• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت کے لاکھوں مسلمانوں نے تحریکِ پاکستان میں قائداعظم محمد علی جناح کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے نعرے لگائے تھے کہ ’’لڑکے لیں گے پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان، بن کے رہے گا پاکستان.....‘‘اس جرم پر اکثریتی ہندوئوں نے اقلیتی مسلمانوں سے ایسا خونی بدلہ لیا کہ شہر، گائوں اور قصبوں کے قصبے اجاڑ دیئے۔ 

اس کے بعد کی داستان بڑی طویل ہے۔ مختصراً بس اتنا عرض ہے کہ لاکھوں مسلمانوں کے قتلِ عام کے بعد جب پاکستان معرضِ وجود میں آگیا، تو قائد اعظم نے فرمایا کہ ’’بہار نے اپنا حق ادا کردیا اور پاکستان بن گیا، جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو ایک آزاد ملک حاصل ہوا۔‘‘ قیامِ پاکستان کے بعد قائد کی آواز پر لاکھوں مسلمانوں نے اپنے آبائو اجداد کی میراث اور قبریں چھوڑ کر مشرقی اور مغربی پاکستان ہجرت کی اور نئے سرے سے زندگی کی شروعات کرکے پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصّہ ڈالنے لگے۔ 

تاہم، بدقسمتی سے مشرقی پاکستان میں ملک دشمن قوتوں اور بااثر ہندوئوں نے،جو پہلے ہی سے قیامِ پاکستان کے خلاف تھے، بنگالیوں کو یہ باور کروانا شروع کیا کہ ان کا ہر شعبہ زندگی میں استحصال کیا جارہا ہے، چناں چہ پاکستان اپنے قیام کے چند برسوں بعد ہی سے عدم استحکام کا شکار ہونے لگا اور پھر اغیار کی مسلسل سازشوں کے نتیجے میں بالآخرسقوطِ ڈھاکا کا سانحہ رونما ہوگیا۔ 

16دسمبر 1971ء کو اَن گنت آرزوئوں، امنگوں اور بیش بہا قربانیوں کے نتیجے میں حاصل کیے گئے ملک کا مشرقی بازو ہم سے جدا ہوگیا۔ یہ ہماری تاریخ کا وہ سیاہ ترین باب ہے، جو ہم کبھی نہ بُھلاسکیں گے۔ اس سانحے کے 48برس بعد بھی ہم ہر سال اس کے محرّکات پر غور کرتے ہیں، اس حوالے سے مختلف فورمز، سیمینارز منعقد کرواتے ہیں اور چند ایک مقامات پر دعائیہ تقاریب اور محافل کا انعقاد کرکے بھی رسمی طور پر اس دن کی یاد مناتے ہیں، لیکن سقوط ڈھاکا کے نتیجے میں وہاں محصور ہوجانے والے ان محبِ وطن پاکستانیوں کو یک سر فراموش کرچکے ہیں، جنہوں نے مارچ 1971ء میں شروع کیے جانے والے فوجی آپریشن سے قبل اور اس کے بعد بڑے پیمانے پر جان و مال کی قربانیاں دیتے ہوئے یہ بھی نہ سوچا کہ افواجِ پاکستان کے واپس چلے جانے کے بعد ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ 

وہ پاکستان کی محبت میں حکومت کی جانب سے قائم کی جانے والی ’’ایسٹ پاکستان سول آرمڈ فورسز‘‘ (EPCAF) اور ’’مجاہد فورس‘‘ وغیرہ میں شامل ہوکر افواجِ پاکستان کے شانہ بشانہ جواں مَردی سے لڑے۔ اس دوران انہیں پاکستان سے محبت کی پاداش میں سخت جارحیت اور وحشت و بربریت کا نشانہ بنایا گیا، لیکن اس کے باوجود وہ پاکستانی فوج کا ساتھ دیتے رہے اور مُلک بچانے کی کوششوں میں حتی الامکان تعاون کیا۔

بنگلادیش کے قیام کے بعد ان پاکستانیوں کو فوری طور پر پاکستان لایا جانا چاہیے تھا، لیکن افسوس اس دل دوز سانحے کے اتنے عرصے بعد بھی یہ مظلوم، بے بس پاکستانی ابھی تک بنگلادیش کے کیمپوں میں پڑے اپنی تقدیر کے فیصلے کے منتظر ہیں۔ اس حوالے سے اگرچہ اسّی کی دہائی میں کافی پیش رفت ہوئی، جس کے بعد توقع کی جانے لگی کہ اب یہ مسئلہ عن قریب حل ہوجائے گا، اور محبِ وطن محصورین جلد اپنے وطن واپس آجائیں گے۔ 

اس ضمن میں 9جولائی 1980ء کو اُس وقت کے صدر، جنرل ضیاء الحق نے ’’رابطہ عالم اسلامی‘‘ کے مالی تعاون سے ’’رابطہ ٹرسٹ برائے محصورین‘‘ تشکیل دیا۔ پنجاب میں اُس وقت کے وزیراعلیٰ، نواز شریف نے 34 اضلاع میں 40ہزار خاندانوں کی آبادکاری کے لیے مفت زمین مختص کی، مگربدقسمتی سے ضیاء الحق کے حادثاتی موت اور بے نظیر بھٹو کے اقتدار سنبھالتے ہی یہ معاملہ سرد خانے کی نذر ہوگیا۔ پھر 1992ء میں نواز شریف کے اقتدار میں آنے کے بعد، اُن کے اور بنگلادیش کی وزیراعظم خالدہ ضیاء کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت محصورین کی رائے شماری کروائی گئی اور انہیں شناختی کارڈ جاری کیے گئے، جن کی کل تعداد 2لاکھ 38ہزار 650ریکارڈ کی گئی۔ 

ان میں سے اُن نادار خاندانوں کو، جن کا کوئی مرد سربراہ نہیں تھا، فوری طور پر پاکستان لانے کا معاہدہ ہوا، جس کے تحت میاں چُنوں اور اوکاڑہ میں رابطہ ٹرسٹ کو 3ہزار مکانات کی تعمیر کے احکامات بھی جاری کیے گئے، جن میں سے 1000مکانات کی تعمیر مکمل ہونے پر 10جنوری 1993ء کو 56خاندانوں کا پہلا قافلہ اُس وقت کے وزیراعلیٰ، پنجاب، غلام حیدر وائیں مرحوم کی نگرانی میں پنجاب میں آباد بھی ہوا، مگر پھر نواز شریف کی حکومت ختم کردی گئی، تو ٹرسٹ کا کام بھی روک دیا گیا۔

بلاشبہ، سقوطِ ڈھاکا کے نتیجے میں اور بھی بہت سے المیوں نے جنم لیا، لیکن حقیقتاً سب سے زیادہ تکلیف دہ صورتِ حال اُن محب وطن پاکستانیوں کے لیے پیدا ہوئی، جن کا سب کچھ پاکستان تھا، اپنی اسی شناخت کی بِنا پر انہوں نے سقوطِ ڈھاکا سے قبل اذیّتیں برداشت کیں، گھر بار لٹائے، جانیں دیں اور بالآخر اپنے ہی ملک میں نفرت و اجنبیت کا نشانہ بن کر رہ گئے۔ کسی بھی پہلو سے دیکھا جائے، توان لوگوں کا سوائے اس کے کوئی قصور نہیں کہ وہ نظریۂ پاکستان سے گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ 

حالاں کہ 48سال سے بنگلا دیش کے 70کیمپوں کے غیر انسانی ماحول میں جانوروں سے بدتر زندگی بسر کرنے والے ان محبِ وطن پاکستانیوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ان محصورین کی زیادہ تر جھونپڑیاں محکمہ ریلوے کی زمینوں کے علاوہ ان علاقوں میں قائم ہیں، جہاں کی زمینیں انتہائی قیمتی تصور کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دارالحکومت ڈھاکا سمیت ملک بھر میں قائم متعدد کیمپوں میں رہایش پذیر محصورین کو بے جا تنگ کیا جاتا ہے، آئے روز کیمپوں کو سپلائی کی جانے والی بجلی منقطع کردی جاتی ہے، جس کے باعث یہ متعدد مسائل سے دوچار ہیں۔ 

قصداً جھونپڑیوں میں آگ لگادی جاتی ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ ماہ ’’درگاہ مل کیمپ، سیت پور‘‘ میں پیش آیا، جہاں شرپسندوں نے 50سے زائد جھونپڑیوں کو آگ لگادی، جس کے نتیجے میں متعدد بچّے جھلس کر زخمی ہوگئے اور محصورین سخت ترین سردی میں اب تک کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔ ان کی داد رسی اور امداد کے لیے محصور پاکستانیوں کی تنظیم ’’ایس پی جی آرسی‘‘ کے نمائندوں نے پاکستان ایمبیسی سے متعدد بار رابطہ کیا، لیکن آج تک کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا گیا۔

گزشتہ 48برس سے التواء کے شکار اس انسانی المیے پر اگرچہ پاکستان کے سیاسی، سماجی رہنمائوں، وکلاء اور انسانی حقوق کے علم برداروں نے مختلف فورمز پر آوازیں بلندکیں، لیکن نتیجہ صفر ہی رہا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر محصور پاکستانیوں کی وطن منتقلی کس طرح ممکن ہے؟ لگ بھگ نصف صدی پر محیط ’’محصورینِ پاکستان‘‘ کے اس المیے کو کیا نام دیا جائے؟ ان کی پاکستان منتقلی اور آبادکاری میں درحقیقت کیا رکاوٹیں حائل ہیں؟ اس مسئلے پر عالمی ضمیر کی خاموشی اور اپنوں کی خودفراموشی کو کس نگاہ سے دیکھا جائے؟ کیا محصورین کا پاکستان میں بسنے کا خواب کبھی شرمندئہ تعبیر ہوسکے گا؟ انہیں کب، کس طرح پاکستان لاکر بسایا جائے گا اور کون بسائے گا؟ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہ ڈھائی لاکھ محصور پاکستانی درحقیقت ہمارا قومی اثاثہ ہیں، مگر انہیں پاکستان واپس لانے کے لیے ایک ایسے حاکم کی ضرورت ہے، جو ان کی مشکلات دل سے محسوس کرسکے۔ تو کیا ’’تبدیلی‘‘ کا نعرہ لگانے والے موجودہ وزیراعظم پاکستان، جناب عمران خان اس حوالے سے کوئی عملی قدم اٹھانے کو تیار ہیں؟

تازہ ترین