• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زمین کےمقناطیسی قطب شمالی کی حرکت نے سائنسدانوں کےدماغ گھما دیئے

واشنگٹن ( نیوز ایجنسی ) زمین کا مقناطیسی قطب شمالی دنیا بھر کے سائنسدانوں کے ذہنوں کو گھمانے کا باعث بن رہا ہے،گزشتہ 40 برس کے دوران مقناطیسی قطب شمالی قطب نما میں ہر سال اوسطاً 30 میل حرکت کررہا ہے،ستمبر میں مقناطیسی شمالی قطب مختصر وقت کے لیے ارضیاتی شمالی قطب سے بھی مل گیا تھا، مقناطیسی قطب شمالی مسلسل حرکت کر رہا ہے اور اپنے سابق مرکز کینیڈا سے سربیا کی جانب بڑھ رہا ہے،برٹش جیولوجیکل سروے سے تعلق رکھنے والے سائنسدان سرن بیگن کے مطابق مقناطیسی شمالی قطب نے گزشتہ 350 سال کینیڈا کے ایک ہی حصے میں گھومتے ہوئے گزارے، مگر 1980 کی دہائی سے حرکت کرنے کی شرح 6.1 کلومیٹر سالانہ سے 31 کلومیٹر سالانہ تک پہنچ گئی ہے،سرن ان سائنسدانوں کے گروپ میں شامل ہیں جو اس قطب کی سرگرمیوں کو سالانہ بنیادوں پر ٹریک کرتے ہیں اور اس حوالے سے ورلڈ میگنیٹک ماڈل (ڈبلیو ایم ایم) کو آگاہ کیا جاتا ہے جو زمین کے مقناطیسی میدان کا نقشہ ہے،ڈبلیو ایم ایم کی تازہ ترین اپ ڈیٹ کے مطابق مقناطیسی قطب شمالی اب بھی آگے بڑھ رہا ہے مگر اب اس کی رفتار 24.8 سال فی میل تک گھٹ گئی ہے،سائنسدان نے بتایا ʼ 2040 تک تمام قطب نما ممکنہ طور پر اصل شمال کو مشرق کی جانب دکھائیں گے، جبکہ مقناطیسی قطب شمالی شمالی روس کی جانب دور نکل جائے گا،سرن نے بتایا کہ مقناطیسی میدان اور اس کے قطب ساکن نہیں، 1831 میں جب سائنسدانوں نے مقناطیسی قطب شمالی کو دریافت کیا تھا، اس وقت سے یہ اپنی جگہ سے 14 سو میل دور حرکت کرچکا ہے، اس کے مقابلے میں گزشتہ دہائی میں مقناطیسی قطب جنوبی نے اپنی جگہ سے حرکت نہیں کی،مقناطیسی میدان جی پی ایس ایپس اور کمرشل فضائی کمپنیوں کی طرف سے یہ عالمی نقشہ ہر 5 سال بعد یہ نہیں دکھاتا کہ زمین کا مقناطیسی میدان اب کیسا ہے،یہ نقشہ آخری بار 2015 میں اپ ڈیٹ ہوا تھا اور 2020 میں اسے پھر اپ ڈیٹ کیا جانا تھامگر حال ہی میں مقناطیسی قطب شمالی کی رفتار زیادہ بڑھ گئی جس سے ڈبلیو ایم ایم اب پہلے جیسا مستند نہیں رہا اور اسی وجہ سے اسے اگلے سال فروری کی بجائے 10 دسمبر کو ہی جاری کردیا گیا،تاہم سائنسدان کا کہنا تھا کہ اس نقشے اور مقناطیسی قطب کی حرکت میں فرق ہمیں اتنا متاثر نہیں کرتا،انہوں نے بتایا کہ قطب نما اور جی پی ایس معمول کے مطابق کام کرتے رہیں گے، اس حوالے سے فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں کہ روز مرہ کی زندگی متاثر ہوگی،مینیسوٹا یونیورسٹی کے سائنسدان جسٹن رینیوف نے اس حوالے سے کچھ عرصے پہلے بتایا تھا کہ مقناطیسی میدان کمزور ہونے کے عمل میں مقناطیسی قطبین اپنی جگہیں بدل لیتے ہیں،ایسا زمین کی تاریخ میں کئی بار ہوچکا ہے اور آخری بار 7 لاکھ 80 ہزار سال پہلے ہوا تھا،مگر یہ عمل اتنے عرصے میں مکمل ہوتا ہے کہ زمین پر کوئی خاص اثرات مرتب نہیں ہوتے، تبدیلی کا یہ عمل آخری بار 22 ہزار سال پہلے مکمل ہوا تھا،درحقیقت سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ عام لوگوں کو تو کبھی علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ اس عمل کے دوران زندگی گزار رہے ہیں۔
تازہ ترین