کراچی (ثاقب صغیر/اسٹاف رپورٹر) سال 2019میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 13فیصد اور ہلاکتوں میں 40فیصد کمی آئی، دہشتگردی کے سب سے زیادہ واقعات بلوچستان میں پیش آئے، ملک بھر میں پیش آنے والے واقعات میں سے 91 فیصد سے زائد خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے صوبوں میں پیش آئے، ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان اور کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کا کردار مرکزی رہا، داعش کی دہشت گردی کی سرگرمیوں میں نمایاں کمی ہوئی،دہشت گردی کی مالی معاونت کی روک تھام، نیشنل ایکشن پلان کا عملی اطلاق، انتہاپسندی کا سدباب اور سرحد پار سے ہونے والی کاروائیوں سے نبردآزما ہونے کے مسائل گزشتہ برس کے اہم سیکورٹی چیلنجز کے طور پہ سامنے آئے۔دہشت گردی کے زیادہ تر واقعات بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں محدود رہے جبکہ شمالی وزیرستان عسکریت پسندی کے اہم مرکز کی حیثیت سے سامنے آیا، ملک میں ہونے والی مجموعی دہشت گردی کی کاروائیوں میں سے 52 فیصد کا شکار سکیورٹی فورسز وقانون نافذ کرنے والے ادارے تھے، کالعدم بلوچ لبریشن آرمی اور کالعدم بلوچ لبریشن فرنٹ نے 57 حملے کیے جن کی وجہ سے 80 افراد جاں بحق ہوئے۔ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (PIPS) کی 2019ء کی سالانہ سکیورٹی رپورٹ کے مطابق کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان اور کالعدم بلوچ لبریشن آرمی سال 2019ء کے دوران ملک میں سب سے زیادہ عدم استحکام پیدا کرنے والے عناصر کے طور پر سامنے آئے۔ ٹی ٹی پی نے مختلف مقامات پر82 اور بی ایل اے نے 27 حملے کیے، جن میں سے بعض کےانتہائی سخت اثرات مرتب ہوئے۔ تاہم اِس سال داعش کی جانب سے ہونے والی شدت پسندانہ کاروائیوں میں واضح کمی ریکارڈ گئی۔گزشتہ برس پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں 13 فیصد کمی آئی۔ 4 خودکش حملوں سمیت مجموعی طور پہ229 حملے ہوئے جن میں مرنے والوں کی کل تعداد 357 تھی، اموات کی یہ شرح 2018ء کے مقابلے میں چالیس فیصد کم ہے، جبکہ ان حملوں میں 729 افراد زخمی ہوئے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان، اس سے علیحدگی اختیار کرنے والی جماعت حزب الاحرار اور ان جیسے دیگر نام نہاد شدت پسند گروہوں کی جانب سے کی جانے والی کاروائیاں 158 تھیں جو 239لوگوں کی اموات کا باعث بنیں۔ قوم پرست باغی گروہوں جن میں بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ لبریشن فرنٹ ہیں، نے 57 حملے کیے جن کی وجہ سے 80 افراد جاں بحق ہوئے۔ دریں اثنا دہشت گردی کے 14 واقعات ایسے پیش آئے جو فرقہ وارانہ پس منظر کے تھے اِن میں مرنے والوں کی تعداد 38 تھی۔یہ اعدادوشمار پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (PIPS) کی 2019ء کی سالانہ سکیورٹی رپورٹ میں پیش کیے گئے ہیں۔ جائزے میں مزید بتایا گیا ہے کہ مجموعی طور پہ مرنے والے 357 افراد میں سے 164 عام شہری اور 163 سکیورٹی و قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار تھے جبکہ ان میں سے 30 عسکریت پسند شامل ہیں۔ سکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو پہنچنے والا جانی نقصان غیرمعمولی ہے اس کا سبب یہ ہے کہ 118 حملوں کا نشانہ یہی تھے۔ پورے ملک میں ہونے والی مجموعی دہشت گردی کی کاروائیوں میں سے 52 فیصد کا شکار سکیورٹی فورسز وقانون نافذ کرنے والے ادارے تھے۔ خیبرپختونخوا میں 125 حملے ہوئے جن میں 145 افراد کا جانی نقصان ہوا اور 249 لوگ زخمی ہوئے۔ شمالی وزیرستان عسکریت پسندوں کے اہم مرکز کی حیثیت سے سامنے آیا، یہ ملک کا واحد ضلع ہے جو ایک سال میں 50 سے زائد حملوں کا نشانہ بنا۔دہشت گردی کی کاروائیوں کے تناظر میں 2019ء کے دوران صوبہ بلوچستان ملک میں سب سے زیادہ متأثر ہونے والا علاقہ رہا۔ وہاں اس عرصے میں 171 افراد جاں بحق ہوئے اور زخمی ہونے والوں کی تعداد 436 تھی۔ صوبے میں مختلف اوقات میں 84 واقعات سامنے آئے تھے۔ ملک میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں مجموعی طور پہ ہلاک ہونے والے 357 افراد کی تعداد میں سے 48 فیصد کا تعلق بلوچستان سے رہا۔ جبکہ صوبہ سندھ میں 14 واقعات پیش آئے جن میں سے 10 کراچی شہر میں اور 4 اندرون سندھ میں وقوع پذیر ہوئے۔ ان میں 18 افراد کا جانی نقصان ہوا اور 2 زخمی ہوئے۔ پنجاب میں 5 واقعات رونما ہوئے اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دہشت گردی کا ایک واقعہ ریکارڈ کیا گیا۔گزشتہ برس سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے مختلف آپریشنز اور ان سے جھڑپوں و تصادم میں 113 عسکریت پسند ہلاک کیے گئے تھے۔ 2018ء میں ایسی نوع کی کاروائیوں کے دوران 105 عسکریت پسند ہلاک کیے گئے تھے۔ پورے ملک میں مختلف سطح کیے گئے سرچ آپریشنز میں دہشت گردوں اور مسلح شدت پسند تنظیموں سے تعلق رکھنے والے 231 افراد کو حراست میں لیا گیا۔2018ء کے مقابلے میں 2 فیصد کے معمولی فرق کے ساتھ گزشتہ برس سرحد پار سے پاکستان میں 118 حملوں کے واقعات سامنے آئے۔ ان میں سے 4 افغانستان سے تھے، 123 بھارت سے اور ایک حملہ ایرانی بارڈر سے کیا گیا۔ سرحد پار حملوں میں 91 پاکستانی جانوں کا نقصان ہوا جن میں سے 61 عام شہری تھے، 29 آرمی کے اہلکار جبکہ ایک کا تعلق رینجرز سے تھا۔رپورٹ میں سکیورٹی سے متعلقہ بعض اہم چیلنجز کی نشاندہی بھی کی گئی ہے اور چند سفارشات بھی پیش کی گئیں جن میں (۱)حکومتِ پاکستان کی تمام تر کوششوں کے باوجود دہشت گردی کی مالی معاونت پر قابو پانے کا مسئلہ ابھی تک ایک اہم چیلنج کے طور پہ برقرار ہے۔ محض ایف اے ٹی ایف کے مطالبات کی مجبوری میں وقتی حکمت عملیوں اور تراکیب کے استعمال کی بجائے پاکستان کو مستحکم ادارہ جاتی حیثیت میں مالی معاونت کی روک تھام پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔(۲)پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی کا چیلنج کئی طرح کی مشکلات رکھتا ہے، کالعدم مذہبی تنظیموں کے ارکان کی بنیادپرست ذہنیت کی تحلیل کا معاملہ بھی کافی پیچیدگی کا حامل بن رہا ہے۔ کالعدم عسکریت پسند تنظیموں اور ان کے خیراتی اداروں کے ممبران میں بڑھتی ہوئی مایوسی کے تناظر میں بھی ایسے اقدامات کی حاجت ہے۔ بالخصوص ایسے وقت میں کہ جب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان کے خلاف نئی مہم کا آغار کر رکھا ہے۔(۳)خیبرپختونخوا کے سکیورٹی چیلنج کے حوالے سے کمزور ریاستی اقدامات کا سبب جزوی طور پہ فاٹا کے خیبرپختونخوا کے ساتھ انضمام کے عمل کی سست روی سے منسلک تھا۔ اس کی وجوہات میں بیوروکریٹک، سیاسی اور قانونی مشکلات ہیں جنہیں فوری طور پہ دور کرنے کی ضرورت ہے۔(۴) بلوچستان کے حوالے سے حکومت جلدازجلد ایک وسیع منصوبہ تشکیل دے جس کے ذریعے باغیوں کے قومی دھارے میں انضمام کو ممکن بنایا جاسکے۔ بلوچ نوجوانوں میں یہ احساس تقویت اختیار کر رہا ہے کہ تشدد سے کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا، ریاست کو بھی اسی رُخ میں سوچنے کی ضرورت ہے۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ایک تیزرفتار میکنزم کی تشکیل صوبے میں اعتماد کی فضا کو پروان چڑھاسکتی ہے۔(۵)پاکستان میں مذہبی عدم رواداری کی اپنی مخصوص حرکیات ہیں تاہم حالیہ برسوں میں انٹرنیٹ پر فعال بڑے انتہاپسند گروہوں کے ساتھ روابط کے سبب اس کی شدت و حجم میں قدرے اضافہ ہوا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک معتدل تعلیمی نظم کے فروغ سے اس کا سدباب کرے، علاوہ ازیں انٹرنیٹ، میڈیا اور تعلیمی درسگاہوں میں روادار و ترقی پسند بیانیوں کی تقویت کے لیے کام کیا جائے۔(۶)نیشنل ایکشن پلان(NAP) کو ایک فعال و مربوط منصوبے میں ڈھالنے کی ضرورت ہے، جس کے واضح اہداف ہوں، اس میں نگرانی کا جامع طریقہ کار وضع کیا جائے اور اسے متواتر جائزے و نظرثانی کے عمل سے گزارا جاتا رہے۔ نیشنل ایکشن پلان کو خطرات کی بدلتی ہوئی نوعیت کے تناظر میں تبدیل ہوتے رہنے چاہیے اور اس کی ایک فعال و مؤثر پالیسی ہونی چاہیے تھی۔(۶)حکومت نے حال ہی میں مدارس کی رجسٹریشن اور انہیں ریگولرائز کرنے کے حوالے سے بعض اقدامات اٹھائے ہیں، تاہم یہ محدود اقدامات مدارس کے مالی امور کی دیکھ بھال، تعلیمی نظم، نفرت انگیز تقاریر، فرقہ وارانہ بیانیوں اور بنیادپرست عناصر کے اس حلقے میں رسوخ جیسے مسائل کے حل میں ایک باضابطہ نگرانی کے بندوبست کا متبادل نہیں ہوسکتے ہیں۔ ایسے باضابطہ نگرانی کے بندوبست صوبوں یا اضلاع کی سطح پر قائم کیے جاسکتے ہیں جن میں تعلیمی محکمہ جات، مذہبی علما، سول سوسائٹی اور والدین کی نمائندگی ہونی چاہیے شامل ہیں۔