• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قائدِ اعظم محمّد علی جناح کی ذہانت و فطانت ، مستقل مزاجی، بلکہ مکمل شخصیت ایک ایسے اعلیٰ مدبّر کا نمونہ تھی، جو اپنے جوہر دِکھانے کے لیے کسی مناسب وقت اور موقعے کا انتظار کر رہی ہو۔ سرسیّد احمد خان کے بعد ملّت کی تنظیم اور اس کے نصب العین کی تکمیل کے لیے قائدِ اعظم کی شخصیت میں ایک ایسا رہنما اُبھر اکہ جس کی بھر پور صلاحیّتوں اور استقامت سے ملّت کے اُس خواب کو، جسے اس کے اکابر ایک عرصے سے ہندوستان میں آزاد اسلامی مملکت کی صُورت دیکھتے آئے تھے، بالآخر تعبیر مل گئی۔

1906ء میں انہوں نے برّ ِعظیم کی سیاسی زندگی میں قدم رکھااور جہدِ مسلسل، دور اندیشی، جرأت مندی اور حق گوئی کی مثال قائم کردی۔ برّ ِ عظیم کی سیاسی زندگی میںوہ بڑے نشیب و فراز، کشمکش و اضطراب کا زمانہ تھا۔ مسلمانوں کے پیشِ نظر کئی مسائل و معاملات تھے۔ وہ ایک طرف حکومت کی بے توجّہی ، ظلم و زیادتی کا شکار تھے، تو دوسری طرف ہندوئوں کی نفرت، ’’انڈین نیشنل کانگریس ‘‘ (ہندوؤں کی نمایندہ سیاسی جماعت) کی مخالفانہ تحریکوں اور مُسلم کُش فسادات کے نرغے میں بھی گِھرے تھے۔ 

قائدِ اعظم کی اعلیٰ بصیرت اور غیر معمولی قائدانہ صلاحیّتوں نے منتشر اور مضطرب مسلمانوں کو، اُن کے اس مقصد اور نصب العین کے تحت ،جس کا خواب وہ ایک عرصے سے دیکھ رہے تھے،بالآخر متحد اور منظّم کرنے میں کام یابی حاصل کر لی اورقیام ِ پاکستان کے ذریعے ملّت کو اس منزل تک پہنچادیا، جو اس کے لیے ایک معینہ مقدّر کی علامت تھی۔ایسا بھی نہیں تھاکہ قائدِ اعظم ہمیشہ ایک ہی راستے پر چلے ہوں۔ 

پہلے پہل وہ ہندو،مسلم اتحاد کے حامی تھے۔ انہوں نے 1916ء میں مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان اس معاہدے کی تشکیل میں، جو ’’میثاقِ لکھنؤ‘‘ کے نام سے مشہور ہے، ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ یہ معاہدہ ان کی نیک نیّتی ہی پر مبنی تھا ۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہندو، مسلمان اتحاد کے ذریعے بہت جلد آزادی حاصل ہو سکے گی، لیکن کانگریس نے اس معاہدے پر عمل نہ کیا اور اس موقعے پر تو دراصل وہ مکمل آزادی کی خواہش مند بھی نہ تھی۔

قائدِ اعظم کانگریس کے اس رویّے سے خاصے مایوس ہوئے۔ پھر جب اس کی مُسلم دشمن تحریکیں شروع ہوئیں اور کانگریس نے ہمیشہ مسلمانوں کے قومی وجود اور ان کے مؤقف کو نظر انداز کیا ،تو قائد ِاعظم نے نہ صرف اس کی تحریکوں سے بے زاری کا اظہار کیا، بلکہ کانگریس کے مقابلے میںمسلمانوں کے حقوق کے تحفّظ کے لیے زیادہ مستعد ہوگئے۔

انہوں نےاس کا ایک مؤثر اظہار ’’نہرورپورٹ‘‘ کے جواب میں ’’14 نکات‘‘ پیش کرکے کیا، جو انہوں نے مسلمانوں کے مطالبات کے حق میں پیش کیے تھے۔ بعد ازاں، گول میز کانفرنس اور 1935ء کی قانونی اصلاحات کے جواب میں ان کے دئیے گئے بیانات ،برّ ِاعظم کے مسلمانوں کے مؤقف کی بہترین نمایندگی کرتے ہیں۔ حکومت اور ہندوئوں کی مُسلمان دشمنی کے تمام پہلونمایاں ہوجانے کے بعد قائدِ اعظم کی پوری کوشش یہی تھی کہ برّ ِاعظم میں صرف دو قوّتوں (انگریز، ہندوؤں)کا نہیں، ایک تیسری قوّت، مسلمانوں کا بھی حق ہو۔

اُن کی جدّوجہد کا ایک ہی مقصد رہا کہ مسلمان چوںکہ ہر اعتبار سے ایک علیحدہ قوم ہیں، اس لیے انہیں ان کے مخصوص اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہوناچاہیے۔ اس صورتِ حال میں ان کی جدّوجہد ایک مقرّرہ منزل کے حصول کی جانب مستقل آگے بڑھتی رہی اور مگر متعدد دشواریاں اورمخالفتیں بھی اُس کے آڑے نہ آسکیں۔ 

نتیجتاً بدلتے تقاضوں کے مطابق مسلمانوں کو متّحد کرنے ، مسلم لیگ کو منظّم اور فعال بنانے اور اسے وسعت دینے میں کام یابی حاصل ہوئی۔ قائدِ اعظم اپنی قوم کے مزاج سے بھی خُوب اچھی طرح واقف تھے اور مخالفین کی نفسیات سے بھی۔ 

اس لیے سیاسی زندگی کے تمام مراحل و مقامات پر ان کو پوری گرفت حاصل رہی ، قائدکا سیاسی ذہن بے حد منظّم، مرتّب اور مستحکم تھا،لہٰذا وہ ناسازگار حالات میں بھی اپنی بلا کی خود اعتمادی، بلند حوصلگی اور یقینِ محکم کے سبب ناقابلِ تسخیر ہی رہےاور یہی اوصاف وہ اپنی قوم میں بھی دیکھنا چاہتے تھے، اسی لیے کسی حالت میں بھی قوم کو دل رفتہ اور دل شکستہ نہ ہونے دیا۔ 

محض اپنی فہم و فراست فراست، مستقل مزاجی اور بلند حوصلگی سے اپنے سے زیادہ طاقت وَر دشمنوں کا مقابلہ کیا اور ایک عرصے تک طویل اعصابی جنگیں مذاکراتی میزوں ، عملی سیاست کے میدانوں میں لڑیں۔

تازہ ترین