• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سپریم کورٹ نے اوورسیز پاکستانیوں اور دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے اس سلسلے میں بیرونی ملکوں میں پولنگ کے انتظامات کرنے کی ہدایت بھی کی ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی ان ہدایات کو عدالتی حکم کا احترام دے کر کوئی عملی اقدام یا انتظام کیا بھی جائے گا یا پھر کسی تاویل، دلیل یا عملی شکل کا سہارا لے کر پاکستان کو سالانہ 12ارب ڈالرز کا زرمبادلہ فراہم کرنے والے پاکستانیوں کو ووٹ کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے اور غیرممالک میں پاکستانی سفارتخانوں اور قونصلیٹس میں محض چند نمائشی انتظامات اور سفارتی عملہ سے ووٹ ڈلوا کر کاغذی کارروائی مکمل کر لی جاتی ہے۔ دہری شہریت والے اور غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے ساتھ ضیاءالحق، فاروق لغاری، رفیق تارڑ، پرویز مشرف اور آصف زرداری کے دور صدارت میں بھی بیرون ملک پاکستانیوں کو پاکستان کا انتہائی اہم اثاثہ اور غیرملکوں میں پاکستان کے متحرک سفیر جیسے دلکش زبانی القابات تو ضرور دیئے ہیں مگر عملاً ان کے ساتھ تیسرے درجے کے ایسے شہری کا سلوک کیا گیا ہے جس کی زندگی، کمائی، خوشحالی اور سوچ سبھی کچھ پاکستانی حکمرانوں کے لئے وقف اور ان کی تابع ہو اور پاکستان کیلئے ہر وقت جان دینے کیلئے تیار رہے مگر جواب میں اسے کوئی حق یا رعایت نہ دی جائے۔ پاکستان میں سیلاب، زلزلہ یا قدرتی آفات کی صورت میں وہ اپنا انفرادی اور ملّّی فریضہ سمجھ کر کئی کئی سو ملین ڈالرز کی امدادی اشیائ، عطیات و ادویات اپنے ہم وطنوں کیلئے حکمرانوں کو ضرور فراہم کریں مگر یہ سوال نہ کریں کہ یہ اشیاءاور رقومات کہاں اور کن ضرورت مندوں کو دی گئیں یا یہ بدعنوان افسروں اور حکمرانوں کی عیاشی، کرپشن اور لوٹ مار کے کام آئیں؟ کسی ایک زلزلے یا سیلاب یا قدرتی آفت کا ذکر نہیں ماضی کے 40 سالوں میں پاکستان میں ہر جمہوری اور فوجی حکومت نے بیرونی ملکوں میں مقیم پاکستانیوں اور دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کے ساتھ زبانی خوش بیانی دے کر انہیں ہر طرح کے حقوق سے محروم رکھا اور پاکستانیت کے نام پر انہیں اپنے ذاتی، سیاسی، مالی اور دیگر مفادات کیلئے بے دریغ اور بلامعاوضہ استعمال کیا ہے۔
پی آئی اے، سفارتخانے اور بیرونی دنیا میں پاکستانی بینکوں کے سربراہان بھی اپنے حکمرانوں کی تقلید کرتے ہوئے انہی پاکستانیوں کے پاکستان سے لگاﺅ کے جذبات کا خوب استعمال فرماتے ہیں۔ ممکن ہے کہ آپ کا تاثر یہ ہو کہ دہری شہریت والے پاکستانی دہرے فوائد اٹھاتے اور خوشحالی کی زندگی گزارتے ہیں اور پاکستان کو کچھ نہیں دیتے جبکہ پاکستان میں زندگی بسر کرنے والا سنگل پاکستانی شہریت کا حامل پاکستانی ہی تمام تر مسائل اور قربانیوں کا سامنا کرتا ہے۔ دہری شہریت والے پاکستانیوں کے بارے میں چند حقائق آپ کو جان کر اندازہ ہوگا کہ حقائق کیا اور کتنے مختلف ہیں۔مثلاً ایک سنگل پاکستانی شہریت کے حامل کو بھارت جانے کا ویزا ملنا ایک امریکی پاسپورٹ والے پاکستانی کے مقابلے میں کتنا آسان ہے۔ اگر آپ کے امریکی پاسپورٹ پر آپ کی جائے پیدائش پاکستان لکھی ہے تو بھارتی ویزا حکام انکوائری اور تصدیق کے نام پر دو تین ماہ یا اس سے بھی زیادہ تاخیر سے ویزا دیتے ہیں بلکہ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ آپ کا پاسپورٹ امریکی ہے آپ پاکستانی شہریت کی منسوخی کا خط لے آئیں تو بھارت کا ویزا جلد مل جائے گا۔
ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ امریکی شہری اور پاسپورٹ ہونے کے باوجود پاکستانی شہریت کو رکھنے پر کس شک اور امتیازی یکطرفہ سلوک ملتا ہے۔ امریکی حکام سے، امریکی شہریوں سے مساوی سلوک نہ ہونے کی شکایات ابھی تک مسئلہ کو حل نہیں کرسکیں۔ اسی طرح پاکستانی والدین کے ہاں امریکہ میں پیدا ہونے والے امریکی شہری نوجوانوں سے بھارت کے ویزا کیلئے والدین کی اصلی شہریت اور جائے پیدائش بتانے کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے اور پھر تاخیر، شبہ اور دیگر تلخ حقائق سر اٹھاتے ہیں۔ پاکستان میں اپنے لواحقین اور رشتہ داروں کیلئے آپ کی ترسیلات کو مانیٹر کیا جاتا ہے اور بسا اوقات اس بارے میں سوال و جواب کا سامنا بھی کرنا پڑ جاتا ہے۔سانحہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر نیویارک یعنی 11 ستمبر 2001ءکے بعد امریکی گرین کارڈ یا سٹیزن شپ کے باوجود پاکستانیوں کی جس طرح نگرانی، تلاشی، سوال و جواب، ٹیکسوں کی چھان بین، نقل و حرکت کی نگرانی اور مساجد و شاپنگ کی مانیٹرنگ سے امریکہ کے پاکستانی گزرے ہیں اس کا تو پاکستان میں رہنے والوں کو اندازہ بھی نہیں۔ اپنے ہی بچوں اور نئی نسل سے چبھتے ہوئے مشکل سوالات، نئی نسل کی امریکہ میں پرورش اور پاکستان سے لاتعلقی، عام امریکی معاشرے میں خود کو پُرامن اور دہشت گردی کا مخالف ثابت کرنے کی انتہائی مشکل جدوجہد بھی دہری شہریت والے پاکستانیوں کی قربانی ہے جبکہ دوسری طرف پاکستانی سیاستدان، بیوروکریٹ اور کرپٹ حکام پاکستان جانے پر ان پاکستانیوں کو رشوت اور کمائی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
دہری شہریت والے پاکستانی کو وہ تمام قانونی تحفظ اور مراعات حاصل نہیں ہیں جو سنگل امریکی شہریت والے امریکی کو امریکی سفارتخانہ فراہم کرسکتا ہے۔ امریکی سفارتخانہ پر بعض قانونی حدود دہری شہریت کے معاملے میں عائد ہو جاتی ہیں۔ پاکستان میں خرید کردہ جائیداد پر قبضہ، اغوا برائے تاوان، ایئرپورٹس حکام کی کرپشن اور لوٹ مار، پولیس کی بلاجواز بلیک میل اور جرائم پیشہ گروہوں کی وارداتوں کا آسان ٹارگٹ یہی بیرون ملک مقیم پاکستانی اور دہری شہریت والے پاکستانی ہیں۔ جو اپنی تعلیم محنت صلاحیت کے بل بوتے پر امیگریشن یا ویزا حاصل کر کے ان ملکوں میں آ جاتے ہیں اور اپنے خاندانوں کی کفالت اور پاکستان کی خدمت کرتے ہوئے ان مشکلات کا شکار ہوتے ہیں البتہ انہی ملکوں میں پاکستان کے ریٹائرڈ بیوروکریٹ، جنرل، ایڈمرل اور اعلیٰ بااختیار پوزیشنوں پر فائز رہ کر بعض صورتوں میں پاکستان میں رشوت اور ناجائز کمائی کے انبار ڈالروں میں تبدیل کر کے امریکہ لے آئے ہیں اور امریکہ و کینیڈا میں آسائش و آسودگی کی زندگی گزارنے اور جائیدادوں کے انبار لگانے میں مصروف ہیں۔ وہ نو دولتیے عناصر بھی ہیں جو پاکستانی سیاستدانوں کی ضروریات اور انتخابی فنڈز پورا کر کے مراعات اور کرپشن و اختیارات کی دوڑ کا حصہ ہیں۔ ان کی تعداد بہت کم ہے اول الذکر پاکستانی آپ کی توجہ اور ستائش کے حقدار ہیں۔
تازہ ترین