امریکا کے مغربی حصے کے پہاڑوں میں کسی زمانے میں بھیڑوں کے گلہ بانوں کے یہاں کبھی کبھی ایک آنکھ والے بھیڑ کے بچے پیدا ہوتے تھے۔60سال پہلے آئی ڈاہو کی ریاست کی چراگاہوں کے گلہ بانوں نے ان کیمیکل کے اثرات اپنی بھیڑوں پر نقصان دہ پائے تھے۔ پیدا ہونے والےبھیڑ کے بچوں کے چہروں پر ایک آنکھ ہوتی یا نیچے کا جبڑا غائب ہوتا تھا۔ اس کےعلاوہ بھی چہروں کے اوربگاڑ بھی ہوتے تھے۔ ایسے بچوں کو وہ بندر کے چہرے والے کہتے تھے۔ ان کو وہ دفن کردیتے تھے اور اس جینیاتی بگاڑ کا ذکر بھی نہیں کرتے تھے ،تا کہ اس کی شہرت کے سبب ان کی بھیڑوں کی قیمت میں کمی نہ آجائے۔
1955ءمیں جب کہیں کہیں بگڑے ہوئے چہرے والے بھیڑ کے بچوں کی تعداد 25فی صد ہوگئی تھی۔ تو پھرگلہ بانوں نے امریکی محکمہ زراعت سے رجوع کیا ۔ وہاں سے ان کی مدد کے لیے لین جیمز کو بھیجا گیاجو ان جانوروں کی غذائوں کا ماہر تھا۔ جب جیمز اور اس کے انچارج نے ان مسائل پر تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ اس بگاڑ کی وجہ مائوں کی جینیاتی خرابی نہیں ہے۔یعنی وہ بگاڑکسی اندرونی خرابی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی وجہ کوئی بیرونی خرابی ہے۔ چناں چہ جیمز نے چراگاہوں میں خود بھی بھیڑوں کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا ۔ جو جنگلی پودا یا جڑی بوٹی بھیڑیں کھاتی تھیںوہ ان سب کے نمونے جمع کرکے ان کومحفوظ کرتا تھا۔
اس تحقیق کے لیے وہ تین موسموں تک پہاڑی چراگاہوں میں ان کے ساتھ رہا۔ اپنی تحقیقات سے انہوں نے سفید پھولوں والے ایک لمبے جنگلی پودے کو اس کی وجہ جان کر اس پر توجہ مرکوز کردی۔ جو جھنڈ کی شکل میں ہوتا ہے اور جس کوکائوکیبیج((Cow cabbage کہا جاتا تھا۔ غالبا ًکسی کسان نے اس کو درہ میں لگادیا تھا۔ اس کو’’کارن للی ‘‘بھی کہتے ہیں۔ جیمز نے اس کے پتوں کو پیس کر پیسٹ بناکر بھیڑوں کو زبردستی کھلایا تو پیدا ہونیوالے کچھ بچے ایک آنکھ والے اور لمبی ناک والے تھے،جس کے بعد فیڈرل کیمسٹ کائو کیبیج کے زہر نکالنے کے کام پر لگ گئے۔
جو زہر دریافت ہوا ۔ماہرین نے اس کو سائیکلو پامائن کا نام دیا تھا۔1990ء میں بیچی کی جان ہاپکنس کی لیب میں چند بایولوجسٹ سالموں سے اس طرح چھیڑ چھاڑ کر کے ان کو جینیاتی سوئچ کی طرح استعمال کر نا چاہتے جیسے بجلی کے سوئچ سے لائٹ بند ہوتی اور کھلتی ہے ، تاکہ اس طرح جینیاتی سوئچ بند کر کے اس کی خاصیت کو بند کردیا جائے۔ جب انہوںنے ایک جین کو بند کیا تو اس نے ایسا مادّہ بڑھادیا جو اگر آگے بڑھے تو چوہے کا سائیکلوپس بن جائے گا۔
اس بات کے معلوم ہونے کے بعد اس نے کتابوں کی طرف رخ کیا اور ایک کتاب میں آئی ڈاہو کے ایک آنکھ کی بھیڑ کی تصویر دیکھی تووہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ کینسر کے ان مریضوں کے لیے خاص طور پر فائدہ مند ہوسکتا ہے جو گارلن سنڈروم کا شکار ہیں۔ یعنی کائو کیبیج ہیج ہاگ جین کے کام کرنے کو روک دیتا ہے۔یہ کوئی پرانے جین نہیں بلکہ یہ پروٹین کو اس طرح کوڈ کرتے ہیں کہ وہ جنین ا نجینئرز(embryonic engineers )کا کام کرکے خام خلیات کو دماغ، آنکھوںیا ہڈیوں میں تبدیل کرتے ہیں۔ یہ کام بہت دقیق لیکن انتہائی اہم ہے۔
ہیج ہاگ پروٹین ہماری اندرونی تعمیر ی کے کاریگر ہیں جب جنین کی خلیاتی ہیج ہاگ پروٹین جب پروٹین کے مقررہ خلیات کو ہدایت کرتی ہے تو وہ اپنی شناخت بدل کر بڑھنا شروع کردیتے ہیں اور ایک عضو بناتے ہیں۔اسی طریقے کار سے وہ جسم بنتے ہیں ،جن کو ہم مختلف ناموں سے جانتے ہیں۔ جن میں بھاری بھرکم ہاتھی، اڑنے والی چڑیا اور تتلی کے علاوہ ساری مخلوقات کے ساتھ انسانوں کے مختلف چہرے بھی شامل ہیں۔ جب یہ جین اور پروٹین درست کام نہیں کرتے تواس جسم کا بنیادی(ڈھانچہ) آرکیٹیکچر خراب ہوجاتا ہے۔
شیرن کی خاندانی تصاویر میں ا س کی نشانیاں نظر آتی تھیں جیسے معمول سے بڑے سر،غیر معمولی ابھری ہوئی بھنویں، دانتوں کے درمیانی مختلف فاصلے اور جلدی سرطان جیسے بیماریاں شامل تھیں ۔ ہیج ہاگ جین کاگارلن سنڈروم سے باہمی تعلق جب معلوم ہوا تھا جب اس کےمریضوں نے اپنی جسمانی رقیقیں ریسرچ کرنے والوں کو دی تھیں۔ان میں سان فرانسسکو کی یونیورسٹی آ ف کیلی فورنیا کا ایک ڈاکٹر بھی شامل تھا جو بعد میں پیلے فارم کے قیام کا شریک کار بن گیا تھا ا ن کا نام ڈاکٹرارون ایپسٹائن تھا۔
ڈاکٹر ایپسٹائن کا تعلق سان فرانسسکو کے خلیجی علاقے کے جلدی ڈاکٹروں کے خاندان سے تھا۔ جہاں جلدی دھبے اور سرطان زدہ جلد عام تھی۔ ان کو جلدی آپریشن کرانے کا شوق تھا۔ غالباًیہ شوق ایک نسلی تبدیلی کی وجہ سے تھا جو گارلن کے مریضوں میں عام تھا۔ انہوں نے اس کی وجوہات جاننے کے لیےپورے ملک کا دورہ کیا اور اس کے مریضوں کا خون لیا اور گارلن سے متاثر مریضوں کے ان رشتے داروں کے جین سے ان کے جین کامقابلہ کیا جو اس سے متاثر نہیں ہوئے تھے انگلینڈ کے علاقے میں اسے ایک ایسی خاتوں ملی ،جن کے10 بچے تھے جن میں آدھے گارلن سے متاثر تھے جبکہ آدھے بالکل تندرست تھے۔ اس نے ماں کے خون کا نمونہ لیا۔
اس نے تقریباً50 اشخاص سے خون کے نمونے حاصل کرکے کافی محنت سے کام کیا۔ لیکن 1992ءمیں ییل یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ڈی این اے کاایک ایسا حصہ دریافت کرلیا جہاں پر گارلن کے مریضوں میں رسولیوں کی پیدائش روکنے کا ذریعہ موجود نہیں تھا۔ایپسٹائن 19سال تک خون کے نمونوں پر تحقیقات کرتا رہا کہ اس مخصوص جین کی نشان دہی کرسکے لیکن ناکام ہی رہا۔ 1995ءمیں اسے اسٹین فورڈ میں کیڑوں پر ریسرچ کرنے والےسے بات ہوئی۔ اس نے ایپسٹائن کو بتایا کہ میں نے وہ جین معلوم کرلیا ہے، جس کی تمہیں تلاش ہے۔یہ ہیج ہاگ جین میں سے ایک ہے۔
عام طور پر ہمارے جسم کی تعمیر کے کیمیائی سگنل کنڈے اور تالوں میں بند کرکے اس کی چابی محفوظ رکھی جاتی ہے۔ جب ہم جنین کی شکل اختیار کرلیتے ہیں تو ہیج ہاگ جین اس کی کنڈی کوچابی سے کھول کر ان کو آزاد کردیتے ہیں ۔جب ہمارے جسم کی سیمٹری( symmetry) قائم ہوکر انگلیاں اور ایڑیاں تکمیل پا جاتی ہیں تو پھر کنڈی بند ہوجاتی ہے ،کیوں کہ پروٹین نے اپنا کام ختم کردیا ہے۔ گو اس میں مثتثنیات بھی ہیں جیسے ہماری روزانہ بڑھتی ہوئی جلدہوتی ہے۔البتہ زیادہ تر ٹشوز کے لیے ہیج ہاگ جین بند ہوجاتے ہیں۔
لیکن گارلن سنڈروم کے مریضوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ شیرن جیسے مریضوں کےبہت سی رسولیاں پیدا ہوتی ہیں،کیوں کہ ان کے جسم میںہیج ہاگ جینوں کو کنٹرول کرنے کا تالا موجود نہیں ہوتا ہے۔ایک آنکھ والے میمنوں میں یہ سگنل بہت کم ملتے تھے جب کہ گارلن سنڈروم کے مریضوں کو بہت زیادہ سگنل ملتے ہیں۔ بھیڑ کے میمنوں میں بڑھوتری رک گئی تھی جب کہ مریضوں میں بنا کنٹرول کے یہ بڑھوتری جاری تھی۔