• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

محنت نظر آتی ہے

اللہ رب العزت آپ کی محنتوں، کاوشوں کا بہترین اجردے، آمین۔ سنڈے میگزین ٹائٹل سے آخری صفحے تک معلومات سے بھرپور ہوتا ہے۔ سب سے پہلے تو آپ کا بےحد شکریہ کہ آپ نے میرے خط کو بھی میگزین میں جگہ دی۔ ویسے ایک بات ہے کہ قارئین کےدل جیتنے کا فن آپ کو خوب آتا ہے۔ تازہ شماروں میں کرتار پور راہ داری، برطانوی شاہی جوڑے۔ ڈینگی وبا اور علامہ اقبال سے متعلق مضامین کا جواب نہ تھا۔ بلاشبہ اِک اِک سطر سے آپ لوگوں کی محنت نظر آتی ہے۔ (حُرمت طاہر، تھوراڑ، آزاد کشمیر)

ج:تمہاری نیک بصارت کو سلام۔ ورنہ عمومی طورپر لوگوں کی نگاہ خامیوں، غلطیوں پر تو ضرور جاتی ہے، لیکن سخت محنت کسی کو نظر نہیں آتی۔

آخری بات بہت اچھی لگی

’’غزوات و سرایا‘‘ کے سلسلے میں غزوہ اور سریہ کے فرق کو واضح کیا گیا۔ نیز، یہ بھی بتایا گیا کہ غزوات 27 ہیں، جب کہ سرایا 47۔ یقین کریں پورا مضمون پڑھ کر جو قلبی سُکون ملا، وہ تو اپنی جگہ ہے، معلومات میں بھی خاصا اضافہ ہوا۔ منور مرزا نےبرطانیہ کے تاریخ ساز انتخابات کی تفصیل گوش گزار کی، تو ’’ہمارے ادارے‘‘ میں این آئی سی وی ڈی کا تفصیلی احوال بھی معلومات افزا ثابت ہوا۔ ڈاکٹر مسز نوید بٹ کی خصوصی تحریر مائوں کے لیے بہت مفید ثابت ہوگی۔ ناول بھی اچھا جارہا ہے۔ ’’چمکی ہوئی ہو، موسمِ سرما کی اِک دوپہر.....‘‘ ہی کیا، موسمِ سرما میں تو سہ پہر بلکہ آٹھوں پہرہی نکھرے نکھرے معلوم ہوتے ہیں۔ ویسے اگر قلم آپ کا ہو، تو پھر تو ان صُبحوں، دوپہروں، شاموں کا احوال پڑھنے کا اپنا ہی ایک لُطف ہوتا ہے۔ ’’متفرق‘‘ سلسلے کی تمام ہی تحریریں پسند آئیں۔ ’’کہی اَن کہی‘‘ میں بلال اشرف کی آخری بات بہت اچھی لگی کہ ’’مجھے اپنی دعائوں میں یاد رکھیں۔‘‘ ڈاکٹر قمرعباس کا اندازِ تحریر بھی زبردست ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں عالیہ شمیم کی ’’پردے کی بوبو‘‘ اور ناقابلِ فراموش میں ’’وہ میرا دوست درخت‘‘ بہت پسند آئیں۔ (ضیاءالحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)

ج:باقی سب تو ٹھیک ہے۔ بلال اشرف کی بات میں آپ کو کیا اچھا لگا، یہ سمجھ نہیں آیا۔ ہمارے خیال میں تو 80فی صد پاکستانیوں کی گفتگو کا اختتامی جملہ یہی ہوتا ہے کہ ’’دعائوں میں یاد رکھنا‘‘ شاید اس لیےکہ دوا کرنا تو محنت طلب کام ہے، تو آسان علاج یہی ہے کہ دُعا پر توکّل کرکے بیٹھ جائیں۔ حالاں کہ حُکم پہلے دوا، پھر دُعا کرنے کا ہے۔

گیارہ کھلاڑی اور کپتان

زیرِنظر شمارے کی رُونمائی ہوئی، تو جھیل سے کہیں زیادہ گہری (بلکہ وسیع) آنکھوں والی ماڈل کےسپاٹ چہرے پرنظر پڑتے ہی ارمانوں پر گویا اوس سی پڑ گئی۔ اللہ ایسی اُداسی، غم گینی، رنجیدگی اور سنجیدگی۔ بہرحال، آگے بڑھے تو ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ کے صفحے پر فاروق اقدس ’’دھرنا‘‘ دیئے بیٹھے تھے۔ وہاں سے پلان اے کا حلوہ چکھ کر پلان بی میں صفحہ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ پر آئے اور ’’غزوات و سرایا‘‘ سلسلے سے مستفید ہوئے۔ امجد اسلام امجد نے ’’گفتگو‘‘ میں آج کل کے ڈراموں پر کیا تبرّیٰ بھیجا کہ ’’آج کل کے ڈرامے تو میاں بیوی بھی اکٹھے بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے‘‘ ویسے بائی دی وے آج کل کےمیاں بیوی تو خود ہی ’’ڈراما‘‘ ہیں۔ ہمارے پولٹیکل رائٹر منورمرزا کو امریکا، یورپ میں بڑھتے ہوئے فاصلوں کی فکر دامن گیر تھی۔ ویسے انکل سام کا اپنے دیرینہ حواریوں کو ’’سدا اپنی گاڑی تم آپ ہانکو‘‘ کہنا کوئی معیوب نہیں۔ باہمّت و باحوصلہ خاتون ، سلمیٰ زبیر کی کتھا، قارئین سے شیئر کر کے آپ نے محنت کش خواتین کی خُوب حوصلہ افزائی کی۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘میں برف باری میں سیرسپاٹا پڑھ کر لطفِ مطالعہ دوبالا ہوگیا اور اسکواش پر دوبارہ پاکستانی راج قائم کرنے کے لیے پُرعزم محمد عمّاد کے انٹرویو سے راجا پاکستانی کا چھٹانک بھر خون بڑھ گیا، لیکن ناول کی سب ہیڈنگ پڑھ کر فوراً کم بھی ہوگیا کہ ’’ہر انسان کی ایک کنجی ہوتی ہے، جس سے جلد یا بدیر وہ کھل ہی جاتاہے۔‘‘ اب فکرمند ہیں کہ اپنی ڈائری کو ’’اُن‘‘ سے کیسے بچائیں۔ ڈاکٹر رانجھا نے کافی عرصے بعد ’’ڈائجسٹ‘‘ میں پڑائو ڈالا، تو اچھا لگا۔ اب ہوجائیں باتاں، صفحہ ٔدل پذیر و دل رُبا یعنی ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی، جہاں اس ہفتے کرکٹ ٹیم کی مانند پورے گیارہ لکھاری، قلم بلّے سے رنز بٹور رہے تھے اور ہماری چِٹھی کو مسندِ اعزازی پر بٹھا کر گویا ’’کپتان‘‘ قرار دےدیاگیا۔ (محمد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)

ج:کوئی اور نام سوچیں بھئی۔ اب تو کپتان کے نام پہ بلا وجہ ہی ہنسی آنے لگتی ہے۔

اتنا لمبا انٹرویو کیوں؟

امجد اسلام امجد کا انٹرویو 4صفحوں کا کیوں شایع ہوا۔ وہ کیا ملک کے وزیراعظم لگے ہوئے ہیں، جو اُن کا اتنا لمبا انٹرویو شایع ہوا۔ براہِ مہربانی کسی بھی شخصیت کا انٹرویو ایک صفحے سے زائد شایع نہ کریں اور کبھی ہمارا انٹرویو بھی تو ہونا چاہیے۔آپ ہمیشہ کام یاب لوگوں کے انٹرویوز ہی کیوں چھاپتی ہیں۔ ہم زندگی کے ہرشعبے میں ناکام ہیں اور ناکامی کا بھی الگ ہی مزہ ہوتا ہے۔ تو اس حوالے سے ہمارا انٹرویو بھی ہونا چاہیے اور ذرا کراچی کے سرکاری اسکولوں کی حالتِ زار پر بھی کچھ لکھوائیں۔ (نواب زادہ خادم ملک، سعید آباد، کراچی)

ج:کراچی کے سرکاری اسکولوں کی حالتِ زار پر کیا لکھوائیں۔ ایک مسلّمہ ثبوت تو آپ موجود ہیں، جن کی ذہنی حالت کا یہ عالم ہے کہ امجد صاحب کے تفصیلی انٹرویو پر معترض ہیں اور اُن کے ساتھ خود اپنا انٹرویو کروانے کے بھی خواہاں کہ’’چوں کہ میں ہر شعبہ زندگی میں ناکام ہوں، تو میرا انٹرویو بھی ہونا چاہیے۔‘‘ ہمیں تو ڈر ہے، آپ کو سدھارتے سدھارتے کہیں ہم خود ہی کسی ذہنی مسئلے کا شکار نہ ہوجائیں۔

معلومات کا خزانہ

منور مرزا کے بہت ہی اچھے مضامین پڑھنے کو مل رہے ہیں۔ ہر مضمون اپنی جگہ معلومات کا خزانہ ہوتا ہے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ ایمان افروز سلسلہ ہے۔ ’’رپورٹ‘‘ میں یہ پڑھ کر خوشی ہوئی کہ افریقا میں بھی بلوچ بھائی موجود ہیں۔ ناول عبداللہ کی تو کیا بات ہے۔ 12ربیع الاول کی مناسبت سے ڈاکٹر حافظ محمد ثانی کی تحریر کا جواب نہ تھا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں حکیم سرفراز احمد نے زیتون سے متعلق اچھی معلومات فراہم کیں۔(رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

دل رکھنے کے لیے.....

’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ محبتوں کی ملاقات، شفقتوں کا ملن ہے۔ سرِورق پر ’’خزاں میں رنگ بہار کے رقصاں دیکھے.....‘‘ تو دیکھتے ہی اچھا لگا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں محمّد تنویر ہاشمی، پاکستان سے پولیو کے خاتمے پر فکرانگیز تحریر لے کر میگزین کا حصّہ بنے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں نور خان محمد حسنی نے چاغی کی جغرافیائی اور اقتصادی اعتبار سے اچھی منظر کشی کی۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر عالیہ کاشف اپنی تحریر سے زبردستی خزاں میں بہار کے رنگ بھرتی دکھائی دیں۔ ’’عالمی افق‘‘ میں منور مرزا نے شام میں تُرک فوج کی کارروائی کا تفصیلاً ذکر کیا، تو ’’متفرق‘‘ میں ڈاکٹر طاہر مسعود کا فلم اور ڈرامے کا موازنہ بھی دل چسپ تھا۔ ’’پیارا گھر‘‘ کے ذریعے دسترخواں جھاڑنے کے فن سے بخوبی آشنا ہوئے، تو ناول کی اس قسط نے بھی خُوب محظوظ کیا اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے شیریں و ترش نامے تو میگزین کا اصل ہیں۔ ویسے اگر آپ خادم ملک کا صرف دل رکھنے کے لیے کہہ دیں کہ ’’آپ کا شوٹ کروالیا جائے گا‘‘ تو کیا حرج ہے۔ (ملک محمد رضوان، محلّہ نشیمن اقبال، واپڈا ٹاؤن، لاہور)

ج:ماشاءاللہ چشمِ بد دور…یہ سلسلہ پھر خادم ملک ہی تک محدود نہیں رہے گا۔ پیچھے دل رکھوانے والوں کی ایک لمبی قطار لگ جائے گی اور لگے ہاتھوں آپ بھی بتادیں، آپ کا دل رکھنے کے لیے ہمیں کیا کہنا ہے۔

چوڑانِ میگزین بڑھانے کے باوجود

میرا مکتوب، شاملِ ’’آپ کا صفحہ‘‘ نہ کرنا، ’’میگزینی گمبھیرتائوں‘‘ کا واحد حل نہیں۔ اور محمد سلیم راجا کی ’’راج دھانی‘‘ تو بندھ سی گئی ہے، کوئی لاکھ ’’سر پھٹوّل‘‘ کرلے، مسندِ شاہی، راجا جی ہی کے حصّے آئے گی، پرجا (رعیت) بس منہ ٹاپتی رہ جائے گی۔ اس بار ڈاکٹر احمد حسن رانجھا، سعادت حسن منٹو کے ’’پانچ پڑائو‘‘ بتاگئے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں عائشہ صدیقی نے بھوج پوری کا کاغذی اہتمام فرمایا، بھئی ’’ایپل پڈنگ‘‘ کا تو جواب نہیں، ماشاءاللہ! ’’عبدللہ ثالث‘‘ کی بیس قسطیں بیت گئیں، ککھ پلے نہ پڑسکا کہ ہاشم ندیم ’’فکر‘‘ کو ’’فلسفہ‘‘ فرما رہے ہیں، یا فلسفے کو ’’روح‘‘ کی ردّوکش سے نتھی کررہے ہیں۔ عبداللہ کو اگر ’’اللہ کے بندے‘‘ کے اوصافِ حمیدہ و خمیدہ میں بُن دیا جاتا، تو یہ شاہ کار ناول تھا۔ نئی کتب کی تعدادِ صفحات کےلحاظ سے ’’اعزازیے‘‘ پڑھ کر ہوش اُڑگئے، یہ علم و ادب کس پیچیدہ اِکنامکل مارکیٹ تک جا پہنچا ہے بھئی، اتنی منہگی کتابیں؟ توبہ … ’’چوڑانِ میگزین‘‘ بڑھانےکے باوجود میگزین کے ’’مواد‘‘ میں تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ فاروق اقدس نے اسلام آباد دھرنے کی صورتِ حال واضح کرنے کی سعی کی، لیکن فاٹا کے خیبر پختون خوا میں انضمام کے تمام تر حقائق دبا گئے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں آپ نے ’’سلسلہ غزوات و سرایا‘‘ کا نورانی و معلوماتی ڈول ڈالا۔ رئوف ظفر نے اس ’’اسلام‘‘ سے متعارف کروادیا، جو برسوں سے دو امجدوں میں گھرا ہوا ہے۔ کِھلکھلاتے ’’امجد اسلام امجد‘‘ پر بہت کچھ لکھا گیا، کتب شایع ہوئیں، مقالہ ہا پڑھے گئے، لیکن رئوف ظفر، عام فہم، سلیس اور رواں اندازِ تحریر کی بناء پر گویا بازی لے گئے، اس قدر دل چسپ انٹرویو کہ میگزین ہاتھ سے رکھنے کو دل نہ چاہے۔ فرخ شہزاد ملک نے کوئٹہ کی سجّیاں دکھا کر للچایا تو محفوظ علی خان نے ’’قندھاری نان‘‘ آگے بڑھا کر ہاتھ پیچھے کرلیے۔ ڈاکٹر خالد اقبال نے ’’لحمِ شکم‘‘ (اوبیسٹی) پر لکھا اور ہم ’’فربہی گھٹائو مہم‘‘ کے رکن اعظم ہونے کے ناتے، تحریر کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر ہوگئے۔ منور مرزا، امریکا اور یورپ کے مابین حائل پاٹ رہے تھے، لیکن انٹیلی جینس قوتوں کو بھول گئے۔ یوں لگتا ہے جیسے جمہوریت کو پیچھے دھکیل کر ’’عسکری قیادت‘‘ کا جنون پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ (ختم شُد) (پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی، گلبرگ ٹائون، کراچی)

ج:آپ کے اس چھے صفحاتی طویل نامے میں ہمیں دو لفظ بہت ہی بھائے، ’’ختم ‘‘اور ’’شُد‘‘ اور اطلاعاً عرض ہے کہ چوڑانِ میگزین بڑھی نہیں بلکہ لمبانِ میگزین کم ہوئی ہے، تو تشنگی تو رہے گی ہی۔

سیر حاصل اضافہ

خُوب صُورت سرِورق دیکھ کر دل خوش ہوگیا۔ دیگر صفحات بھی حسبِ روایت شان دار تھے۔ ہر بار کی طرح اس مرتبہ بھی معلومات میں سیرحاصل اضافہ ہوا۔ (شری مرلی چند جی گوپی چند گھوگلیہ، شکارپور)

دل چاہتا ہے

آپ نے کسی کو جواب میں لکھا کہ ’’آسمان کو چُھوتی منہگائی کے سبب لوگوں کے خطوط بھی کم آرہے ہیں۔‘‘ تو بھئی، ہمیں تو آپ نے پابند کر رکھا ہے کہ جب تک ایک خط شایع نہ ہوجائے، دوسرا نہ لکھیں۔ حالاں کہ میگزین میں ہمارا مَن پسند صفحہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ ہی ہے۔ ہمارا بہت دل چاہتا ہے کہ اس پیارے صفحے پر ہر ہفتے ہمارا نام بھی شامل ہو۔ ویسے ہم چاچا چھکّن کو کافی مِس کررہے ہیں۔ (ولی احمد شاد، الامین سٹی، ملیر، کراچی)

ج:دل کی نہیں، دماغ کی سنا کریں۔ پابند اس لیے کر رکھا ہے تاکہ دوسروں کو بھی موقع ملتا رہے۔ یہ بزم صرف راجہ صاحب، پروفیسر صاحب، خادم ملک، شری مُرلی اور ولی احمد شاد کی بزم نہ بن کے رہ جائے۔ اور کبھی تو آپ کے لیے بھی کوئی بے اختیار کہے کہ ’’ویسے ہم ولی احمد شاد کو کافی مِس کررہے ہیں۔‘‘

مایوسی نہیں ہوگی!!

بالاخر ہماری برسوں کی کوشش رنگ لے آئی اور آج ہم آپ کی بزم میں خط لکھنے میں کام یاب ہو ہی گئے۔ مَیں عرصہ8 ، 10سال سے میگزین کا مستقل قاری ہوں۔ انٹرویوز وغیرہ بہت ہی شوق و دل چسپی سے پڑھتا ہوں۔ دراصل مَیں نے اپنی ڈائری میں کچھ تحریریں قلم بند کر رکھی ہیں، خواہش ہے کہ وہ آپ کے میگزین کا حصّہ بن جائیں۔ کیا میں ارسال کردوں، امید ہے آپ کو مایوسی نہیں ہوگی۔ (بلاول، کوٹری، جام شورو، سندھ)

ج:مایوسی تو آپ کے اس خط سے بھی اچھی خاصی ہوئی ہے۔ اب اللہ جانے یہ نام کا اثر ہے یا آپ اپنی خداداد صلاحیتوں ہی کی بنا پر ’’اُردو‘‘ کی ٹانگ توڑنے میں کمال رکھتے ہیں۔ ’’جب زیادہ بارش آتا ہے، تو زیادہ پانی آتا ہے‘‘ کی طرح آپ کے تین صفحے کے خط میں املا کی بیسیوں غلطیوں کے ساتھ کوئی15 ، 20بار جو لفظ ’’لکھاوٹیں‘‘ استعمال ہوا ہے، تو بھئی، اُسے پڑھ کے تو ہماری طبیعت ہی سخت مکدّر ہوگئی۔

تہہ دل سے سیلوٹ

بہت سے سلام، بہت سی دعائیں۔ آپ کو نیا سال بہت مبارک ہو اور تمام قارئینِ کرام کو بھی۔ سال کے اختتام پر مَیں، آپ لوگوں کی قابلِ ستایش کارکردگی اور انتہائی تلخ و ترش، نامساعد حالات میں بھی ہر ہفتے ہماری تشنگی کو سیرابی میں بدلنے کی بھرپور کاوشوں پر تہہ دل سے سیلوٹ پیش کرنا چاہتی ہوں۔ اللہ کرے ادارئہ جنگ خُوب پُھولے پَھلے اور آپ لوگ جہاد بالقلم کے رستے پر اسی طرح رواں دواں رہیں، آمین۔ (نرجس مختار، خیرپور میرس)

ج:ثم آمین اور نوازش، کرم، شکریہ، مہربانی۔

                                                                                            فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

ہمارے پچھلے خط کے جواب میں ماں کے حوالے سے آپ کے تعزیتی کلمات نے ہمارا حوصلہ بڑھایا، مگر آنکھیں ایک بار پھر اشک بار ہوگئیں، کیوں کہ آپ کے دل کا درد بھی ان الفاظ سے صاف عیاں تھا۔ بلاشبہ، ہم ہوں، آپ ہوں یا کوئی اور، بِن مائوں کے بچّوں کے غم سانجھے ہی ہوتے ہیں۔ رواں ہفتے کے شمارے میں ’’عالمی افق‘‘ کے صفحے پر منور مرزا نے برطانیہ کے انتخابات کے ساتھ ہی لبنان اور عراق کے حالیہ بحران سے بھی تفصیلی آگاہی دی۔ اندازہ ہوا کہ میرٹ سے صرفِ نظر کر کے جہاں کہیں بھی دوسرے آپشنز کو ترجیح دی جاتی ہے، بگاڑ ہی پیدا ہوتا ہے۔ ہم پاکستان ہی کا دُکھ لیے بیٹھے تھے، معلوم ہوا اور بھی مُلک ہیں دنیا میں پاکستان کے سوا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا سہل اندازِ بیاں اور موضوعات کا تنوّع قارئین کو اپنے ساتھ جوڑے رکھنے کا اہم سبب ہے۔ امراضِ قلب کے ادارے "NICVD"سے متعلق طلعت عمران کی تحریر معلومات میں گراں قدر اضافے کا باعث بنی۔ کنٹینر پر مشتمل چیسٹ پین یونٹ سےہمارے محلّے کے بھی کئی افراد مستفید ہوچُکے ہیں۔ ہاں، ڈاکٹر سیّد ندیم قمر کی یہ بات کہ ’’بلدیہ عظمیٰ کراچی کے زیر انتظام اسپتال کےحصول کے لیے میئر کراچی سے بات چیت کر رہے ہیں‘‘ ہمیں حیرت میں ڈال گئی۔ جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے، وہ تو سب سے بے اختیار میئر ہیں۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ورلڈ پِری میچورٹی ڈے سے متعلق ڈاکٹر مسز نوید بٹ نےچھوٹی چھوٹی، مگر ہر اہم بات سےتفصیلاً آگاہ کیا۔ ناول خاصّے کی چیز ہے، جسے ہم آخر میں پڑھتےہیں کہ ہاشم ندیم کےجملوں کےمعنی پرت دَرپرت کُھلتےہیں۔ ’’اسٹائل‘‘ کی ماڈل فرحین اقبال کو دیکھ کر بےاختیار ایک شعر ذہن میں آیا ؎ دیکھ کر آئے ہیں کیا عارض و گیسو اُن کے.....لوگ حیران پریشان چلے آتے ہیں۔ متفرق میں فیض کے حوالےسےسیال کوٹ کےاشفاق نیاز کی عُمدہ تحریر پڑھ کر بہت دِنوں بعد ’’رات یوں دل میں تیری کھوئی ہوئی یاد آئی‘‘ والا معاملہ ہوا اور ہم ایک عرصے بعد ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ نکال کر پڑھنے بیٹھ گئے۔ ’’کچھ توجّہ اِدھر بھی‘‘ میں لیاقت مظہر باقری نےمختصر، مگر پُراثر اینٹری دی۔ نوین خالد کی تحریر تو کچرا سٹی کے باسیوں کے دل کی آواز تھی۔ اے کاش! وزیراعلیٰ اور میئر کراچی نے بھی اس آئینے میں اپنے چہرے دیکھے ہوں۔ ڈمپل بوائے بلال اشرف کی بات چیت پسند آئی۔ پڑھے لکھے لوگ انڈسٹری میں آرہے ہیں، اسی لیے نمایاں تبدیلی بھی نظر آرہی ہے(یاد رہے ہم فلموں کی تبدیلی کی بات کررہے ہیں)۔ عالیہ شمیم کی ’’پردے کی بوبو‘‘اچھی لگی۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کی کہانیاں بھی اچھی، مگر رعنا فاروقی غائب تھیں۔ ریحان اعظمی کی تحریر نے رُلادیا۔ بے شک جوان، لائق بیٹے کی موت انسان کو جیتے جی مار دیتی ہے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں پروفیسر منصور احمد مسندِ اعلیٰ پر جلوہ افروز ہوئے اور خُوب ہوئے۔ ویسے یہ آپ ہی کا حوصلہ ہے، جو بھانت بھانت کی بولیاں سُنتی، سمجھتی ہیں اور ہم نےتو آج تک کسی کو محض چاپلوسی کی بنیاد پر مسندِ اعلیٰ تک پہنچتے نہیں دیکھا۔ خطوط تو ہر مرتبہ شکوہ کرنے والے صاحب کے بھی چَھپتے ہی ہیں، تو وہ خود کیا چاپلوسی کرکے ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں جگہ پاتے ہیں۔ (عفّت زرّیں، ملیر، کراچی)

ج:ہم بھی سب بولیاں بھلا کہاں سمجھ پاتے ہیں۔ کتنی ہی باتیں تو کئی فٹ اوپر ہی سے گزر جاتی ہیں۔ اور دوسروں کا تو نہیں پتا، البتہ آپ کی چِٹھی مسند پر جب بھی جگہ بناتی ہے، سو فی صد میرٹ ہی پر بناتی ہے۔

گوشہ برقی خُطوط
  • میری ایک دوست اپنی شاعری شایع کروانا چاہتی ہے، مگر وہ چاہتی ہے کہ اُسے معاوضہ بھی دیا جائے۔ ایسا کوئی سلسلہ ہے، تو بتادیں۔ ناول اچھا جارہا ہے، بلکہ پورا میگزین ہی اچھا ہے۔ (فہیم مقصود، والٹن روڈ، لاہور)

ج:آپ کی ’’تبدیلی سرکار‘‘ نے میڈیا انڈسٹری کو اس حال تک پہنچادیا ہے کہ اس شعبے سے باقاعدہ وابستہ افراد بھی کہیں 6,6 اورکہیں 3,3 ماہ سے اپنے مشاہروں کے لیے پریشان ہیں، کُجا کہ شاعری شایع کروانے کے خواہش مندوں کو معاوضہ دیا جائے۔ سو، اپنی سہیلی سے ہماری طرف سےکہیے کہ ؎ کوئی اُمید بر نہیں آتی.....کوئی صُورت نظر نہیں آتی..... آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی.....اب کسی بات پر نہیں آتی۔

  • کچھ تجاویز ہیں۔ مثلاً ڈاک کے نظام، تاریخ پر کوئی تفصیلی مضمون شایع کریں۔ کیریئر کاؤنسلنگ سے متعلق مضامین بھی شامل ہونے چاہئیں۔ نوجوانوں کی ذہن سازی کے لیے ایجوکیشنل سائیکوتھراپسٹس سے مضامین لکھوا کے شامل کریں۔ نیز، ’’تذکرۃ الاولیاء‘‘ اور ’’احیاء العلوم‘‘ سے بھی کچھ اقتباسات وغیرہ شامل کرتی رہا کریں۔ اور ہاں، گوشۂ برقی خطوط سے لیپ ٹاپ ہٹا کر ڈیسک ٹاپ کیوں لگادیا۔ (محمّد عبداللہ)

ج: تجاویز پر ضرور غور کریں گے۔ لے آؤٹ، عموماً لے آئوٹ ڈیزائنر تبدیل کرتا ہے، نہ کہ ہم۔

  • مَیں آزاد کشمیر کے حوالے سے مستقلاً لکھنا چاہتا ہوں، کیوں کہ مَیں وہیں کا شہری ہوں اور اسلامی نظریاتی کاؤنسل، آزاد کشمیر میں بحیثیت ریسرچ آفیسر کام کررہا ہوں۔ (صیاد حسین گردیزی)

ج: آپ نمونے کے طور پر ایک تحریر تو بھیجیں۔ ساتھ اپنا رابطہ نمبر بھی ضرور لکھیں۔

  • مَیں آپ کے جریدے کی بہت بڑی فین ہوں۔ مجھے جنگ، ’’سنڈے میگزین‘‘ دوسرے رسائل و جرائد سے یک سر الگ اور منفرد نظر آتا ہے۔ کیا مَیں بھی کچھ لکھ کر بھیج سکتی ہوں۔ (ماہم منیر اعوان)

ج:ضرور لکھ کے بھیج سکتی ہو۔ مگر تحریر کی اشاعت، عدم اشاعت کا فیصلہ دیکھنے کے بعد ہی کیا جائے گا۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

تازہ ترین