18اگست 2018 کو عمران خان نے حکومت ملنے اور وزیراعظم کا حلف اٹھانے کے بعد نئے پاکستان کی نوید سنائی۔
بدقسمتی سے ماضی کے اقدامات کی بدولت اور موجودہ حکومت کی ناتجربہ کاری کے باعث کوئی ایسا اقدام سامنے نہ آ سکا جس سے معاملات درستی کی طرف بڑھ سکتے۔ تقریباً 17ماہ بعد وزیراعظم عمران خان نے 27دسمبر 2019 کو احتساب بیورو ترمیمی آرڈیننس جاری کرکے ایک ایسا اقدام اٹھایا ہے جس سے نہ صرف بے مہار قانون کا زہر ختم ہو جائے گا بلکہ ملکی معیشت میں اہم رول ادا کرنے والوں کو بھی سکون ملے گا۔ کاروباری حضرات بے دھڑک کاروبار کر سکیں گے۔
سرکاری ملازم بے خوف فائلوں پر دستخط کر سکیں گے۔جنرل مشرف نے 1999میں احتساب کے نام پر نیب کا قانون بنایا تھا جس کا مقصد صرف اور صرف مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنانا تھا اور اپنے اقتدار کو طول دینا تھا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے لیڈر اس کا شکار رہے۔
پیپلز پارٹی 2008سے 2013تک اور مسلم لیگ (ن) 2013سے 2018تک برسر اقتدار رہی جبکہ 2008میں دونوں پارٹیوں نے مل کر بھی حکومت کی لیکن کوئی بھی پارٹی احتساب بیورو کے متنازع قانون کو درست نہ کر سکی اور پھر یہ قانون 2018اور 2019میں دونوں پارٹیوں کے ساتھ ساتھ ہر طبقہ پر استعمال ہوا۔
پیپلز پارٹی نے 2008 میں اقتدار میں آکر مسلم لیگ (ن) کے خلاف کارروائیاں شروع کیں تو مسلم لیگ (ن) نے نیب میں اس لئے ترامیم نہیں کیں کہ اقتدار میں پیپلز پارٹی سے بدلہ لیں گے حالانکہ دونوں پارٹیوں نے مل کر 18ویں آئینی ترمیم کی تھی۔
محض بدلہ لینے کی خاطر متنازع قانون کو برقرار رکھا گیا جس کا نتیجہ آج دونوں پارٹیاں بھگت رہی ہیں۔ 1960کی دہائی میں چوہدری ظہور الٰہی (مرحوم) نے کہا تھا کہ سیاستدانوں کو چاہئے کہ جب بھی برسر اقتدار آئیں تو ہر اُس کالے قانون کو ختم کر دیں جو ان کے خلاف بھی استعمال ہو سکتا ہو۔
پچھلے کچھ عرصہ سے احتساب بیورو نے ایک متوازی حکومت کی طرح کام کیا جبکہ احتساب بیورو کے افسروں کو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔
اب تحریک انصاف نے کالے قانون میں ترامیم کرکے نیب کے پر کاٹ کر عدلیہ، قومی اداروں، بیورو کریسی اور تاجروں پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
مجھے خوشی ہے کہ وزیراعظم نے کھلے عام اور کھلے دل کے ساتھ اعلان کیا کہ نیب آرڈیننس ترامیم کے ذریعے بزنس کمیونٹی کو نیب سے محفوظ بنا دیا گیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ نیب بزنس کمیونٹی کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ بن گیا تھا۔
نیب آرڈیننس ترامیم کے مطابق: ریمانڈ کی مدت 90دن سے کم کرکے 14دن کر دی گئی ہے، ثبوت دینے کی ذمہ داری ملزم کے بجائے پراسیکوشن پر ڈال دی گئی ہے۔ انکوائری اور تحقیق ایک دفعہ ختم کر دی جائے تو دوبارہ شروع نہیں ہو سکے گی۔
بیورو کریسی کی پروٹیکشن کیلئے 6رکنی کمیٹی بنا دی گئی ہے جس میں چیئرمین نیب کے علاوہ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ اور کابینہ، چیئرمین ایف بی آر اورSECPاور وزارت قانون کانمائندہ شامل ہوگا۔ اسکرونٹی کمیٹی کی منظوری کے بغیر کوئی پراپرٹی سِیل نہیں ہوگی۔
پروسیجر کی کمی پر کوئی کارروائی نہیں ہو گی ماسوائے اس طریقہ کار سے مالی فائدہ ہوا ہو۔ ٹیکس کے معاملات نیب کے بجائے متعلقہ ادارے اور عدالتیں دیکھیں گی۔ نیب کا کوئی افسر کسی بھی جاری انکوائری یا انویسٹی گیشن کے بارے میں کوئی بیان نہیں دے گا جب تک کہ ریفرنس دائر نہ ہو جائے۔
میں 1999سے احتساب بیورو کی کارکردگی دیکھ رہا ہوں۔ جنرل مشرف اور جنرل امجد نے خوف پھیلانے کیلئے سب سے پہلے بڑے ناموں کو گرفتار کیا۔ میں نے دیکھا کہ یہی بڑے نام جن میں خاص طور پر سید فیصل صالح حیات، جہانگیر بدر، میاں منظور وٹو، احمد مختار، خالد کھرل، مرتضیٰ کھر، نواب یوسف تالپور، حاجی نواز کھوکھر اور بے شمار دیگر لوگ عدالتوں سے باعزت بری ہو گئے مگر نیب قوانین میں کوئی تبدیلی نہ کی گئی اور نہ ہی ان قوانین کو انصاف کے ترازو پر پرکھا گیا۔
اس قانون کو ہر دور کے حکمرانوں نے اپنی مرضی سے استعمال کیا۔ پچھلے دو سال سے نیب کی کارروائیوں سے ملکی معیشت سست روی کا شکار ہوئی، الزام بعد میں لگتا تھاٹی وی پر پہلے بدنامی شروع ہو جاتی تھی،
سیاستدانوں، بیورو کریٹس اور کاروباری حضرات کو معاشرے میں شکل دکھانا مشکل ہو جاتی تھی۔ 90روز کا ریمانڈ لیا جاتا رہا ہے اور چھ چھ ماہ بغیر ریفرنس فائل کئے جیلوں میں بند رکھا جاتا رہا ہے۔
عرصہ دراز بعد الزام غلط ثابت ہوتا تھا۔ اس لئے تو عدالتوں نے ضمانتیں اس بنیاد پر دینا شروع کر دیں کہ جب الزام غلط ثابت ہوگا تو اتنا عرصہ بے گناہ جیل میں رہنے کا کون جواب دے گا؟
اپوزیشن پارٹیاں ترامیم پر تنقید کر رہی ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اب تحریک انصاف کے بھگتنے کی باری ہے کیونکہ ہم نے تو بھگت لیا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن نے حکومت کے ہر کام پر تنقید کرنا ہوتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جمہوری دور کے بعد نیب قوانین میں ترمیم ہونی چاہئے تھی تاکہ کوئی حکمران انتقامی کارروائی کا سوچ نہ سکتا۔ محض وزیراعظم کے یہ بات کہنے پر کہ انہوں نے دوستوں کیلئےنیب کو بے اثر کر دیا ہے،
تنقید کرنے کا کوئی جواز نہیں۔دیکھنا یہ چاہئے کہ بزنس مین تو ہر حکومت کے دوست ہوتے ہیں اور محض کہنے سے دوستوں کو نوازنے کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔
جہاں تک تحریک انصاف کی لیڈر شپ کے خلاف انکوائریاں ختم ہونے کا تعلق ہے تو ہو سکتا ہے کہ ان کو فائدہ ہو لیکن قانون سب کیلئے ہوتا ہے۔ ترامیم کا فائدہ تمام سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں اور ہر مکتب ِ فکر کے لوگوں کو ہوگا۔ مجھے تو فواد چوہدری کی اس تجویز سے بھی اتفاق ہے کہ نیب کو ایف آئی اے میں ضم کر دینا چاہئے۔
محض مخاصمت میں اچھے قوانین کی مخالفت نہیں کرنی چاہئے۔ اسٹیٹ بینک، ایف آئی اے، پولیس، اینٹی کرپشن، نیب اور ایس ای سی پی جیسے اداروں کو آزاد اور خود مختار ہونا چاہئے تاکہ کوئی حکمران بھی اداروں کو انتقامی کارروائی کیلئے استعمال نہ کر سکے اور کرپشن سے بغیر کسی انتقامی کاروائی کے الزام کے نمٹا جا سکے۔