اقبال اے رحمٰن
دہلی کالونی کلفٹن کے دامن میں بسی متوسط طبقے کی ایسی سوسائٹی ہے جو قیام پاکستان کے ساتھ ہی وجود میں آگئی تھی ۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہندوستان سے لٹے پٹے مہاجرین کی آمد کا سلسلہ جاری تھا، دلی سے آئے پنجابی سوداگران دہلی کے مہاجرین کے ایک حصے نے عیدگاہ میدان میں پڑاؤ ڈال رکھا تھا، میدان جھگیوں سے پر تھا، ایسے میں سندھ کے اس وقت کے وزیر اعلی ایوب کھوڑو صاحب کا وہاں سے گزر ہوا، اس طرح سے بنی جھگیوں پر انہوں نے نا پسندیدگی کا اظہار کیا اور اس وقت کے کمشنر کراچی سید ہاشم رضا صاحب سے صورتحال کا نوٹس لینےکو کہا، ہاشم رضا صاحب جانتے تھے کہ یہ دلی کے متومل تاجر ہیں جن کو افتاد زمانہ نے اس حال کو پہنچایا ہے۔
لہذا رضا صاحب نے انہیں کسی طرح سے قائل کرلیا کہ وہ کلفٹن سے نزدیک ایک وسیع قطعہ زمین پر اپنی نئی دنیا آباد کریں، جب یہ مہاجرین آمادہ ہوگئے تو مناسب قانونی کارروائی کےذریعے الاٹمنٹ ہوگئی اور مہاجرین عیدگاہ سے بتدریج نئی منزل کی جانب منتقل ہونے لگے، اس کالونی کی آبادکاری میں مہاجرین کے ہمدرد سندھ کے معروف سماجی و سیاسی رہنما پیر الہی بخش صاحب کا بھی کردار تھا ، جس کے سبب اولاً یہ کالونی پیر الہی بخش کالونی کہلائی ۔ ملا واحدی نے اپنی کتاب ” میرے زمانے کی دلی ‘‘میں اپنی کراچی آمد کے بعدکے جو حالات و واقعات تحریر کئے ہیں۔ ان میں اس کالونی کا تذکرہ ” پنجاب کالونی ” کے نام سے کیا ہے، اس کی وجہ یہ کہ یہ بستی، جس جگہ بسی اس سے ملحق ایک آبادی پنجاب کالونی کے نام سے پہلے ہی سے موجود تھی، لہذا شروع میں اسے لوگوں نے پنجاب کالونی ہی کہا ،مگر بعد میں کنٹونمنٹ بورڈ کے زیر انتظام اس بستی نے اپنی شناخت دہلی کالونی کے نام سے بنالی ۔ اس کالونی کو مسکن بنانے والے دلی سے ہجرت کرکے آئے ” پنجابی سوداگران کی کراچی میں اپنی انجمن ” جمیعت پنجابی سوداگران دہلی ‘‘کے نام سے رجسٹرڈ ہے ۔
آپ جب اس کوچے میں داخل ہوجائیں، حلوہ پوری، نہاری، چوڑیوں اور پراندے کی دکانیں نظر آئیں تو خوشگوار حیرت کی انتہا ہوتی ہے، دہلی کالونی کلفٹن کے جدید سے جدید تر ہوتے جارہے ماحول کے دامن میں بسا ایسا کوچہ ہے جس کے انداز سے کراچی کے متوسط اردو اسپیکنگ کلچر اور خواب خیال ہوئی دلی کی دلربائی جھلکتی ہے ۔
دہلی کالونی میں کبھی ریت اڑا کرتی تھی، سوداگران دہلی کے لوگ جب بیتے دنوں کو یاد کرتے ہیں، کہ، ویرانے میں ایک آباد گوشہ ابھر رہا تھا گویا صحرا میں نخلستان، کوئی خود وہاں رہتا تھا کسی کا ننھیال وہاں تھا تو کسی کے رشتہ دار، یوں دہلی کالونی سے رشتہ سب ہی کا روز اوّل سے جڑا ہے، دور دور تک آبادی نہ تھی بلکہ ریت ہی ریت تھی جو خوب اڑتی تھی درو دیوار اور صحن تو ریت سے اٹ جاتے ،پانی بھی محفوظ نہیں رہتا تھا، مشکیزے یا گھڑے سے پانی بھرو تو پانی کے ساتھ ریت سے اٹ جاتے ،پانی پر ستو کا گمان ہوتاتھا۔
کراچی کے دوسرے علاقوں سے آکر اس بستی میں قدم رکھنا گویا دلی میں پہنچنا تھا، وہی تنگ گلیاں، وہی چھوٹے چھوٹے مکانات، مکانوں کے آنگن میں آم اور جامن کے پیڑ، مشکیزے اٹھائے دوڑتے پھرتے سقّے، دلی کے باورچی، دلی کی کبابیں، دلی کی نہاری اور دلی کے نانبائی، مساجد نے ان ہی مساجد کا نام پایا جو دلی میں چھوڑ آئے تھے، چھوٹی مسجد، شمیم مسجد، بڑی مسجد اور دلی مسجد۔
دلی کے قدیم اسکول، لڑکوں کا نجم اسکول اور لڑکیوں کا امینیہ اسکول بھی گویا دلی سے سرک اسی کالونی میں آبسے تھے جو اتنے برس گزرجانے کے باوجود آج بھی دلی کی یادگاریں ہیں ۔ گفتگو میں وہی ٹھیٹھ انداز جو دلی والوں کا طرہ ہے، کہیں بلا کی نرمی اور کہیں وہی دلی والوں کی اکڑ، مگر آداب، حفظ مراتب اور وضع داری سدا کی قائم ، بستیاں بستی والوں کے دم سے آباد ہوتی ہیں، دہلی کالونی بھی دلی والوں کے دم سے آباد ہوکر دلی کا عکس کہلائی ۔
سوداگران دہلی کےجناب ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی صاحب نے ان دنوں کی یادداشتیں برادری کے معروف رسالے ” سوداگر ‘‘میں تحریر کی تھیں، جس کے مطابق بستی میں الاٹمنٹ کا باقاعدہ نظام نہ تھا بلکہ ایک چوکیدار تھا جو کچھ پیسوں کے عوض جگہ کی نشاندہی کر دیتا تھا ،جس پر سائبان تان کر سر چھپانے کی جگہ کا انتظام کرلیا جاتا، ڈاکٹر صاحب کے والد صاحب نے بھی 300 روپے کے عوض 250’گز کا پلاٹ حاصل کیا ،جس پر ایک ڈھانچہ کھڑا کرکے ٹین کی چھت کا سہارا کرلیا گیا، یہ 1956 کی بات ہے، جب تک کالونی بنیادی سہولیات سے محروم تھی ، بجلی، گیس اور ٹیلیفون تو کجا فراہمی و نکاسی آب کا بھی کوئی معقول انتظام نہ تھا، پانی کی ترسیل کا انتظام فی مشک تین روپے ماہانہ وصول کرتے جوسقوں کے سپرد تھا ۔ سڑکوں اور گلیوں میں روشنی کا انتظام کھمبوں پہ لگی لالٹین سے ہوتا تھا ۔
ہماری بیٹی کی ایک دوست جو دہلی کی سوداگر برادری سے تعلق رکھتی ہیں، اچھا حافظہ اور مشاہدہ رکھتی ہیں، دہلی کالونی اور اس کی یادیں شئیر کرتے ہوئے تحریر کرتی ہیں کہ ان کی ہمشیرہ، پھوپھی اور چچا کا گھر چونکہ اسی دہلی کالونی میں تھا لہذابچپن میں یہاں آنا جانا لگا رہتا تھا۔ بقر عید کے موقع پر اونٹ نحر ہوتے تھے تو شوق سے دیکھنے جاتے تھے، چچا کا گھر جو بعد میں انکا سسرال بنا، چھوٹا سا گھر چھوٹا سا آنگن جس میں چچی جان کا ہاتھ کا لگا املی کا پودا تناور درخت کی کا پودا تناور درخت کی صورت میں آج بھی موجود ہے ۔
مگر بقول ان کےدہلی کالونی کی روایتوں کو اب گہن لگنے لگا ہے، اس کی بڑی وجہ بدلتی قدریں ہیں، وہ قدریں، وہ روایتیں اور رکھ رکھاؤ جب پورے شہر میں روبہ زوال ہوں تو دہلی کالونی نئی صورتحال سے کیسے دامن بچا سکتی تھی سو دہلی کالونی کا ماحول بھی متاثر ہونے لگا ۔ چھوٹے چھوٹے مکانات وقت گزرنے اور خاندان کے بڑھنے کے سبب دو تین منزلوں میں تبدیل ہوچکے ہیں، بلکہ اب تو بلڈنگیں بن رہیں، بڑھتی ہوئی آبادی اور تنگ گلیوں میں تجاوزات کے دم سے تنگ راستے مزید تنگ ہوگئے ہیں۔
ماہ و سال بیتے چلے جاتے ہیں 72 برس گزرگئے،چھوٹی مسجد پھیل کر بڑی ہوگئی، شمیم مسجد عہد رفتہ کا انداز لئے کیا شان اختیار کرگئی ہے اور دلی مسجد کا صدر دروازہ ہی کیا کچھ یاد نہیں دلادیتا، ہر مسجد میں حفظ و ناظرہ کے آباد مدرسے ہیں، صبح کے اوقات جو نمازوں کے نہیں ان مدرسوں کے دم سے آباد ہیں، کیونکہ ہر گھر سے بچے آتے ہیں اور کیوں نہ آئیں، اس شہر کراچی میں ہر برادری میں بچوں کو حافظ بنانے کا جو رجحان ہے ۔ 80 کی دہائی میں قاری عبد الحلیم صاحب کا تراویح میں انداز قرات بہت مقبول ہوا تھا،
دہلی کالونی اب کمرشل انداز پر گامزن ہے، بیرونی پٹی کے مکانات توڑ کر ان کی زمینیں یکجا کرکے کثیر المنزلہ کمرشل بلڈنگوں میں تبدیل کی جارہی ہیں، بچوں کا سپر اسٹور ” بچہ پارٹی ” دہلی کالونی کی پہچان ہے، یہیں سے آپ کالونی کے اندر داخل ہوتے ہیں تو کلفٹن کے جدید کمرشل ماحول سے گویا ایک گوشہ عافیت میں آجاتے ہیں، جہاں مشرق اور مشرقی تہذیب و وضع داری کا عکس بدرجہ اُتم نمایاں ہے۔
ان دنوں گرچہ دکن میں ہے بڑی قدر سخن
کون جائے ذوقؔ پر دلی کی گلیاں چھوڑ کر
کالونی میں جمعیت پنجابی سوداگران دہلی کے بے شمار رفاعی ادارے ہیں ، درسگاہیں، اسپتال وغیرہ ہیں۔
اگرچہ کالونی کے اندر بھی بلڈنگوں کی صورت میں رہائشی فلیٹ بن رہے ہیں دوسری برادریاں بھی سوسائٹی میں وارد ہورہی ہیں ، بدلتی قدروں کے ساتھ وہ زمانے تو لد گئے ،مگر کالونی کا ماحول اب بھی دلی کی ثقافت سے معمور ہے، بلڈنگوں کے نیچے کھلی دکانیں اور ان کا مخصوص عوامی انداز گویا آپ پیر کالونی، برنس روڈ یا رنچھوڑ لائن کی مارکیٹ میں آگئے ہیں اور اگر مزید گزرے ماضی میں جھانکنا ہے تو جامع مسجد اور چتلی قبر کی سیر کر لیجئے ۔
یہاں حلوہ پوری کے ہوٹل میں سفید اور کچے کنارے کی پوری ملنے کا سوال ہی نہیں کہ تلنے والا مطمئن نہیں تو آپکو کیسے پیش کرے، یہاں تو خوبصورت پوریوں کی بہار ہے، گلابی، ٹک والی اور کسی ہوئی پوریوں کی بہار، دلی والوں کی بہار صبح ناشتہ سے لےکر دوپہر کے قورمہ قلیہ اور رات کو انگیٹھی میں پہلو بدلتی سیخوں اور خوشبو اڑا کر اشتہا بڑھاتی کبابوں تک قائم رہتی ہے اور تینوں اوقات میں نہاری گویا ہر دم مسکراتی نظر آتی ہے ۔
کپڑے، آرائش، سلائی کڑھائی کے دھاگے، موتی و کلابتوں، عطریات و تسبیحات کتب و رسائل، متوسط طبقے اور گھریلو تربیت سے متعلق سامان کی بہار بہت کچھ کہتی نظر آتی ہے کہ دیکھو اس شہر نگاراں میں جہاں روشنی کی چکاچوند نے آنکھیں خیرہ کردی ہیں اور اطراف میں شہر کا جدید اور فیشن ایبل علاقہ رنگ و نور کا ایک سیلاب سا رواں رکھے ہوئے ہے۔