• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ

جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ


وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت اہم اجلاس میں جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس سننے والی خصوصی عدالت کے جج جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: سزائے موت کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا گیا

ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں اتفاق کیا گیا ہے کہ ڈی چوک میں پرویز مشرف کو لٹکانے کی بات کرکے انسانی حقوق کی حدود کو پار کیا گیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کو لیگل ٹیم نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ انسانی حقوق کی پامالی ہے۔

اجلاس میں قانونی ماہرین کی رائے پر جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے : مشرف کی لاش 3 دن ڈی چوک پر لٹکائی جائے: تفصیلی فیصلہ

ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں شریک اراکین کا کہنا تھا کہ خصوصی عدالت کے فیصلے سے ملک میں انار کی پھیلنے کا خدشہ ہے۔

خصوصی عدالت کا مشرف کی سزائے موت کا تفصیلی فیصلہ

سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کی جانب سے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سنائی گئی سزائے موت کے جاری کیے گئے تفصیلی فیصلے میں جسٹس وقار سیٹھ نے کہا ہے کہ پھانسی سے قبل اگر پرویز مشرف فوت ہو جاتے ہیں تو ان کی لاش ڈی چوک لائی جائے اور 3 روز تک وہاں لٹکائی جائے۔

تفصیلی فیصلے میں خصوصی عدالت نے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو 5 مرتبہ سزائے موت کا حکم سناتے ہوئے کہا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ پرویزمشرف پر 5 چارج فریم کیے گئے تھے، ہر جرم پر ایک بار سزائے موت دی جائے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں پرویز مشرف کو بیرونِ ملک بھگانے والے تمام سہولت کاروں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کا حکم دیا ہے۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے سنگین غداری کے جرم کا ارتکاب کیا، کور کمانڈرز اس میں ملوث نہیں تھے تو انہوں نے ایک شخص کو غیر آئینی اقدام سے کیوں نہیں روکا؟پاک فوج کے حلف میں انہیں سیاسی سرگرمیوں سے باز رکھنے کا کہا گیا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جمع کرائے گئی دستاویزات واضح ہیں کہ ملزم نے جرم کیا، ملزم پر تمام الزامات کسی شک و شبہے کے بغیر ثابت ہوتے ہیں، ملزم کو ہر الزام پر علیحدہ علیحدہ سزائے موت دی جاتی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے پرویز مشرف کو گرفتار کر کے لائیں تاکہ سزا پر عمل درآمد کرایا جا سکے۔

فیصلے میں جسٹس وقار سیٹھ نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا ہے کہ پھانسی سے قبل اگر پرویز مشرف فوت ہو جاتے ہیں تو ان کی لاش ڈی چوک لائی جائے اور 3 روز تک وہاں لٹکائی جائے۔

فیصلے کے مطابق جسٹس شاہد کریم نے جسٹس وقار کے اس فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے، سزائے موت کا فیصلہ ملزم کو مفرور قرار دینے کے بعد ان کی غیر حاضری میں سنایا۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ نے نظریۂ ضرورت متعارف نہ کرایا ہوتا تو قوم کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا، نظریۂ ضرورت کے باعث یونیفارم افسر نے سنگین غداری کے جرم کا ارتکاب کیا۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جس جرم کا ارتکاب ہوا وہ آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کے جرم میں آتا ہے، آرٹیکل 6 آئین کا وہ محافظ ہے جو ریاست اور شہریوں میں عمرانی معاہدہ چیلنج کرنے والے کا مقابلہ کرتا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہماری رائے ہے کہ سنگین غداری کیس میں ملزم کو فیئر ٹرائل کا موقع اس کے حق سے زیادہ دیا، آئین کے تحفظ کا مقدمہ 6 سال پہلے 2013ء میں شروع ہوکر 2019ء میں اختتام پذیر ہوا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مشرف نے 3 نومبر 2007ء کو آئین پامال کیا، خصوصی عدالت 20 نومبر 2013ء کو قائم کی گئی، ‎31مارچ 2014 ءکو عدالت نے پرویز مشرف پر فرد جرم عائد کی۔

فیصلے کے مطابق خصوصی عدالت نے 19 جون 2016ء کو پرویز مشرف کو مفرور قرار دیا، خصوصی عدالت کی 6 دفعہ تشکیل نو ہوئی۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین عوام اور ریاست کے درمیان ایک معاہدہ ہے، استغاثہ کے شواہد کے مطابق ملزم مثالی سزا کا مستحق ہے۔

تازہ ترین