ٹھہرے ہوئے پانی میں جب ہم ایک ننھاسا کنکرپھینکتے ہیں تو اَن گنت دائرے پانی کی سطح پرابھرکراِک ہلچل سی مچادیتے ہیں۔پانی کا سکوت یک دم ٹوٹ جاتا ہے۔گرچہ یہ ہلچل ہوتی تو چند ساعتوں کے لیے ہے ،لیکن ایک طویل سکوت توڑ ضرور دیتی ہےاور....جس کے بعد دوبارہ وہی سکوت پھیل جاتا ہے۔ترقی پذیر معاشروں کا یہی المیہ ہے کہ یہاں پھیلے ہوئے جمود یا سکوت پر ایک ننھا پتھر یا مہین سی کوشش ہلچل تومچا دیتی ہے، لیکن بہت بڑی لہر نہیں بن پاتی۔بس ،گاہے بگاہے کوئی یہاں’’ تبدیلی‘‘ کا پتھر پھینک جاتا ہے۔خواتین کے حقوق کے استحصال کی طرف توّجہ دلانے کے لیے بھی ایسی ہی کئی کوششیں اکثرو بیشتر کی جاتی ہیں ،لیکن ہر بدلتے سال کے اعدادو شمار اس طبقے پر ہونے والے ظلم کا نوحہ پڑھتےہی دکھائی دیتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں کو ن ساظلم ہے ،جو عورتوں کے ساتھ روانہیں رکھا جاتا، غیرت کے نام پر قتل سے لے کر تیزاب پھینکنے تک ،کم سِنی کی شادی، بے جوڑ شادیاں، زنا بالجبر حتی کہ زندہ دفنا دینے تک جیسے مظالم اکیسویں صدی میں بھی چیلنج بن کرہمارے سامنے ہیں۔بظاہر خواتین کو آئین میں مَردوں کے برابر حقوق تفویض کیے گیے ہیں، لیکن معاشرہ تاحال انکاری ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کےاعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال ایک ہزار خواتین غیرت کے نام پر قتل ،جب کہ 21فی صد لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر دی جاتی ہے، مگر خواتین کے خلاف جرائم کی شرح سے متعلق حتمی اعدادوشماراوّل تو دستیاب ہی نہیں اور جو میّسر بھی ہیں،وہ نامکمل اور مبہم ہیں۔
جارج ٹاؤن انسٹیٹیوٹ کی جانب سے اکتوبر 2019میں جاری کردہ رپورٹ میں تین مختلف زاویوں سے خواتین کی فلاح اور ان کی زندگی میں بہتری کا تعین کیا گیاہے۔جن میں معاشی، سماجی اور سیاسی شمولیت، قانون تک رسائی، اپنے علاقوں، خاندان اور سماجی سطح پر تحفظ کا احساس شامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خواتین کی ایک بڑی تعداد معاشی طور پر خود مختار نہیں ہے،گرچہ مجموعی طور پر بینک اکاؤنٹ کھولے جانے کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، لیکن صرف سات فیصد خواتین کے پاس ذاتی بینک اکاؤنٹ ہیں جب کہ مردوں کی 35 فیصد تعداد کےاپنے بینک اکاؤنٹ ہیں۔ 34 ممالک میں انصاف سے متعلق صنفی مساوات کا تناسب کم ہوا ہے۔ اس حوالے سے سب سے خراب کارکردگی پاکستان کی ہے۔
رپورٹ میں بڑھتے ہوئےگھریلو تشددپر تشویش اورمردوں اور خواتین کی تنخواہوں میںبرابر ی نہ ہونے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا ، پاکستان کے 75 فیصد مردوں کی رائے میں ان کے لیے یہ ناقابل قبول ہے کہ خواتین ایسی ملازمت کریں جن سے انہیں کوئی معاوضہ وصول ہو۔ بنگلہ دیش، عراق، لیبیا اور افغانستان میں ایسے خیالات رکھنے والے مردوں کی تعداد پچاس فیصد ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سماجی لحاظ سے پاکستان میں خواتین کے تحفظ کے احساس میں کچھ حد تک بہتری آئی ہے۔اس حوالے سے پاکستانی خواتین کا کہنا ہے کہ وہ شام کے اوقات میں اپنے محلے میں تنہا چلتے ہوئے غیر محفوظ محسوس نہیں کرتیں،جبکہ بھارت میں خواتین پر تشدد اور ان کو جنسی ہراساں کرنے کے واقعات ہر گزرتے سال کے ساتھ بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جو کہ گزشتہ8برس سےخواتین کے لیے سب سے خطرناک ملک ثابت ہورہا ہے۔ بھارت کو تین وجوہ کی بنا پر خواتین کے حوالے سے خطرناک ترین ملک قرار دیا گیا ہے۔ ایک جنسی ہراسیت اور جنسی تشدد کے خطرات جن کا سامنا بھارتی خواتین کو روزانہ کرنا پڑتا ہے، دوئم سماجی اور روایتی رسوم و رواج کے سبب اور سوئم خواتین، لڑکیوں اور بچیوں کی تجارت ہے، جس کے تحت انہیں جبری شادی، جنسی غلامی اور گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
رپورٹ میں دنیا کے 167 ممالک کا جائزہ لیا گیا تھا۔ خواتین کے حوالے سے بدترین ممالک میں پاکستان کے علاوہ لیبیا، عراق، کانگو، جنوبی سوڈان، بھارت، شام، افغانستان، وسطی افریقی ریاست شامل ہیں،خواتین کی فلاح اور ان کی معیار زندگی کے لحاظ سے ناروے دنیا کا سب سے بہترین ملک ہے۔ جرمنی کا نمبر اس فہرست میں سترہواں ہے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں حالت زندگی بہتر بنانے ،عورتوں اور بچوں کی صحت و تعلیم کے حوالے سے ترقی یافتہ ممالک امداد کے ذریعے اپناکردار ادا کرتے ہیں اور ایک عرصے سے پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک میں خواتین کے حالات زندگی بہتر بنانے کے لیے ترقی یافتہ ممالک کی امداد سے ترقیاتی کام کیے جاتے ہیں تاہم اس مرتبہ پاکستان میں بڑھتے ہوئےصنفی امتیاز کے پیش نظر ستر سال میں پہلی بارآسٹریلیا نے پاکستان کی دو طرفہ امداد ختم کردی۔
آئندہ سال سے آسٹریلیا پاکستان سے حکومتی سطح کی تمام ترقیاتی معاونت ختم کردے گا،رواں برس شائع ہونے والی آسٹریلوی اخبار کی خبرکے مطابق موریسن حکومت پاکستان میں غریب خواتین اور لڑکیوں کی مدد کرنے والے کامیاب پروگراموں کی معاونت سمیت تما م دو طرفہ پروگرام ختم کردے گی کیونکہ ترقیاتی امداد کے فنڈز پیسفک خطے میں نئے اقدامات کے لئے مختص کر دیئے گئے ہیں۔
پاکستان کے لیے آسٹریلوی امداد کا ایک اہم مقصد خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دینے ، معیاری تولیدی صحت تک رسائی میں اضافہ اور صنف پر مبنی انسداد تشدد میں مدد فراہم کرنا ہے،تاہم یہاں بڑھتے ہوئے صنفی امتیاز کے سبب امدا د بند کردی گئی۔ پاکستان ایشیاء کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے اور اسے اقوام متحدہ کے حالیہ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس میں 178 ممالک میں سے صحت ، تعلیم اور آمدنی کے لحا ظ سے 150ویںدرجے پررکھا گیا ہے۔
پاکستانی معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ یہاں قدیم روایات کے تابع مخصوص مائنڈ سیٹ ہر طبقے کی حکمرانی کرتا ہے،یہ مائنڈ سیٹ عورت کو غلام یا نچلے درجے کی مخلوق سمجھتا ہے ۔بدقسمتی سے کچھ فرسودہ روایات جیسے ونی، غیرت کے نام پر قتل، کم عمری کی شادیاں وغیرہ اپنی جڑیں اس قدر مضبوط کر چکی ہیں کہ ان سے جان چھڑوانا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ فرسودہ روایات کی زد میں ہمیشہ عورت ہی آتی ہے۔
ان غیرانسانی رسموں اورجابرانہ سوچ اور رویوں نے اکیسویں صدی میں بھی اپنے دہشت ناک پنجے گاڑے ہوئے ہیں ۔ 26 نومبر2019کوسندھ کے ضلع قمبر شہداد کوٹ میں مقامی جرگے نے قتل کے جرم میں ملزم پر 90 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا، اس جرمانے کے تحت اسے اپنی دو بچیوں کا رشتہ بھی دینا ضروری ٹھہرایا گیا۔
اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے پابندی کے باوجود سندھ میں جرگے جاری ہیں، جن میں انسانی جان کی قیمت 90 لاکھ مقرر کی گئی ہے،جب کہ جرمانے میں دو بچیوں کا رشتہ دینا بھی شامل ہے ، جرگے کا فیصلہ سن کر متاثرہ فریق نے اہل خانہ کے ہمراہ احتجاجی مظاہرہ کیا، پولیس نے نوٹس لے لیا،اس حوالے سے تادم تحریر تحقیقات جاری ہیں۔ملک میں ونی کی اس فرسودہ اور گھناؤنی رسم کے خلاف قانون موجود ہے جو 16 سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی زبردستی شادی یا ونی کے خلاف ہے۔
گزشتہ برسوں میں اس قانون میں ترامیم بھی کی گئی ہیں جس کے تحت ونی میں ملوث افراد کو دس سال قید یا دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی جا سکتی ہے، لیکن اس کے باوجود یہ رسم ایک سنگین سماجی برائی کے طور پر معاشرے میں موجود ہے۔اسی طرح سندھ کے دیہی علاقوں میں نام نہاد غیرت یا ’’کارو کاری‘‘ کے نام پر قتل کے واقعات بلاروک ٹوک جاری ہیں۔
سرکاری اعدادو شمار کے مطابق جنوری سے جون 2019 تک سندھ کے مختلف حصوں میں تقریباً 78 لوگ قتل ہوئے ،جبکہ کاروکاری کے نام پر 65 کیسز رجسٹرڈ ہوئے، تاہم ان میں سے 90 فیصد کیسز مختلف وجوہات کے باعث زیرالتوا ہیں، اس کے علاوہ زیادہ تر کیسز میں پولیس کی تحقیقات کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکیں، جبکہ کچھ ملزمان کو بری کرنے کی اجازت دےدی گئی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے سخت تنقید کے باوجود یہ گھناؤنا رجحان جسے دیہی نظام کا حصہ قرار دیا جاتا ہے، بلاروک ٹوک جاری ہے، تاہم پولیس کے لیے اس طرح کے قتل کی موثر طریقے سے تفتیش کرنا مشکل ہے ،کیونکہ زیادہ تر معاملات میں متاثرین اور ملزمان ایک ہی خاندان یا قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔اسی طرح غیرت کے نام پر قتل’’کاروکاری‘‘آج بھی سندھ دھرتی کے دامن پر بدنما داغ ہے،جس کی تازہ مثال گزشتہ ماہ سامنے آئی ہے، کھیر تھر پہاڑ کے سندھ و بلوچستان کے سرحدی علاقے میں رند قبیلے کے گاؤں کی، گیارہ سالہ طالبہ گل سمان رند اس رسم پر قربان ہو کر منوں مٹی تلے جا سوئی۔
اس کاجرم فقط اتنا تھا کہ قریبی عزیزوں نے تیرہ سالہ گل سمان رند کا رشتہ مانگا۔کم عمر ہونے کی وجہ سے والدین نے رشتہ دینے سے انکار کردیا،علاقہ مکینوں کے مطابق چند ماہ بعد عزیزوں نے گل سمان پر کاری کا الزام لگادیا اور جرگے نے سنگسارکرنے کا فیصلہ سنادیا ۔سماج کے انسان نما درندوں نے جرگے کے فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے پتھر مار مار کر گل سمان رند کوقتل کر دیا اور بطور ثواب قبر کو بھی پھانسی دے دی۔
مذکورہ کیس کی تفتیش جاری ہے، اس حوالے سےسندھ اسمبلی میں صوبائی وزیر بہبود آبادی شہلا رضا نے خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور تشدد سے متعلق قرار داد پیش کی، جس کا مقصد جنسی تشدد کے خلاف مہم اور خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام تھا ۔ ایوان نے قرار داد متفقہ طور پر منظور کرلی۔
ملک کے پسماندہ اوررقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبےبلوچستان میں بھی رواں برس خواتین پر تشدد اور غیرت کے نام پر قتل کے کئی کیسز سامنے آئے۔خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم کے مطابق صوبہ بلوچستان میں گذشتہ 11 ماہ کے دوران غیرت کے نام پر 52 افراد کو قتل کیا گیا،جن میں نصف واقعات صرف تین اضلاع نصیر آباد، جعفر آباد اور کچھی میں رپورٹ ہوئے ،جن کے مطابق بلوچستان میں ہر دوسرے دن ایک عورت قتل یا تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔
جنوری سے نومبر2019 تک خواتین پر تشدد کے 118 واقعات ریکارڈ کیے گئے، جن میں 69 خواتین اور 11 مرد قتل ہوئے۔ سب سے زیادہ 43 خواتین اور نو مردوں کو غیرت کے نام پر ’سیاہ کاری‘ کا نام دے کر قتل کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق نصیر آباد میں اس سال 16، جعفرآباد میں آٹھ اور ضلع کچھی میں پانچ افراد کو قتل کیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں مقتولین پر بظاہر ناجائز جنسی تعلقات کا الزام لگایا جاتا ہے مگر اصل محرکات کچھ اور ہوتے ہیں،جن میںباہمی تنازعات، لین دین اور جائیداد کے جھگڑوں کی وجہ سے بھی لوگوں کو قتل کرکے انہیں ’سیاہ کار‘ کہا جاتا ہے۔ ایسے واقعات کو رسم و رواج اور قبائلی روایات کا نام دے دیا جاتا ہے ،جس کی وجہ سے پولیس اور انتظامیہ بھی ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے سے کتراتی ہے۔اسی طرح نصیر آباد ڈویژن میں خواتین کو وراثت کے حق سے محروم کرنے کے لیے ان کی قرآن سے شادی کرانے کے واقعات کی شرح بھی زیادہ ہے۔
جو خواتین ایسا نہیں کرتیں انہیں غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں رواں سال خواتین پر گھریلو تشدد کے صرف تین واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ چار خواتین اغوا ہوئیں۔ گھریلو تشدد کے واقعات یقیناً اس سے زیادہ ہیں مگر انہیں رپورٹ نہیں کیا جاتا۔ خواتین پر تیزاب پھینکنے کے تین واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔غیرسرکاری تنظیم کے اعدادو شمار کےمطابق صوبے میں رواں برس 17 عورتوں نے گھریلو حالات سے تنگ آ کر خودکشی کی۔ خودکشی کے چھے واقعات صرف ایک ضلعے لورالائی میں رپورٹ ہوئے۔
ان واقعات کی وجہ غربت، بے روزگاری اور گھریلو جھگڑے ہیں۔ محکمہ ترقی نسواں اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین سمیت دیگر مقامی تنظیموں نے صوبے میں خواتین پر تشدد کے بڑھتے واقعات کی روک تھام اور خواتین کے حقوق سے آگاہی کے لیے مہم کا آغاز بھی کیاتھا۔خواتین کے حقوق اجاگر کرنے کے لیے ہمیشہ کی طرح رواں برس بھی مختلف پلیٹ فارمز پر آواز اٹھائی گئی۔عالمی یوم خواتین 2019 کوملک بھر میں خواتین نے ’’عورت مارچ ‘‘بھی نکالااور حقوق کے لیے مظاہرے کیے ،خواتین نے سڑکوں پر آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔
عورت مارچ کے موقعے پر کچھ خواتین نے ایسے متنازعہ پلےکارڈز بھی اٹھائے ہوئے تھے، جن پر عورت کی آزادی کو یقینی بنانے اور ان کا معاشرتی اور گھریلو سطح پر ہونے والے مبینہ استحصال کا خاتمہ کرنے کی بات کی گئی تھی، کچھ حلقوں نے ان پلے کارڈز کو ’فحش اور نازیبا‘ بھی قرار دیا تھا،تاہم ان نعروں نے پاکستانی معاشرے کے ہر مکتبہ فکر،اہلِ دانش اور طبقے کی توجہ اپنی جانب مبذل کروا لی۔
سال2019میں غیرت کے نام پر قتل کے ایسے مقدمات کے فیصلے بھی سنائے گئے جو سالہا سال سے سنے جارہے تھے۔ 2012 میں ضلع کوہستان کے گاؤں عذر پلاس میں شادی کی ایک تقریب کی ویڈیو وائرل ہوئی،جس میں لڑکوں کوروایتی رقص کرتے اور پانچ لڑکیوں کو تالیاں بجاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد رقص کرنے والے بن یاسر اور گل نذر کے بھائی افضل کوہستانی نے دعویٰ کیا تھا کہ وڈیو میں نظر آنے والی لڑکیاں بازغہ، سیرین جان، بیگم جان، آمنہ اور ان کی کم عمر مددگار شاہین کو جرگے کے حکم پرذبح کر کے قتل کر دیا گیا ہے۔ مختلف پیچیدگیوں اور مراحل سے گزر کر بالآخراگست 2018میں یہ مقدمہ درج ہوا اور آٹھ ملزمان کو حراست میں لیا گیا۔مقدمے کی کارروائی سات ماہ تک جاری رہی۔
اس دوران4 مارچ 2019 کو اس معاملے کو منظرِ عام پر لانے والے افضل کوہستانی کو بھی ایبٹ آباد میں فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا ۔وہ ویڈیو ا سکینڈل کے واحد مدعی اور مرکزی گواہ تھے۔ستمبر 2019کو ضلع شانگلہ کے شہر بشام میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے فیصلہ سناتے ہوئے تین ملزمان عمر،صبیر اور صغیر کو عمر قید کی سزا سنائی جبکہ پانچ ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا۔غیرت کے نام پر قتل کی ایک اور مثال ماڈل اور سوشل میڈیااسٹار قندیل بلوچ کی صورت میں معاشرے میں موجود ہے،جن کے کیس کا فیصلہ بھی رواں برس سنادیا گیا۔
قندیل بلوچ کو 15جولائی 2016کوملتان کے علاقے مظفرآباد میں ان کے آبائی گھر میں بھائی نے غیرت کے نام پرقتل کردیا تھا۔یہ کیس 3 سال 2 ماہ اور 11 دن تک عدالت میں زیر سماعت رہااور بالآخر اس کا فیصلہ27ستمبر 2019کو سنا دیا گیا۔ عدالت نے فیصلے میںمرکزی ملزم وسیم کے علاوہ دیگر چھے ملزمان مفتی عبدالقوی،اسلم شاہین، عارف، ظفرحسین ، عبدالباسط اور حق نواز کو بری کر دیا،جن میں قندیل بلوچ کے دو بھائی اسلم شاہین اور عارف بھی شامل ہیں،جبکہ ان کے ایک بھائی کو مقدمے میں نامزد ہونے کے باوجود پیش نہ ہونے پر اشتہاری قرار دے دیا گیا۔
2019ءمیں قومی اسمبلی میں خواتین کو مقام کار پر ہراساں کرنے سے تحفظ فراہم کرنے کے ایکٹ 2010ء میں مزید ترمیم کرنے کا بل ’’مقام کار پر خواتین کو ہراساں کرنے سے تحفظ فراہم کرنے کا (ترمیمی) بل 2019ء پیش کیاگیا۔درحقیقت مسئلہ یہ ہے کہ قوانین تو بن جاتے ہیں ان پر عمل درآمد ہونا زیادہ اہم ہوتا ہے، ہمارے معاشرے میں جب بھی کوئی عورت جنسی ہراسانی کی شکایت کرتی ہے اسے فوراً نفرت آمیز رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس لئے عورت ہزار بار سوچتی ہے کہ وہ یہ بات کہے یا نہ کہے۔ اس میں اکثر خاصا وقت بھی لگ جاتا ہے۔
پاکستان جیسے معاشروں میں جنسی ہراسانی کی شکایت کرنا ایک انتہائی دلیرانہ فیصلہ ہوتا ہے۔ سب سے پہلے سوال ہی یہ کیا جاتا ہے کہ ’اس سے پہلے یہ بات کیوں نہ کی‘حالانکہ جنسی ہراسانی کی شکایت جب بھی کی جائے اس کی تحقیق کرنا ضروری ہے۔دنیا بھر کی طرح یہاں بھی خواتین کو ہراساں کیے جانے کے واقعات کی خبریں آئے دن پڑھنے کو ملتی ہیں بلکہ اب تو چند خبریں مردوں کو ہراساں کرنے کی بھی سامنے آ چکی ہیں۔
خواہ وہ دفتر ہو، بازار یا تعلیمی ادارے، ہراساں کرنے کے الزامات کی آوازیں ہر جانب سے سنائی دیتی ہیں۔رواں برس گلوکارہ رابی پیرزادہ کی برہنہ اور نیم برہنہ تصاویر اور ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں اور ان کا نام ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بنا رہا، یہی نہیں بلکہ بلوچستان یونیورسٹی میں خفیہ کیمروں سے ویڈیوز بنا کر طالبات کو بلیک میل کرنے اور لاہور کے ایم اے او کالج کے لیکچرار پر لگے الزامات کے بعد خود کشی کا واقعہ بھی سامنے آیا۔
صوبہ پنجاب کے شہر لاہور کے ایم اے او کالج میں انگریزی کے لیکچرار افضل محمود نے ایک خاتون طالب علم کی جانب سے ہراساں کرنے کے الزام اور تحقیقات میں الزام درست ثابت نہ ہونے کے باوجود کالج انتظامیہ کی جانب سے تصدیقی خط جاری نہ کرنے پر نو اکتوبر 2019کو خود کشی کر لی تھی۔سرکاری اعدادوشمارکے مطابق 2019 ہی میں350افراد نے جنسی ہراسانی کی شکایت درج کروائی،رواں سال بلوچستان میں ملازمت کی جگہوں پر جنسی ہراسانی کے صرف دو واقعات رپورٹ ہوئے۔
غیر سرکاری تنظیم میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی نے رواں برس آن لائن پلیٹ فارمز پر صحافی خواتین کو ہراساں کیے جانے سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی،جس کے مطابق 95 فیصد صحافی خواتین کا کہنا ہے کہ آن لائن پلیٹ فارمز پر ہونے والی ہراسانی کی وجہ سے ان کا کام متاثر ہوتا ہے جبکہ 77 فیصد کے مطابق وہ خود کو سینسر کر لیتی ہیں۔ہراسانی کا ایک اور واقعہ اپریل 2018کو پیش آیا،جب لاڑکانہ میں ایک تقریب کے دوران مقامی اسٹیج گلوکارہ ثمینہ سندھو کو گانے کے ساتھ ڈانس نہ کرنے پرقتل کردیا گیا۔
ابتداء میں اس واقعے کوپولیس کی جانب سے اتفاقیہ قرار دیا گیا،لیکن واقعے کی ویڈیو منظرعام پر آنے کے بعد مقدمہ درج ہوا،بعدازاں18نومبر 2019 کو لاڑکانہ کی انسداد دہشت گردی عدالت نے طارق جتوئی کو مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا سنادی۔علاقے میں اثرو رسوخ رکھنے کے باعث مجرم کے خلاف پولیس اس وقت تک حرکت میں نہیں آئی جب تک واقعے کی ویڈیوسوشل میڈیا پر وائرل نہ ہوگئی۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں عورت کو وراثتی حقوق یا جائیداد کی ملکیت دینے کی شرح کم ترین ہے۔رواں برس جائیداد میں حصے اور ملکیت کے حقوق سے متعلق کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم آئی پی آر آئی نے جائیداد کی ملکیت کے حقوق دینے والے 127 ممالک کی رینکنگ میں پاکستان کو 121ویں نمبر پر رکھا تھا۔
اکتوبر2019میںخیبرپختونخوا (کے پی) اسمبلی نے خواتین کو وراثتی حق کے تحفظ کےلیے بل منظور کیا،ویمن پراپرٹی رائٹس ایکٹ کے تحت خواتین کو جائیداد کی ملکیت کا حق ہوگا اور یہ قانون خواتین کو اس حوالے سے ہراساں کرنے، دباؤ ڈالنے، فراڈ یا جبر اور اس طرح کے دیگر اقدامات کے ذریعے خلاف ورزی سے روکنے کو یقینی بناتا ہے۔صوبے بھر میں نافذ ہونے والے اس نئے قانون کے مطابق خواتین کی وراثتی ملکیت پر قابض متعلقہ حق دار کو منافع دینے کا پابند ہوگا۔
ویمن پراپرٹی رائٹس بل کے تحت صوبائی خاتون محتسب کے اختیارات میں اضافہ کردیا گیا ہے جو خواتین کو وراثتی حق دلانے میں ڈپٹی کمشنر سے لے کر صوبے کے دیگر اعلیٰ افسران کو احکامات دینے کی مجاذ ہوگی۔وراثت حقوق سے متعلق بل میں عوام کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی دیگر شہری کے لیے صوبائی محتسب کے پاس شکایت کر سکتا ہے۔اسی سال کے پی اسمبلی میں صوبے کے غریب شہریوں اور بالخصوص خواتین کو مفت قانونی معاونت دینے سے متعلق لیگل ایڈ ایجنسی بل بھی منظور کرلیا گیا۔
لیگل ایڈ قانون کے تحت نادار افراد اور خواتین کو جائیداد، جہیز، طلاق اور خاندانی جھگڑوں سمیت دیگر مسائل میں مفت قانونی معاونت دی جائے گی۔2019میں خواتین کے تحفظ کے لیے کی جانے والی سرکاری کوششیں یقیناً قابلِ ستائش ہیں، لیکن ہربرس تواتر سے سامنے آنے والے خواتین کے خلاف مظالم کے واقعات تھمنے کا نام نہیں لے رہے، حکومت کو سنجیدگی سے اس حوالے سے مزید قانونی سازی کرنا ہو گی اور خواتین کے تحفظ کو ہر حال میں یقینی بنانا ہو گا۔
افغان خواتین نے طالبان کی ظالمانہ حکومت کے خاتمے کے بعد سُکھ کا سانس لیا ہے ،تاہم امریکا اور کابل حکومت اِن شدت پسند جنگجوؤں کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہیں تاکہ ملک میں امن قائم کیا جا سکے ،جس سے افغان خواتین میں طالبان کے دوبارہ برسرِاقتدار آنے کا خوف پیدا ہوگیا ہے۔ افغان خواتین اور مردوں نے رواں برس مارچ میں سوشل میڈیا پر ’مائی ریڈ لائن‘ کے نام سے ایک ہیش ٹیگ شروع کیا، جس کے تحت افغان خواتین اپنے حقوق کی بات کرتی نظر آئیں۔
جن میں اکثریت کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بنیادی حقوق سے پیچھے نہیں ہٹیں گی۔افغان خواتین میں حقوق کے حوالے سے خاصا شعور پایا جاتا ہے۔اقوام متحدہ میں افغانستان کی پہلی خاتون سفیر عدیلہ راز کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ انہیں اس بارے میں مکمل یقین نہیں ہے کہ افغان حکومت طالبان سے مستقبل میں ہونے والی بات چیت میں خواتین کے حقوق پر زور دے گی یا نہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے ’گروپ آف فرینڈز آف وومین اِن افغانستان‘‘ کے نام سے اقوام متحدہ میں رواں برس نومبر میں ایک گروپ تشکیل دیا۔
تقریباً 20 ممالک جن میں امریکا، فرانس، قطر، ترکی اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں، کی خواتین سفیر بھی اس گروپ آف فرینڈز میں شمولیت اختیار کرچکی ہیں۔ گروپ کی سربراہی افغان سفیر عدیلہ رازاور برطانوی سفیر کیرن پیئرس کررہی ہیں اور اس کو افریقی یونین، انڈونیشیا کی وزیر خارجہ اور اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل آمنہ محمد کی بھی حمایت حاصل ہے۔’’گروپ آف فرینڈز آف وومین اِن افغانستان‘‘ کی ممبران ،خواتین کے حقوق کے حوالے سے خاصی متحرک ہیں اور وہ یہ یقینی بنانا چاہتی ہیں کہ افغان خواتین ہر شعبے میں شراکت دار ہوں ،وہ قائدین کے طور پر پہچانی جائیں اور امن مذاکرات میں ان کی نمائندگی بھی ہونی چاہیے۔