• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

تبدیلی خطرہ مول لینے والے ہی لاتے ہیں، چیف جسٹس

تبدیلی خطرہ مول لینے والے ہی لاتے ہیں، چیف جسٹس


اسلام آباد (نمائندہ جنگ، خبر ایجنسیاں، مانیٹرنگ ڈیسک) چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ پی آئی سی واقعہ افسوس ناک اور قابل مذمت ہے، واقعہ لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے، اس لئے اس پر زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا، جو ہوا نہیں ہونا چا ہئے تھا،طب اور وکالت مہذب پیشے، مہذب پیشے سے تعلق رکھنے والوں کو خود احتسابی کے عمل سے گزرنا ہوگا، امید ہے اس طرح کے واقعات مستقبل میں پیش نہیں آئیں گے، ہم متاثرہ خاندان کےساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں، ماڈل کورٹس کے ذریعے تیز تر انصاف کو یقینی بنایا گیا، ماڈل کورٹس نے مردہ سسٹم میں جان ڈال دی، ہم نے بہت سے برج عبور کرے، سوچ لیا تھا بغیر لڑے نہیں جھکیں گے، میرا بلوچ خون مجھے بھلائی اور خیر کا کام کرنے کے لیے مجبور کرتا ہے، ریاستی کیسز میں ثبوت اور گواہوں کو لانے کی ذمہ داری ریاست کی ہے، تبدیلی وہی لاتے ہیں جو خطرہ مول لینے کو تیار ہوتے ہیں، تنقید کرنے والے تنقید کرتے رہتے ہیں، پولیس کیساتھ ساتھ لیویز کی خدمات بھی قابل تعریف ہیں، معیشت بڑی کمزور، ہم نے جرمانے عائد کرکے 1 اعشاریہ 6 ارب روپے ریاست کو دلوائے۔

ہفتے کو اسلام آباد میں فوری اور سستے انصاف سے متعلق قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم نے نظام میں رہتے ہوئے انصاف میں تاخیر کا عمل مختصر کیا، ایسا نظام بنایا ہے کہ 17دنوں میں چالان آجائے، گواہوں کو پیش کرنے کی ذمہ داری ریاست کی ہوتی ہے، ہم نے کہا کہ مدعی کے بجائے پولیس اور ریاست گواہ پیش کرے گی، ماڈل کورٹس کو کامیاب بنانے میں وکلاء اور ججز نے اہم کردار ادا کیا، یہ کہانی بہت طویل ہے لیکن اس کے لیے وقت بہت کم تھا تاہم ہم نے بہت سے برج عبور کرے اور ہم سب میں ایک چیز عام تھی کہ ہم نے کچھ کرنا ہے اور ہم بغیر لڑے نہیں جھکیں گے، اللّہ نے ہمیں لوگوں کی خدمت کا موقع دیا اور ہم اس موقع کو ضائع کرنے کا موقع نہیں دے سکتے تھے، میرے اندر بلوچ خون مجھے مجبور کرتا ہے کہ کچھ نہ کچھ ایسا کرنا ہے جو بھلائی اور خیر کا ہو، ہم پر کچھ عرصے پہلے تک یہی تہمت تھی کہ ٹرائل کورٹ کا نظام انتقال کرچکا ہے اور یہ غیرفعال ہوگیا ہے، تاہم ہم نے امید نہیں ہاری، ہم نے کوشش کی اور تہیا کرلیا کہ ہم نے اس حالت کو بدلنا ہے۔

ہم نے سوچھا کہ کوئی ایسا راستہ نکالنا ہے کہ اللّہ اسی میں سے کسی مردے کو جنم دے دے اور اللّہ کی بڑی مہربانی ہے کہ اس نے ہمیں ہدایت فرمائی، ہم نے سوچا کہ رول اوور سسٹم نہیں بلکہ مستقل ٹرائل سسٹم ہونا چاہیے جبکہ دوسری بنیادی بات جو ہم نے لی وہ ریاست کے کیسز سے متعلق تھی،ریاستی کیسز میں ثبوت اور گواہوں کو لانے کی ذمہ داری ریاست کی ہےلیکن کچھ عرصے سے یہ ذمہ داری مدعی پر ڈال دی گئی جو غلط سسٹم ہے، پولیس اور ریاست کو ریاست کے کیسز کی ذمہ داری لینی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ یہ دو بنیادی فیصلے تھے جس سے زمین اور آسمان کا فرق پڑا اور ہمارا ایک ایک ماڈل جج اس بات کی تصدیق کرے گا کہ اب ریاست اور پولیس گواہوں کو لاتی ہے۔ 

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے پولیس افسران کو کہا کہ اپنی ذمہ داری اٹھائیں اور اب پولیس ان گواہوں کو بھی اٹھا کر لے آتی ہے جو ایک ایک سال سے نہیں ملتے تھے اور ان کا بیان ہوجاتا ہے، اس کے علاوہ چالان جمع کرانے کا بھی پولیس سے تعلق تھا اور ہم نے نظام بنایا ہے کہ 17 روز میں عبوری چالان جمع ہوجائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک نیا نظام شروع کیا کہ اگر ٹرائل 3 یا 4 دن چلنا ہے تو جس دن جو ہوا جج اسی دن فیصلہ لکھنا شروع کردیں گے، اسی طرح ہم نے سپریم کورٹ میں بھی التوا نہ دینے کی پالیسی شروع کی اور 5 سال سے میری بینچ میں کوئی التوا ہی نہیں ہوا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 25 سال کا جو کرمنل اپیلوں کا بیک لاک تھا وہ ٹوٹ چکا ہے اور سپریم کورٹ میں بھی وہی حالت ہے جو 28 اضلاع کی ٹرائل کورٹ میں ہے کہ وہاں کوئی زیرالتوا اپیل نہیں۔

اپنے خطاب میں چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ 208 روز میں ایک لاکھ 15 ہزار ٹرائل مکمل ہوسکتے ہیں تو اگر اسی رفتار سے چلیں تو ملک میں زیر التوا کیسز کا خاتمہ چند برسوں کی بات ہے اور ہم نے ایک ایسی ٹیم اور ماحول بنایا ہے کہ یہ خود سے کرنے والا طریقہ بن گیا ہے اور یہ انشااللّہ یہ اسی رفتار سے چلتا رہے گا۔ 

تنقید کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ لوگ یقین نہیں کرتے کہ ایسا ہوا ہے اور جب انہیں یقین نہیں آتا تو وہ کہتے ہیں کہ کچھ گڑبڑ ہے یا ہم سے جوٹ بولا جارہا ہے، جب یہ بات ہوئی تو ہم نے پاکستان بار کونسل کے ایک اعلیٰ سطح وفد سے کہا کہ آپ اپنی ٹیمیں بنائیں اور ماڈل کورٹس میں جاکر بیٹھ جائیں اور خود دیکھ لیں اور آج میں مکمل اعتماد سے بتاؤں کہ 6 ماہ میں کوئی شکایت نہیں آئی۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ میں نے اور میرے 2 ججز نے کہا کہ ہم ماڈل کورٹس پر انٹرنیٹ کے ذریعے چھاپہ ماریں گے اور ہم نے خفیہ طور پر انٹرنیٹ کے ذریعے کنیکٹ کرکے ایک گھنٹے تک ملک کے 4 مختلف کورٹس کی کارروائی دیکھتے رہے اور ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ یہ تو ہائی کورٹ کے ججز لگ رہے تھے، اتنا اچھا ٹرائل ہورہا تھا اور ہم بہت متاثر ہوئے۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ جو کام اچھا ہورہا ہو اسے آگے بڑھانا چاہیے تاہم ہمارے ہاں منفی رائے دینے میں لوگ تھوڑی خوشی محسوس کرتے ہیں اور بے جا تنقید ہوتی ہے، جس سے ہماری دل شکنی ہوتی ہے تاہم ہمارے حوصلے میں کبھی کمی نہیں آئی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 1984 سے درخواستیں زیر التوا تھیں جو ختم ہوگئیں، اس وقت 2019 کی اپیلیں آتی ہیں، لہٰذا یہ جنون اور جذبہ کسی بھی چیز کے لیے ضروری ہے۔

آخر میں ان کا کہنا تھا کہ تبدیلی وہی لوگ لاتے ہیں جو خطرہ مول لینے کو تیار ہوتے ہیں، آپ کی نیت ٹھیک ہے تو اللّہ کی مدد ساتھ ہوگی، آپ سمجھتے ہیں کہ یہ کرنے والا کام ہے تو کر گزریں۔

چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ماڈل کورٹس ججز نے انصاف کے ادارے کو باعزت بنا دیا، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ پولیس اور دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ لیوی نے بھی ہماری بہت مدد کی۔

تازہ ترین