کراچی میں ٹریفک پولیس اور عوام کے درمیان زبانی توتکار اور جھڑپوں میں تیزی سے اضافہ ہو تا جارہا ہے۔ بلا شبہ ٹریفک پولیس میں بہتری کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات وقت کی ضرورت ہیں جن پر بہت پہلے ہی عمل درآمدکیا جانا چاہیے تھا۔ تاہم زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے پہلے پولیس اہلکاروں کی تربیت اور عوام کے ساتھ ان کے رویوں میں بہتری کیلئے اقدامات بھی ترجیحی اہمیت کے حامل ہیں۔ دوسری جانب سڑکوں کی کشادگی کیلئے جگہ جگہ کھدائی، فلائی اوورز کی تعمیر میں تاخیر اور ٹریفک قوانین میں عوامی مشاورت کے بغیر تبدیلیاں بھی زبانی تکرار اور جھڑپوں میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔
اعلی افسران کو یہ حقیقت بھی مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ قانون کے احترام میں فقدان کی ایک وجہ پویس کا رویہ اور عوام کے معاشی پریشانیوں میں گھر جانا بھی شامل ہے۔ ہوش ربا مہنگائی کے ستائے ہوئے شہری شدید ذہنی پریشانی کا شکار ہیں ۔اسی پریشانی کے عالم میں وہ اپنی جائے روزرگار پر جانے کے لئے گھروں سے نکلتے ہیں۔شہر میں ٹریفک کے بحران کی وجہ سے وہ مجبوراً موٹرسائیکل یاکار میں اپنے دفاتر یا فیکٹریاں جانے پر مجبور ہیں۔
ذہنی خلفشارکی وجہ سے ان سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی سر زد ہوجاتی ہے یا ٹریفک پولیس اہل کار اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں’’ بھتے ‘‘کے لیے مختلف النوع قانونی دفعات کا سہارا لے کر روکتے ہیں۔ جب انھیں ٹریفک اہلکار یا افسر پکڑ لیتا ہے، اور ان پر مختلف الزامات عائد کرتا ہے تو وہ آپے سے باہر ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے بعض اوقات ناخوش گوار صورت حال بھی پیدا ہوتی ہے۔ٹریفک پولیس اور شہریوں کے درمیان حال ہی میں بڑھتے ہوئے پر تشدد واقعات کی نئی لہراسی صورت حالکی وجہ سے ہے۔
شہر کے مختلف علاقوں میں ٹریفک پولیس اور شہریوں کے مابین تلخ کلامی ، نازیبا الفاظ کے تبادلوں، ہاتھاپائی کی ویڈیوزبھی سوشل میڈیا کے توسط سے مسلسل منظر عام پر آرہی ہیں۔ بلاول چورنگی پر انسپکٹر یاسر اور ان کے ساتھ کھڑے اہلکاروں کے ساتھسرخ رنگ کی گاڑی میں بیٹھے دوافراد نے روکنے پر ہاتھا پائی کی جس کے بعد شہریوں نے بیچ بچائو کرادیا۔ وہ دونوں شہری بعد میں اپنے دوستوں کے ہمراہ دوبارہ بلاول چورنگی کے قریب پہنچےاور انسپکٹر یاسر اور دوسرے اہلکارکے ساتھ مار پیٹ کی اورفرار ہوگئے۔
اس واقعہ کا مقدمہ انسپکٹر یاسر کی مدعیت میں درخشاں تھانے میں درج کرا دیا گیا۔ ایسا ہی ایک واقعہ تین ہٹی کے قریب پیش آیا جب ایک موٹر سائیکل سوار نے ٹریفک اہلکار کے روکنے پر اس سے ہاتھا پائی شروع کردی۔ شہریوں نے بیچ بچائوکراکراس کو چھڑایا تو وہ فرار ہوگیا ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ بعد میں اسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ تیسرا واقعہ فوارہ چوک کے قریب پیش آیا، ٹریفک اہلکار نے ایک کار سوار کا سیٹ بیلٹ نہ باندھنے پر چالان کیا توکار سوار نے بدتمیزی کی۔
کلفٹن میں ٹریفک پولیس افسر نے سگنل توڑنے پر ثنا آفتاب نامی کار سوارخاتون کا تعاقب کرکے اسے روکا اور کاغذات طلب کیے تو وہ آگ بگولہ ہو گئی۔ مقدمے کے اندراج کے بعداس نے عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کر لی۔ ثنا آفتاب نے عدالت کے استفسار پر بتایاکہ وہ ذہنی طور پریشان تھی ۔ یہ بات اس موقف کو سمجھنے کیلئے کافی ہے کہ شہریوں کی اکثریت ذہنی دبائو کے تحت ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرجاتی ہے۔
ایک معروف ماہر نفسیات نے موجودہ صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ شہر کراچی کے با سی مسلسل مسائل کا سامنا کرنے کے باعث نفسیاتی عوارض کا شکار ہوگئے ہیں۔زیادہ تر پولیس افسران کا تعلق دوسرے صوبوں اور شہروں سے ہے جس کی وجہ سے وہ عام لوگوں کو درپیش نفسیاتی صورت حال سمجھنے کا ادراک نہیں رکھتے۔ تاہم اس میں ٹریفک اہلکاروں کو بھی اپنا حصہ ڈالتے ہوئے اپنے رویوں کو بہتر بنانا ہوگا ۔
سماجی و معاشی صورت حال نے صرف عام لوگوں کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ ٹریفک اہلکار بھی اس سے متاثر ہیں۔ اس بات کا ثبوت تبت سینٹر پر واقع ٹریفک چوکی کے اہل کار اور افسران ہیں جن کا رویہ کار اور موٹر سائیکل سواروں کے ساتھ انتہائی توہین آمیز ہوتا ہے۔اکثر اوقات وہ عوام کے ساتھ بحث و تمحیص کے بعد تشدد پر اتر آتے ہیں اور لوگوں سے مار پیٹ شروع کردیتے ہیں۔ ان واقعات کی ویڈیوز بھی اکثر و بیشتر سوشل مڈیا پر وائرل ہوتی رہتی ہیں۔
کراچی میں سڑکوں پر دوڑنے والی گاڑیوں کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق 20لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے ۔دوسری جانب تجاوزات بھی ٹریفک کے مسائل میں اضافہ کا سبب بنتی ہیں۔ سٹی حکومت اور دیگر محکموں کی جانب سے تجاوزات کے خاتمہ کیلئے وقتاً فوقتاً چلائی جانے والی مہمات صرف نمائشی ثابت ہوئی جب کہ سڑکوں کی کشادگی کیلئے کئی عشروں سے کوئی جامع منصوبہ بندی نظر نہیں آئی۔ پارکنگ کا کوئی منظم سسٹم نہ ہونے کے باعث ہر بڑی سڑک پر ٹریفک جام ہونا ایک معمول بن گیا ہے۔ سگنل سسٹم کو اپ ڈیٹ نہ کرنے اور گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ کے باعث مختصر فاصلہ طے کرنے میں بھی طویل وقت لگ جاتا ہے۔
اس صورت حال میں بالخصوص مریض اور ضعیف العمر لوگ زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ لوگوں میں ٹریفک قوانین سے آگہی کی ذمہ داری بھی ٹریفک پولیس پر عائد ہوتی ہے۔ لوگوں کی اکثریت کو اپنی اخلاقی ذمہ داری کا احساس نہیں ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ انتہائی ایمرجنسی کی صورت میں ایمبولینس کو راستہ نہیں ملتا اور ٹریفک والے اس کا نوٹس نہیں لیتے جس کی وجہ سے بعض اوقات مریض اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ جاتے ہیں۔ یہ صورت حال کسی بھی مہذب معاشرہ کیلئے انتہائی افسوس ناک ہے جس کا تدارک ضروری ہے۔