اسلام آباد(حیدر نقوی) ایک بات تو طے ہے کہ عمران خان کی حکومت کے لیے سب کچھ اچھا نہیں چل رہا اور کہیں نہ کہیں آگ لگی ہوئی ہے جس کا دھواں پچھلے کئی دنوں سے کبھی ادھر اٹھتا ہے اور کبھی اُدھر ۔
متحدہ اور جی ڈی اے کے بعد اب ق لیگ بھی کچھ لو اور کچھ دو کی جستجو میں پی ٹی آئی کے بڑوں سے ایک دفعہ پھر مل رہی ہے۔
لاہور میں آج ہونے والی ملاقات کے بارے میں ذرائع بتاتے ہیں کہ ق لیگ نے اس ملاقات کو حتمی ملاقات کا نام دیا ہے اور پی ٹی آئی کو بتادیا ہے کہ اگر اب وعدے پورے نہیں ہوئے تو پھر ہم حکومتی عہدوں سے مستعفی ہوجائیں گے تاہم حکومت گرانے کی کسی کوشش کا حصہ نہیں بنیں گے۔
مگر ذرائع کے مطابق ق لیگ بڑی خاموشی اور سنجیدگی کے ساتھ اسمبلیوں میں تبدیلی لانے کے عمل کو عملی جامہ پہنانے کی تیاریوں میں ہے ۔
ق لیگ قومی اسمبلی پنجاب اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی میں تبدیلی لاسکتی ہے اور اس سلسلے میں مولانافضل الرحمن کے ذریعے ساری اپوزیشن بھی مکمل طور پر شریک ہے تاہم ق لیگ کھل کر اس لیے بات نہیں کرتی کیونکہ اُسے ڈر ہے کہ کہیں وزیراعظم فوری طور پر اسمبلی توڑنے کا فیصلہ نہ کرلیں جس سے ق لیگ کی حیثیت میں بہت فرق پڑے گا۔
اطلاعات کے مطابق مولانا بھی اس بات پر تیار ہوگئے ہیں کہ اگر عمران خان جاتے ہیں تو وہ اس اسمبلی کو قبول کرنے کو تیار ہیں۔ بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر قدوس بزنجو نے گزشتہ ہفتے مسلسل دو دفعہ چوہدری پرویز الہی سے ملاقات کی ۔
اطلاعات یہ ہی ہیں کہ وہ بلوچستان میں ق لیگ کے ذریعے مولانا فضل الرحمن کی مدد سے تبدیلی لانا چاہتے ہیں جس میں اُن کے ساتھ بلوچستان عوامی پارٹی کے ناراض ارکان بھی شامل ہیں جو کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی موجود ہیں۔
قدوس بزنجو کے ساتھ بلوچستان عوامی پارٹی کے سات ناراض ارکان جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کے چار اور اسرار اللہ زھری گروپ کے تین ارکان حکومتی بینچوں سے شامل ہیں جبکہ اپوزیشن کے بائیس ارکان ملاکر 65 کے ایوان میں 36 ممبران کی اکثریت سے صوبائی حکومت بدل سکتے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں ق لیگ خود وزارت اعلی کا عہدہ چاہتی ہے اور مولانا فضل الرحمن اس سلسلے میں نون لیگ کو تیار کرچکے ہیں۔
اگر مرکز میں نون لیگ کو وزارت عظمی ملتی ہے تاہم مریم نواز نے اس اسمبلی کے ذریعے نون لیگ کی وزارت عظمی لینے کی شدید مخالفت کی ہے اور وہ چاہتی ہیں کہ نئے الیکشن ہوں اور نون لیگ الیکشن جیتے۔
مگر لگتا ایسے ہی ہے کہ فی الحال نون لیگ مریم نواز سے زیادہ شہباز شریف کے فیصلوں پر آگے بڑھے پیپلز پارٹی مرکز اور پنجاب میں بڑی وزارتوں کو حاصل کرسکتی ہے اور بلاول بھٹو اس کے لیے تیار ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ بلاول بھٹو کوئی بھی وزارت نہ لیں اور پیپلز پارٹی بغیر کوئی شرط رکھے اس تبدیلی کی حمایت کردے
تاکہ عوام پر باور کرایا جائے کہ ہم وزارتوں کے لالچی نہیں۔ پنجاب میں اس وقت 368 کے ایوان میں حکومت کے ساتھ ق لیگ کے دس ارکان اور چار آزاد ارکان ملاکر 195 ارکان ہیں جبکہ اپوزیشن کے ساتھ 173 ارکان ہیں۔
اگر چوہدری پرویز الہی اپنے ساتھ دو آزاد ارکان اوکاڑہ سے جگنو محسن اور ملتان سے قاسم عباس بھی لے آتے ہیں تو سادہ اکثریت سے وزیر اعلی بننے میں کامیاب ہوجائیں گے جبکہ اطلاعات یہ ہی ہیں کہ اُن کے ساتھ پی ٹی آئی کے چوبیس ناراض ارکان بھی ہیں جو کہ کسی بھی رائے شماری کے دن اسمبلی سے غیر حاضر ہوسکتے ہیں۔
ق لیگ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اُن کی قیادت وفاقی حکومت سے بہت زیادہ مایوس ہے کیونکہ وفاقی حکومت جو بھی وعدہ کرتی ہے وفا نہیں کرتی اور ہمیشہ فنڈز کی کمی کا بہانہ کرتی ہے جبکہ میانوالی ڈیرہ غازی خان اور جہلم میں اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز فوری طور پر دے دیے گئے ہیں۔
مگر ہمارے حلقوں کے لیے کچھ نہیں جس سے ہمارے ووٹرز میں شدید مایوسی ہے انھوں نے کہا کہ ہاؤسنگ کی وزارت ہمارے پاس ہے مگر ہمیں نہیں پتا کہ پچاس لاکھ گھر بنانے کے فیصلے کہاں ہورہے ہیں اور تیاری کن مراحل میں ہے ہم ایک مرکزی اور تجربہ کار اتحادی ہیں مگر مشرق وسطی کی موجودہ صورتحال میں پاکستان کے کردار سے متعلق کیے گئے اہم ترین فیصلوں پر ہم سے کوئی رائے لی گئ اور نہ بتایا گیا ۔
ق لیگ اور دیگر اتحادی اب اس بات پر متفق ہیں کہ پی ٹی آئ کے رہنماؤں کے کسی وعدے کا اعتبار نہیں کیونکہ لگتا ہے کہ اُن کا اختیار نہیں ہے اور وہ حکومت میں اتحاد برقرار رکھنے اور وعدوں کی تکمیل کے لیے کہیں اور سے ضمانت چاہتے ہیں بصورت دیگر وہ اتحاد چھوڑ سکتے ہیں۔
پی ٹی آئ کے ذرائع نے کہا ہے کہ ق لیگ ایک اہم اتحادی ہے اور ہم اسے مایوس نہیں کریں گے جلد تمام مسائل حل کرلیے جائیں گے۔