سائنس اور ٹیکنالوجی کے افق پر ہر روز کچھ نیا نمودار ہوتا رہتا ہے۔ماہرین کبھی جدید گاڑیاں تیار کرکے لوگوں کو حیرت میں مبتلا کردیتے ہیں توکبھی مختلف کام باآسانی کرنے والے روبوٹس متعارف کراکے لوگوں کو مبہوت کردیا جاتا ہے۔حال ہی میں یورپی یونین کے ماہرین نے فصلوں کا درجہ ٔ حرارت ریکارڈ کرنے کے لیے سیٹلائٹ سسٹم تیار کیا ہے۔
اسےتیا ر کرنے کا مقصدیہ اندازہ لگا نا ہے کہ پودے کتنا پانی استعمال کرتے ہیں اور ان میں سے کتنا پانی واپس ماحول میں منتقل ہو تا ہے ۔اس نظام کے ذریعے حاصل کردہ ڈیٹا یہ بتانے میں بھی مددگار ثابت ہوگا کہ مزید فصلیںاُگنے کے لیے کتنا پانی مو جود ہے اورجب پانی کم ہونے لگے گا تو یہ کس طر ح اس کی اطلاع دے گا۔ سائنس دان اس پروگرام کو یورپی یونین ارتھ آبزرویٹری پروگرام کُوپرنیکس میں شامل ہونے کے لیے باآسانی استعمال کرسکتے ہیں۔
اس نئے نظام کو چلانے والی ٹیم کی قیادت کنگز کالج لندن کے پروفیسر مارٹن ویوسٹر کررہے ہیں۔پروفیسر مارٹن ویوسٹرکی زیر قیادت ٹیم پورپی یونین اور یورپی اسپیس ایجنسی کے تعاون سے چلنے والے پروگرام کے اگلے مر حلے کے لیے اختیارات کی متقاضی ہے ۔ ماہرین کے مطابق اس نظام کے ذریعے ہم زراعت سے بہت فائدہ اُٹھا سکتے اور فصل کی پیداوار میں اضافہ بھی کرسکتے ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہمارا سیارہ اور اس کےماحول کی جانچ پڑتا ل کرنا بہت ضروری ہے ،تا کہ لوگ جن عالمی چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں ، اُنہیں ان کے مضراثرات سے بچا کر فائدہ پہنچایا جائے ۔ماہرین کے مطابق ا س کا اہم مقصد زرعی شعبے کو فائدہ پہنچانا اور فصل کی پیداوار میں اضافہ کرنا ہے۔
ماہرین کے مطابق ہم جن عالمی چیلنجز کا سامنا کررہے ہیں،ان کے پیچھے چھپے رازوں کو جاننے کے لیے ہمیں سیارے اور اس کے ماحول کی جانچ پڑتال کرنا ضروری ہے ،تا کہ لوگوں کو حتمی فائدہ دیا جاسکے اور سیٹلائٹ سے ریموٹ سینسنگ فراہم کرنے کا مستقل اور کلیدی راستہ فراہم کرنے کا ایک اہم طریقہ یہی ہے،جسے ہم ٹریک کرنے کے لیےاستعمال کرسکتے ہیں اور مختصر اور طویل مدت میں آنے والی تبدیلی کے بارے میں بھی بتاسکتے ہیں ۔
پروفیسر ویو سٹرکی تحقیق کا منصوبہ ’’لینڈ سر فیس ٹمپریچر مانیٹرنگ ‘‘ (ایل ایس ٹی ایم ) مشن بھی ڈیولپمنٹ سیٹلائٹ کا حصہ ہے ۔یہ کام امریکا کی اسپیس ایجنسی (ناسا ) اور ای ایس اے کے در میان مر بوط کوشش کا حصہ ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ایل ایس ٹی ایم سسٹم انفرادی شعبوں سے تقریباً40میٹر دور در جہ ٔ حرات کو پہچانے کے قابل ہوسکتا ہے ۔سینٹینیل سیٹلائٹ لینڈ سر فیس ٹمپریچر میپنگ سے حاصل ہونے والی تفصیلات کے مطابق یہ سسٹم10سے زائد مرتبہ درجہ ٔ حرارت کی معلومات حاصل کرسکتا ہے ۔
ماہرین کے مطابق درست انداز میں بڑھتا ہوا زمینی درجہ ٔ حرارت زراعت کے لیے زیادہ مفید ثابت ہوگا ۔ ایل ایس ٹی ایم کے محققین کو اتنا فعال ہونے کی ضرورت ہے کہ وہ باآسانی یہ جان سکیںکہ مختلف علاقوں میں کن پودوں کوکتنی مرتبہ پانی کی ضرورت ہے اور ان پودوں کو کتنی بار سیراب کرنے کی ضرورت ہے ۔یہ سسٹم کمپیوٹر ماڈلز کے ذریعے قحط سالی کی صورت حال جاننے میں بھی مدد کرے گا۔اس کے پہلے مرحلے میں پروفیسر ویوسٹر نے لندن ،اٹلی اورجر منی کے مختلف زرعی علاقوں کی فضائی گرمی کے نقشے جمع کیے ۔
اس کام کے لیے ماہرین انتہائی حساس ہوا ئی تھر مل تصور ات کا استعمال کریں گے جو ہمیشہ ہائپر اسپیکٹرل تھرمل اخراج اسپیکٹر ومیٹر (ہائی ٹی ای ایس )بناتا ہے اور جو جڑواں اوٹر ہوائی جہاز پر بھی نصب کیا جاسکے۔اس کے ذریعے حاصل کی گئیں تصاویربہترین معیار کی ہوںگی ،جن کی مدد سے زمینی حالت کی تفصیلات اور قحط سالی کی حالت میں فصل کا ریکارڈ باآسانی حاصل کیا جاسکے گا ۔ اس کے بعد ڈیٹا کو سسٹم ڈیزائن کرنے اور پیمانہ بندی کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
سائنس دانوں کو اُمید ہے کہ آنے والے سالوں میں ایل ایس ٹی ایم آپریشنل اسپیس کرافٹ بن سکتا ہے ۔لندن میں زمین کا مشاہدہ کرنے والے بہترین سائنس داں موجود ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا بر طانیہ یورپی یونین چھوڑنے کےبعد بھی خود کو یورپی یونین کے فنڈ سے چلنے والے کُوپر نیکس پروگرام کا حصہ رکھنا چاہتاہے؟اس بارے میں برطانوی حکومت کا بار با ریہی کہنا ہے کہ اس کی خواہش ہے کہ وہ کُوپر نیکس کے ساتھ شراکت جاری رکھے۔
تاہم ابھی اس بارے میں مزید بات چیت کی جائے گی ۔ پروفیسر ویوسٹر کا کہنا ہے کہ کُوپرنیکس کے لیے لندن کی جاری شرکت مستقبل کے تعلقات کے حوالے سے بات چیت میں اہم ثابت ہوگی ۔دوسری جانب ماہرین درجہ حرارت کے ریکارڈ کا نقشہ مزید بہتر بنانے کے لیے تحقیق کررہے ہیں ۔