• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ نے پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر شدید تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاہدہ کا بغور جائزہ لیا جارہا ہے۔ پاکستان ایران کے ساتھ پابندی کی زد میں آنے والی سرگرمیوں سے گریز کرے۔ توانائی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے اوربھی آپشن ہیں۔ ممکنہ امریکی اقدامات پر بات کرنا قبل از وقت ہوگا جبکہ صدر آصف علی زرداری ایران سے واپسی پر لاہور پہنچے تو گورنرپنجاب نے انہیں پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدہ پر مبارکباد دی۔ اس موقع پر صدر نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے پر کوئی دباﺅقبول نہیں کرے گا اور ملکی مفاد میں منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔موجودہ حکومت نے اپنے آخری دنوں میں دو نہایت اہم اور اسٹریٹجک اہمیت کے حامل فیصلے کئے ہیں۔ ان کے بارے میں عام تاثر عوامی امنگوں کے قریب تر ہونے کا ہے اور تجزیہ نگاروں کے خیال میں انتخابی مہم کے دوران ان معاہدوں کا حوالہ کسی نہ کسی درجے میں سیاسی فوائد کا ذریعہ بن سکتا ہے سپر عالمی طاقت کے شدید دباﺅ کے باوجود ایک فیصلہ گوادر بندرگاہ کو چین کے حوالے کرنے اور دوسرا پاک ایران گیس پائپ لائن کا معاہدہ ہے جس کے لئے صدر زرداری نے ایران کا دورہ کیا۔ ان دونوں فیصلوں کا نہایت دلچسپ اور اہم پہلو یہ ہے کہ یہ دونوں منصوبے کئی سالوں سے زیرالتوا تھے جن سے یہ تاثر پیدا ہوتا تھا کہ حکمران بیرونی دباﺅ کے آگے ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ گوادر بندرگاہ میں کئی ممالک دلچسپی لیتے رہے اور سابق صدرمشرف کے دور میں اسے ہانگ کانگ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیاگیا تھا۔ عوام اور سیاسی جماعتوں کی اکثریت اس وقت بھی چین کی حمایت کرتی رہی ۔ اب جبکہ حکومت بندر گاہ کا کنٹرو ل چینی کمپنی کو دینے کا فیصلہ کرچکی ہے تو اسے چینی حکومت اور پاکستان کے عوامی حلقوں ، دونوں طرف سے سراہا گیا ہے۔ یہ کہا جارہا ہے کہ اس کے ذریعے پاکستان نے اپنے ایک قریبی اور نہایت بااعتماد دوست کو کاروباری شریک بنالیا ہے اور ان دونوں معاہدوں سے پاکستان کو اقتصادی، سیاسی اور سفارتی اعتبار سے بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔ ریاستی اداروں کی اکثریت بھی ان معاہدوں سے پوری طرح متفق ہے تاہم اس کا ایک دوسراپہلو یہ بھی ہے کہ ن لیگ کے میاںنواز شریف گوادر بندرگاہ کو چین کے حوالے کرنے کی مخالفت کرتے رہے۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے، اس کے میڈیا اور دوسرے ذرائع سے پاک ایران گیس منصوبے پر تحفظات کا اظہار ماضی میں بھی کیا جاتارہا ہے اور جمعرات کو بھی امریکی محکمہ خارجہ کے بیان میں اسلام آباد کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ پابندی کی زد میں آنے والی سرگرمیاں کرنے کی بجائے توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے دوسرے آپشنز پر غور کرے۔ یقینا کچھ حلقے ایسے بھی ہیں جو امریکہ کے ممکنہ اقدامات سے بچنے کیلئے احتیاط کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ملک کا وسیع تر مفاد ہم سے کن فیصلوں اور کونسی تدابیر کا تقاضا کرتا ہے۔ ہم ایک جذباتی قوم ہونے کے ناطے محبت اور نفرت کی انتہاﺅں پر رہنے کے عادی ضرور ہیں مگر اہم معاہدوں کا جائزہ بہرحال زمینی حقائق اور معروضی حالات کے تحت لیا جانا چاہئے اور جو بات ملک کے مفاد میں بہتر سمجھی جائے اس پر کوئی دباﺅ قبول کئے بغیر قائم ہوجانا چاہئے۔ زیادہ بہتر اور مناسب بات یہی ہے کہ مذکورہ معاملات پر تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ وسیع تر مشاورت کی جائے تاکہ حکومت کی موجودگی اور مدت اقتدار پوری ہونے کے بعد اس کی عدم موجودگی میں بھی ان معاہدوں کا وجود برقرار رہے اور ان پر عملدرآمد میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو چنانچہ گوادربندرگاہ اور گیس پائپ لائن منصوبے کو مستقبل میں مو ¿ثر اور نتیجہ خیز انداز میں چلانے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو بھی متفقہ طریقہ کار بروئے کار لانا ہو گا اور یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ بعض ممالک کی طرف سے ان معاہدوں کی مخالفت کیوں کی جا رہی ہے اور کیوں پاکستان کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ اگر یہ مخالفت برائے مخالفت ہے اور اس کا کوئی ٹھوس جواز نہیں تو اسے سختی کے ساتھ مسترد کر دیا جائے اور اگر واقعی تحفظات وخدشات میں کوئی وزن ہے تو مل بیٹھ کر قابل عمل تدابیر اختیار کی جانی چاہئیں۔

آخری تحفہ: پھر مہنگائی ؟
پٹرولیم مصنوعات کی مارکیٹنگ کرنے والی کمپنیوں، وزارت پٹرولیم اور آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی سے مشاورت کے بعد پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں یکم مارچ سے اضافے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا ہے جس کے مطابق پٹرول 3.53 ڈیزل 4.35 اور مٹی کا تیل 3.79 روپے فی لیٹر مہنگا ہو گیا ہے اس اضافے کے لئے وہی پرانا موقف اپنایا گیا ہے کہ عالمی منڈی میں پٹرول اور اس سے متعلقہ مصنوعات کی قیمتوں میں گرانی آئی ہے اس لئے یہ اضافہ ناگزیر ہو گیا ہے حالانکہ بین الاقوامی منڈی پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ پیٹرول کی بیرونی منڈیوں میں ایسی صورتحال نہیں ہے جس کی آڑ لے کر وطن عزیز میں ان کی درآمد اور مارکیٹنگ کرنے والی کمپنیوں کو عوام کی جیب پر ہاتھ صاف کرنے کی کھلی چھٹی دے دی جائے ۔ لندن سے آنے والی اطلاعات کے مطابق عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں کم ہوئی ہیں۔ اس لئے اس کا فائدہ ہمارے ہاں بھی عوام تک پہنچایا جانا چاہئے۔ عوام تو یہ توقع رکھتے تھے کہ اس بار انہیں پیٹرولیم نرخوں میں ریلیف دیا جائے گا لیکن حکومت کو پتہ نہیں کیا سوجھی ہے کہ اس نے مہنگائی کی چکی میں مسلسل پسنے والے عوام کےلئے ایسے وقت ایک اور تازیانے کا بندوبست ضروری سمجھا جب الیکشن سر پر ہیں جس کی وجہ سے آنے والے دنوں میں ان کی زندگی میں مزید تلخی آنے کا امکان ہے اور اس کیفیت سے گزرتے ہوئے وہ یہ ضرور سوچیں گے کہ جب دنیا بھر میں تیل کے نرخوں میں کمی آئی ہے تو پاکستان میں الٹی گنگا کیوں بہہ رہی ہے اور یہاں عوام کےلئے جینے اور مرنے کا دعویٰ کرنے والی اور انتہائی مشکل حالات کے باوجود عوامی کی حمایت و اعانت سے اقتدار کے پانچ سال پوری کرنے والی حکومت انہیں کوئی ریلیف دینے کے لئے کیوں تیار نہیں ہوئی ظاہر ہے کہ اس انداز فکر کے منفی اثرات آئندہ انتخابات پر بھی مرتب ہوسکتے ہیں اس لئے حکومت کو اس حوالے سے اپنی پالیسی کا ازسر نو جائزہ ضرور لینا چاہئے۔ کیونکہ اگر وہ بدستور عوام کو زیر بار کرنے کی پالیسی پر قائم رہتی ہے تو اس کے نتائج کسی بھی صورت میں موجودہ حکمرانوں کے لئے مفید اور سود مند نہیں ہو سکتے۔
طالبان سے مذاکرات:توقعات اور خدشات
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس میں اس امر پر اتفاق کیا گیا ہے کہ قیام امن کا موثر ذریعہ مذاکرات ہیں اور حکومت طالبان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کا مثبت جواب دے۔ آل پارٹیز کانفرنس کے اختتام پر جو 5 نکاتی ایجنڈا جاری کیا گیا اس میں کہا گیا ہے کہ گرینڈ قبائلی جرگہ قائم کیا جائے جو دہشت گردی کے خاتمے کےلئے تمام فریقین سے بات چیت کے لئے با اختیار ہو گا۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ ملک کی تمام اہم اور بڑی جماعتوں کے سربراہوں نے نہ صرف اس کانفرنس میں شرکت کی بلکہ طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے اتفاق کیا ہے۔ تحریک انصاف نے اس کانفرنس میں شرکت نہیں کی تاہم اس نے مذاکرات کی تجویز کی مخالفت نہیں کی۔ تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ جب ملک میں الیکشن کی تیاریاں ہورہی ہیں تو انہیں مذاکرات کا خیال آیا ہے۔ قیام امن کےلئے طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے یہ دوسری کل جماعتی کانفرنس تھی جو پچھلے 15 روز کے اندر ہوئی ہے 14 فروری کو اے این پی نے ایسی کانفرنس منعقد کی تھی تاہم جمعرات کی کانفرنس کی اہمیت یہ ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں جو کسی بھی سیاسی میدان میں ایک ساتھ کھڑے ہونے کےلئے تیار نہیں تھیں اس مقصد کےلئے ایک جگہ جمع ہوئیں۔ سیاسی اور دینی حلقوں کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس کے 5 نکاتی اعلامیہ کا خیر مقدم کیا گیا ہے اور اسے امن کی جانب ایک مثبت پیش رفت قرار دیا گیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگرچہ یہ کانفرنس بہت دیر سے ہوئی ہے لیکن اس کانفرنس کے فیصلوں سے امن کے لئے ماحول بننا شروع ہو جائے گا جسے پاکستان میں کوئی طاقت نہیں روک سکے گی۔ کانفرنس کے اعلانیہ میں یہ واضح کر دیا گیا ہے ملک کے آئین کی حدود میں رہ کر مذاکرات کئے جائیں گے۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت کی آئینی مدت ختم ہونے میں صرف دو ہفتے رہ گئے ہیں تاہم حکومت کو اس حوالے سے مذاکرات شروع کرنے کے لئے ”ہوم ورک“ کا آغاز کر دینا چاہئے اور گرینڈ جرگہ تشکیل دے کر اسے بات کو آگے بڑھانے کا ٹاسک دیا جانا چاہئے تاکہ مستقبل میں کوئی بھی حکومت آئے ، امن عمل جاری رہے۔
تازہ ترین