• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت جسے عالمی برادری دنیا کی سب سے بڑی اور کشادہ دل سیکولر جمہوریہ سمجھنے کی خوش فہمی میں مبتلا تھی، مودی حکومت کے اقدامات کے باعث آج واضح طور پر ایک ایسی ریاست کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جہاں تعصب، تنگ نظری، مذہبی تفریق اور انتہا پسندی کی نئی تاریخ لکھی جا رہی ہے۔ مسلم دشمن شہریت قانون، جس کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے ترکِ وطن کرکے اکتیس دسمبر 2014ء سے پہلے بھارت پہنچنے والے ہندو، عیسائی، سکھ، پارسی، بودھ اور جین مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی لیکن مسلمان اس فہرست سے باہر رہیں گے، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے بعد صدرِ مملکت کی جانب سے بھی منظور کر لیا گیا ہے جبکہ بھارت کی متعدد ریاستوں میں کھلے تعصب پر مبنی اس قانون کے خلاف پُرتشدد احتجاج جاری ہے۔ مغربی بنگال، مشرقی پنجاب، کیرالا، مدھیا پردیش، چھتیس گڑھ کی حکومتیں اور عوام اس متعصبانہ قانون کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ان حکومتوں نے متنازع قانون کو اپنی ریاستوں میں نافذ نہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ احتجاج اور ہنگاموں کا دائرہ نئی دہلی سمیت ملک کے شمال مشرقی علاقوں تک وسیع ہو چکا ہے اور مسلسل پھیل رہا ہے۔ متاثرہ ریاستوں میں انٹرنیٹ اور موبائل سروس معطل ہے۔ پُرخطر صورتحال کی بنا پر جاپانی وزیراعظم نے بھارت کا دورہ ملتوی کر دیا ہے اور حالات لمحہ بہ لمحہ مزید ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔ فی الحقیقت نریندر مودی اور ان کی پارٹی نے سات ماہ پہلے گزشتہ عام انتخابات میں پانچ سال کی نئی مدت کیلئے اقتدار پانے کے بعد اپنے مسلم دشمن ہندو فرقہ پرست چہرے کی ساری نقابیں اتار پھینکی ہیں اور اب بھارت کے طول و عرض میں ہندو انتہا پسندی کا رقصِ وحشت جاری ہے۔ کشمیریوں کے حق خود ارادی پر ڈاکا ڈالنے کے بعد شہریت کا یہ فرقہ پرستانہ قانون نافذ کر دیا گیا جو مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی ایک بدترین مثال اور بھارت کے سیکولر غیر جانبدارانہ کردار کے خاتمے کا حتمی اعلان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے اس قانون کو مسترد کر دیا ہے اور عالمی برادری نے بھی اس کے خلاف واضح طور پر منفی ردعمل ظاہر کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے مطابق متنازع قانون بنیادی طور پر امتیازی ہے جبکہ امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے اسے بھارت کی جمہوری اقدار سے متصادم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’امریکہ بھارت پر زور دیتا ہے کہ وہ اپنے آئین اور جمہوری اقدار کا لحاظ کرتے ہوئے ملک میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرے‘‘۔ اقوام متحدہ اور امریکہ کا یہ ردعمل اگرچہ حقائق کے عین مطابق ہے لیکن موجودہ بھارتی حکمرانوں کو انتہا پسندانہ پالیسیوں سے باز رکھنے کیلئے محض نصیحتیں کافی نہیں۔ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ اقوام متحدہ کے قوانین کے تحت پوری عالمی برادری کی ذمہ داری ہے اور اس کیلئے مختلف ملکوں کے خلاف حسبِ ضرورت سخت اقدامات کیے جانے کی بہت سی مثالیں اقوام متحدہ کی تاریخ میں موجود ہیں۔ مقبوضہ کشمیر اور اس کے بعد پورے بھارت کو مسلمانوں کیلئے اندھیر نگری بنانے سے مودی سرکار کو روکنے کیلئے عالمی برادری کی جانب سے مؤثر مداخلت ضروری ہے جبکہ ایسا نہ ہونے کی صورت میں بھارت کی داخلی بدامنی بڑھ کر نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سطح پر خطرناک نتائج کا سبب بن سکتی ہے۔ نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں کو بھی اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہئے کہ وقت کا پہیہ الٹا نہیں گھومتا اور تاریخ کو پیچھے نہیں دھکیلا جا سکتا، لہٰذا بھارت میں اُس صدیوں پرانے ہندو راج کی واپسی ناممکن ہے جس کا خواب وہ دیکھ رہے ہیں۔ بھارت کے سوا ارب باشندوں کی بھلائی اسی میں ہے کہ مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کو وہ تمام انسانی اور جمہوری حقوق حاصل ہوں جن کا حقدار اکثریت کو سمجھا جاتا ہے۔ ایسا نہ کیا گیا تو داخلی خلفشار کے سبب بھارت خود تاریخ کا حصہ بن جائیگا۔

تازہ ترین