• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سانحہ اے پی ایس کے 5 سال مکمل ہونے پر سوشل میڈیا صارفین اپنے اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔

جہاں 16 ستمبر پاکستان کی تاریخ کا پہلے ہی سیاہ ترین باب تھا وہاں سانحہ اے پی ایس کے رونما ہونے کے بعد اس سانحے نے  پاکستان کی تاریخ کو مزید سیاہ کردیا۔

سوشل میڈیا پر آرمی پبلک اسکول پشاور کی لائبریرین نے سانحے کی تمام تر تفصیلات اور اپنے اوپر ہونے والے واقعے کو آپ بیتی کی شکل میں تحریر کیا اور ایک بلاگ لکھا جسے سوشل میڈیا پر بڑی تعداد میں شیئر کیا جارہا ہے۔

’16 دسمبر‘ کے عنوان سے لکھے جانے والے بلاگ میں انہوں نے اپنے تعارف کے ساتھ ساتھ 16 دسمبر کو ہونے والے سانحے کے وقت کی صورتحال بتائی اور یہ بھی بتایا کہ کیسے ایک معصوم  نے اُن کی گود میں جان دی اور اس وقت اُن کی کیا حالت تھی۔

بلاگ کی ابتداء میں انہوں نے لکھا کہ 16 دسمبر کا سورج بھی عام دنوں کی طرح ہی طلوع ہوا تھا اور ہم جلدی جلدی اسکول پہنچے اور لائبری کا کاؤنٹر سنبھالا ۔

انہوں نے بتایا کہ ایک معزز اسکول میں لائبریرین کی نوکری حاصل کرنے کے لیے انہوں نے بہت جدوجہد کی تھی اور اس نوکری کے حصول کے بعد وہ بہت خوش بھی تھیں۔

انہوں نے لکھا کہ پشاور کے علاقے ہشت نگری کی متوسط کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی عام لڑکی کو اس اسکول میں نوکری مل جانے کا مطلب میرے لیےبہت کچھ تھا۔

انہوں نے لکھا کہ مجھے اپنی نوکری سے محبت ہے اور گذشتہ برسوں میں  اس محبت میں مزید اضافہ ہوا تھا۔ میں نے لائبریری کو اپنی حیثیت سے بڑھ کر چاہا تھا۔

یہ بھی دیکھیے: سانحہ اے پی ایس کو 5 برس بیت گئے


انہوں نے لکھا کہ مجھے لائبریری کی عمدہ کتابیں ، آرام دہ صوفے یا اپنی آسان نوکری سے زیادہ کسی اور چیز میں زیادہ دلچسپی تھی اور وہ اسکول کے معصوم اور ننھے بچے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے لئے معصوم چہرے ، خوشی خوشی لائبریری کی طرف دوڑتے آتے، کارٹون کی کتابوں کو دیکھ کر خوش ہوتے اور اُن سے لطف اٹھاتے بچے زیادہ دلچسپی کا باعث تھےجن کا وہ کاؤنٹر پر بیٹھی خیر مقدم کیا کرتی تھیں۔

انہوں نے 16 دسمبر کے اس تاریک دن کی ایک یاد شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ اس صبح اچانک ہی گولیوں اور بچوں کے چیخ و پکار کی آوازیں آنے لگیں ، اسکول میں وقفے وقفے سے فائرنگ کی آوازیں گونج رہی تھیں ۔

جیسے ہی انہوں نے فائرنگ کی آوازوں کا موازنہ کیا تو فوراً ہی لائبریری سے منسلک گیلری کی طرف دوڑیں جہاں بہت سے بچے چہروں پر خوف اور صدمہ لیے اُن کی جانب بڑھ رہے تھے۔

انہوں نے لکھا کہ جب بچوں نے دہشت گردوں کو اپنے ساتھیوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کرتے دیکھا تو وہ باقاعدہ کانپ رہے تھے اور اُن سے لپٹ کر رو رہے تھے۔ اُس لمحے میرے ذہن میں بہت سی چیزیں آئیں کہ ان بچوں کو دہشت گردوں سے کس طرح بچایا جائے اور کیا حکمت عملی اپنائی جائے۔

لائبریرین نے لکھا کہ بچوں نے اُس دن وہ سب دیکھا جو انہیں کبھی نہیں دیکھنا چاہئے تھا۔ ایسی صورتحال میں انہوں نے لائبریری سے منسلک گیلری میں موجود تمام بچوں کو لائبریری کے اندر داخل کیا۔

  دروزاہ بند کرنے سے قبل انہیں بس ایسے ہی خیال آیا کہ باہر دیکھ لیا جائے کہ کوئی بچہ وہاں موجود نہ ہو ، ایسے میں جب انہوں نے باہر نگاہ دوڑائی تو چوتھی جماعت کا ایک بچہ چیختے ہوئے آنکھوں میں آنسو لیے اپنی تیز ترین رفتار سے لائبریری کی طرف دوڑتا آرہا تھا۔

لائبریرین نے لکھا کہ انہیں نہیں معلوم کہ وہ گولی اسکول کے کس جانب سے آئی اور اُس بچے کے جسم سے آر پار ہوگئی۔ ایسے میں وہ جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے فوراً بچے کے قریب گئیں اور گود میں اٹھا کر لائبریری کے اندر لے آئیں اور دروازہ بند کر کے کچھ رکاوٹیں لگا دیں۔

انہوں نے لکھا کہ وہ بچوں کو مستقل پر سکون کرنے کی کوشش کررہی تھیں مگر  ناکام رہیں۔

انہوں نے لکھا کہ وہ منظر بلکل ایسا ہی تھا کہ جیسے فلموں میں ہوتا ہے ، وہ چوتھی جماعت کا بچہ میری بانہوں میں تھا اور اپنی زندگی اور موت کے دہانے پر کھڑا تھا۔

انہوں نے لکھا کہ وہ معصوم چہرہ ، خون میں لت پت اس معصوم روح کا سوئٹر اور بیج انہیں آج بھی نہیں بھولتا ۔

لائبریرین کا کہنا تھا کہ وہ جب بھی اس لمحے کو یاد کرتی ہیں تو ان کا جسم ہر دم کانپ اٹھتا ہے کہ کیسے چوتھی جماعت  کا وہ چھوٹا بچہ، نرم بالوں والا، خوبصورت چہرہ  میری گود میں خون میں ڈوبا ہوا، اپنی آخری سانسیں لے کر، ہچکیاں لیتے ہوئے میری جانب مدد کے لیے دیکھ رہا تھا۔

انہوں نے لکھا کہ اس وقت میں نے اپنی ہر کوشش کی ، میں مستقل کانپ رہی تھی، میں نے اس کے زخموں پر اپنا ڈوپٹہ بھی باندھا مگر خون رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔

انہوں نے لکھا کہ وہ ایک خوفناک وقت تھا، لائبریری کے ایک کونے میں بیٹھے ڈرے سہمے چھوٹے بچے ، ایک بند دروازہ اور میری گود میں ایک مردہ بچہ۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت بھی کسی نے لائبریری میں زبردستی داخل ہونے کی کوشش کی تھی تاہم وہ بہت جلدی میں تھے، دروازہ نہ کھلا تو آگے بڑھ گئے۔

انہوں نے لکھا کہ اس دن کے بعد سے آج تک روز صبح میری نظروں کے سامنے وہی منظر گزرتا ہے۔

انہوں نے لکھا کہ لائبریری وہی ہے، جگہ بھی وہی ہے لیکن اس سانحے کے بعد زندگی بلکل تبدیل ہوگئی۔

تازہ ترین