج کے دَور میں ٹارزن کی کہانیاں شایع کرنا ممکن نہیں‘‘، کمال ہی کردیا۔ تو کیا پھر پوتے کو بھی فریم میں لگی، دادا جی کی پُرانے دَور کی پگڑی والی تصویرنکال کے باہر پھینک دینی چاہیے کہ کہاں پرانےدَورکادادااور کہاں ڈیجیٹل دَور۔ اور ہاں کہنے کو یہ روزنامہ جنگ، پاکستان کا سب سے بڑا اخبار ہے، مگر دن بہ دن چھوٹے سے چھوٹا ہوتا جا رہا ہے، تو یہ ایک مذاق نہیں۔ (بشیر احمد بھٹی، فوجی بستی، بہاول پور)

ج:یہ کوئی مذاق نہیں، آپ کے دَورِحاضر بلکہ ’’دَورِ تبدیلی‘‘ کا شاخسانہ ہے۔ اور ڈیجیٹل دَور کے تذکرے پر بھی اس قدر ’’شہنشاہ ِجذبات‘‘ بننے کی ضرورت نہیں۔ پگڑی والی تصویر کے کسی فریم میں ہونے اور خود پگڑی پہن لینے میں بہت فرق ہے۔ آپ پُرانے اخبارات نکال کر سو بار ٹارزن کی کہانیاں پڑھتے رہیں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں، لیکن سنڈے میگزین میں بہرحال ان لغویات کی کوئی جگہ نہیں۔

اعلیٰ ظرفی، ہم دردی،احترامِ انسانیت

زیر ِنظر شمارے کا سرورق، کشمیری بہن بھائیوں سے ہماری ملّی وابستگی کا مظہر ہے۔ اشاعتِ خصوصی کا پہلا مضمون کشمیر کی ابتر صورتِ حال کی عکاسی کر رہا تھا۔ دوسرے مضمون میں رئوف ظفر نے کلام ِ اقبال کے آئینے میں پُرستم وادئ کشمیرکی بہترین تصویر کشی کی۔ تیسرے مضمون میں طلعت عمران نے ستم رسیدہ کشمیری خواتین کےکرب کی داستان ایسے لکھی کہ دل خون کے آنسو رو دیا۔ ’’جانے کب ہوں گے کم … اس دنیا کے غم‘‘۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس میں عالمی یومِ قلب کے حوالے سے آپ نے اہلِ دل کو دلکش ہیلتھ ٹپ دی ’’توانا دل، صحت مند زندگی کی ضمانت‘‘۔ مگر ادھر ہمارا ’’کھاباکلچر‘‘دل کیا کرے، جب چسکولی زباں کو فاسٹ فوڈ سے پیار ہوجائے۔ اورپیاراگھرمیں ’’خاندانی نظام اور تربیتِ اولاد‘‘ کےموضوع پر مدثر اعجاز کی قلم کاری اچھی رہی۔ قومی یک جہتی کشمیر کے سلسلے میں مرکزی صفحات پر جدوجہدِ آزادی کشمیر کی داستانِ خونچُکاں رقم تھی (از قلم نرجس) موقعے کی مناسبت سے آپ نے مشروب کا اشتہار شایع نہ کرکے مستحسن اقدام کیا۔ ایسی اعلیٰ ظرفی، ہم دردی و احترامِ انسانیت خال خال ہے۔ ’’متفرق‘‘میں، ڈاکٹر صغرا صدف نےتصوّف کا وہی گراں قدر موتی نذرِ قارئین کیا، جو حضرت ِ اقبال ؒ کچھ اس انداز سے فرما گئے؎ مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیَر رکھنا۔ جب کہ یہاں نئے پاکستان میں ریاست ِ مدینہ کے فالورز کا اپوزیشن سے پیار کا یہ عالم ہے کہ بیرونی دوستوں کو اپنے ایکٹر ڈی چوک میں مجبوراً لانے پڑ گئے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں چھے ہم عصروں کی موجودگی میں گلِ اعزاز ملنے پر قلب شاد ہے۔ جاندے جاندے ’’جناب ہوراں توں‘‘ (آپ سے) اِک گَل پُچھنی اے کہ آپ کا صفحہ کےلیےملنےوالی ڈاک، وصولی کے وقت لفافہ چاک کرکےدیکھی جاتی ہے یا ڈیڑھ ماہ بعد ایڈیٹنگ کے وقت۔ (محمد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)

ج: ڈاک، وصولی کے وقت لفافہ چاک کر کے ترتیب دے لی جاتی ہے، لیکن باقاعدہ چیک، ایڈیٹنگ کے وقت ہی کی جاتی ہے۔

علمی استعداد کے معترف

شمارہ موصول ہوا۔ سرِورق پر خزاں میں بہار کا نظارہ دیتی ماڈل بہت بھلی لگی۔ محمّد تنویر ہاشمی پولیو سے متعلق ایک فکر انگیز تحریر لائے۔ بنی اسرائیل کے آخری نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کےحالاتِ زندگی نہایت دلچسپی اور عقیدت سےپڑھے۔ ’’انٹرویو‘‘ میں وزیر اعلیٰ کے مشیر سے معلوماتی بات چیت کی گئی۔ نور محمّد خان حسنی چاغی کی تاریخی و جغرافیائی اہمیت بیان کررہےتھے، جہاں نواز شریف دَور میں ہونے والے ایٹمی دھماکوں نے ساری دُنیا کو انگشت بدنداں کر دیا تھا۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس میں شگفتہ بلوچ نے ماہر ِ امراض ِ نسواں، ڈاکٹر اعجاز احمد سے بانجھ پن سے متعلق اہم گفتگو کی۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں عالیہ کاشف خزاں رُت کے ملبوسات سے متعارف کروا رہی تھیں، تو ناول بھی اپنے کلائمکس کی طرف بڑھتا نظر آرہا ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ڈاکٹر عزیزہ انجم نے ماضی کے جھروکے خوب وا کیے۔ مگر دستر خوان جھاڑنے کے درست طریقے کا تو کوئی جواب ہی نہ تھا۔ مریم خان کا عصمت فروشی سے متعلق مضمون دل تڑپا گیا۔ مسلمان تو کُجا، ہم تو انسان کہلانے کے بھی لائق نہیں۔ عصمت علی کامران نے اچھا تبصرہ کیا، خاص طور پر مولانا مودودی ؒ سے متعلق کتاب کا بہترین تعارف پیش کیا گیا۔ ڈاکٹر طاہر مسعود نے ڈرامے اور فلم کا فرق بہت دانش ورانہ انداز میں واضح کیا۔ اور اپنے صفحے پر اس بار ملکہ عالیہ نے نادیہ ناز غوری کو صفحے کی ملکہ بنایا اور خُوب بنایا۔ رہی خادم ملک کی چٹھی، تو چھڈو جی، اے ویں ویلا شیلا بندہ ہے۔ باقی لکھاریوں کی کاوشیں اچھی تھیں۔ آپ نے ایک لکھاری کے جملے ’’صاف چُھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں‘‘ کے جواب میں داغ دہلوی کی پوری غزل داغ دی۔ بھئی، بہت خُوب، ہم تو پہلے ہی آپ کی علمی استعداد کے معترف ہیں۔ (شہزادہ بشیر محمد نقش بندی، میرپور خاص)

ج:ارے…داغ کی ایک معروف غزل نقل کردینے میں آپ کو کون سی علمی استعداد دکھائی دے گئی۔

                                                                                     فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

سنڈے میگزین کے ہر دل عزیز صفحے ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں خوش آمدید کہنے کا بے حد شکریہ۔ رنگ پیراہن کا، خوشبو زلف لہرانے کا نام.....موسمِ گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام۔ ڈاکٹر فاریہ اسلم کا بطور ماڈل آنا تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند لگا۔ اس پر رائٹ اپ میں امجد اسلام امجد کی خُوب صُورت نظم کا انتخاب زبردست تھا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کے عمدہ تجزیے ’’مستحکم معیشت، نتیجہ خیز سفارت کاری کی کلید‘‘ کے تو کیا ہی کہنے۔ واقعی معاشی و داخلی استحکام کے بغیر خارجی محاذ پر پیش قدمی ممکن نہیں۔ وہ کیا ہے کہ ؎ دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔ اک ہم ہیں کہ ابھی تک باہم دست و گریباں ہیں۔ بالآخر ہمیں اقتصادی پالیسی کو اوّلیت دینا ہو گی۔ وہ کیا ہے ناں کہ

''Political independence without economic independence is a shadow without substance.''

’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹر سیّد غفران سعید کے ’’عالمی یومِ خوراک‘‘ سے متعلق مضمون میں نہ صرف غذائی قلّت کی وجوہ بیان کی گئیں، بلکہ غذائی قلّت دُور کرنے کے انفرادی و اجتماعی اقدامات کا بھی بڑے اچھے انداز میں احاطہ کیا گیا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کا ذکر پُرنور معلومات و آگہی میں بیش بہا اضافے کا سبب بنا۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں طلعت عمران کی ’’اصلاح کی آڑ میں ثقافتی نسل کُشی‘‘ پر رپورٹ، کُل مسلم امّہ کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ ناول عبداللہ IIIمیں کسی اور ہی دنیا کی باتیں ہمیں بھی کسی اور ہی دنیا میں لے گئیؒں۔ نئی کُتب پر نرجس ملک کا تبصرہ بھرپور ادبی انداز لیے ہوئے تھا۔ ’’متفرق‘‘ میں مقبوضہ کشمیر کی حالتِ زار سے متعلق نعیم صدیقی کا مضمون کشمیری بھائیوں کے لیے ایک پکار کی مثل معلوم ہوا۔ عروسہ شہوار رفیع کا ’’رشتوں کی مالا‘‘ بڑوں کے احترام، چھوٹوں سے پیار، آپس کے خلوص و محبت ہی کا درس دیتا رہا۔ شاہین انجم کے ٹوٹکے ہی ٹوٹکے زبردست تھے، تو فرحت عباس کے حیدرآبادی پکوان کے چٹخاروں سے تبصرہ لکھتے ہوئے ایک بار پھر منہ میں پانی آنے لگا ہے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے لیے تو بس دُعا ہےکہ یہ صفحہ یونہی گل ہائے رنگارنگ سے سجا رہے۔ (جاوید اقبال، بلدیہ کالونی، چشتیاں، ضلع بھاول نگر)

ج:آج تو ’’خوش آمدید‘‘ سنگھاسن پر ہو رہی ہے، تو اب تو آپ کی خوشی دیدنی ہوگی۔

گوشہ برقی خُطوط
  • مجھے صرف یہ پوچھنا ہے کہ ’’عبداللہ III‘‘ کیا آن لائن دست یاب ہے اور عبداللہ I اور II کہاں سے ملیں گے۔ دراصل مجھ سے ہر اتوار نئی قسط کا انتظار نہیں ہوتا۔ (ماہا خان)

ج:انتظار تو کرنا پڑے گا کہ ’’عبداللہ III‘‘ ہاشم ندیم خصوصی طور پر جنگ، سنڈے میگزین ہی کے لیے لکھ رہے ہیں۔ ہمارے یہاں ہی چَھپے گا، تو تم پڑھ پاؤگی۔ دوسری صُورت صرف یہ ممکن ہے کہ تم ہاشم ندیم کا دماغ پڑھ لو۔ اور ہاں عبداللہI اور IIکتابی شکل میں ضرور مارکیٹ میں دست یاب ہیں۔

  • کبھی کبھی آپ کے جوابات کچھ تُرش سے معلوم ہوتے ہیں۔ مانی بھائی (رنجش ملک) تو بائے بائے ہی کہہ گئے۔ اور ہاں، ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں میڈم کوثر خان کے لیے ان کے شاگرد کا خراجِ تحسین دل چُھو گیا۔ (محمد اسلم پراچہ)

ج:ہمارے جوابات کبھی کبھی نہیں، اکثرو بیش تر ہی ترش  ہوتے ہیں اور وجہ یہ ہے کہ ’’سچ‘‘ ہمیشہ کڑوا ہی لگتا ہے۔ ہر ایک کے حلق سے بآسانی نیچے نہیں اُترتا۔

  • یہ آپ کا اخبار اور میگزین دن بہ دن چھوٹے سے چھوٹا کیوں ہوتا جارہا ہے۔ تحریر اتنی باریک ہوتی جارہی ہے کہ لگتا ہے کچھ عرصے میں پڑھنے کے لیے مائکرو اسکوپ استعمال کرنا پڑے گا۔ کچھ تو انسانیت کا مظاہرہ کریں اورخدا کا خوف رکھیں۔ پھر آپ کے اخبار کی قیمت بھی دوسرے اخبارات سے زیادہ ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ جس طرح موبائل کی سِمز مسلسل چھوٹی ہورہی ہیں، کچھ عرصے بعد اخبار بھی نانو سِم سائز کا ہوجائے گا۔ (شاہد فاروق)

ج: آنے والے وقت کا ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔ میڈیا انڈسٹری کے حالات آپ کے سامنے ہیں۔ کئی اخبارات، چینلز تو سِرے سے بند ہی ہوگئے ہیں۔ فی الحال تو جو میسّر ہے، اُسے غنیمت سمجھیں اور ورکرز کو ملامت کرنا بھی بند کریں کہ ان معاملات سے ایک عام صحافی کا کچھ لینا دینا نہیں۔ ہم تو خود چکّی کے دو پاٹوں میں پِس رہے ہیں۔ اس کے باوجود بھی اپنی ذمّے داریاں بحسن و خوبی نبھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہاں، البتہ آپ کی یہ بات بالکل غلط ہے، روزنامہ جنگ کی قیمت، دوسرے اخبارات سے ہرگز زیادہ نہیں۔

قارئین کرام !

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

تازہ ترین