• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

آئی جی کلیم امام پر سندھ کی چارج شیٹ، خدمات وفاق کے سپرد، تبادلے پر وزیراعظم کا گورنر سے مشورہ

آئی جی کلیم امام پر سندھ کی چارج شیٹ، خدمات وفاق کے سپرد


کراچی ( اسٹاف رپورٹر) سندھ کابینہ نے انسپکٹر جنرل پولیس کلیم امام کی خدمات وفاق کے سپرد کرنے کی منظوری دیدی۔

سندھ کابینہ نے آئی جی کلیم امام پر چارج شیٹ بناتے ہوئے کہا کہ اغواء برائے تاوان بالخصوص لڑکیوں، کار اور موٹر سائیکل چھیننے کےبڑھتے ہوئے واقعات ، معصوم افراد کی پولیس فائرنگ سے ہلاکت اور صورتحال کو کنٹرول کرنے میں انسپکٹر جنرل آف پولیس ناکام رہے ہیں ۔ 

تحریک انصاف نےآئی جی کلیم امام کی خدمات وفاق کو واپس کرنے کے فیصلے کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کیا ہے۔سندھ کابینہ نے وفاقی حکومت سے کہا ہے کہ پولیس افسران کے پینل سے کسی تجربہ کار سینئر پولیس افسر کی سندھ میں تعیناتی کی جائے ، کابینہ نے 4؍ ناموں کے ایک پینل کو نامزد کیا ہے جس میں غلام قادر تھیبو، مشتاق مہر، ثناء اللہ عباسی اور کامران فضل شامل ہیں ۔ 

ادھر وزیراعظم عمران خان نے آئی جی سندھ کے معاملے پر گورنر سندھ عمران اسماعیل سے ٹیلیفون پررابطہ کرکے مشورہ کیااور گورنر سندھ کو اس ایشو پر تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا ٹاسک بھی دیااور انہیں اسلام آباد بھی طلب کرلیا۔ 

تفصیلات کےمطابق گزشتہ روز ایک نکاتی ایجنڈے پر مشتمل صوبائی کابینہ کا اجلاس وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت وزیراعلیٰ ہائوس میں منعقد ہوا جس میں چیف سیکرٹری سندھ ، ممتاز شاہ، صوبائی کابینہ کےتمام ارکان ، وزیراعلیٰ سندھ کے پرنسپل سیکرٹری ساجد جمال ابڑو، سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری قانون نے شرکت کی۔ 

کابینہ نے کہا کہ آئی جی پولیس جرائم کنٹرول کرنے میں ناکام رہے ہیں اور انہوں نے متعدد بار قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے جس میں فارن مشنز اور سفارتخانوں سے حکومت اور فارن آفس کی اجازت کے بغیر براہ راست رابطے اور براہ راست خط و کتابت شامل ہے۔ 

کابینہ نے کہا کہ ایس ایس پی کے خلاف ایکشن لینے کے بجائے آئی جی پولیس نے اس کا دفاع کیا اور ایک بار پھر صوبائی حکومت کی پوزیشن کو خراب کیا۔ 

کابینہ نے اس بات کو بھی نوٹ کیا کہ بسمہ،دعا منگی کے اغواء کیسز اور ان کے والدین کی جانب سے تاوان کی رقم کی ادائیگی کے بعد اُن کی واپسی ہوئی۔ کابینہ نے ارشاد رانجھانی کے ایشو کو بھی اٹھایا جسے رحیم شاہ نے بھینس کالونی میں عوام کے سامنے گولی ماری تھی۔ 

پولیس نے ارشاد رانجھانی کو اسپتال لے جانے کے بجائے اُسے اپنی موبائل میں پولیس اسٹیشن لے آئے ، ایک طرح سے پولیس نے رحیم شاہ کو اُسے گولی مارنے کی اجازت دی۔

کابینہ نے متفقہ طور پروفاقی حکومت سے آئی جی پولیس ڈاکٹر کلیم امام کی خدمات واپس لینے کا کہا اور کسی سینئر افسر جس نے سندھ میں خدمات انجام دیں ہوں اُسے ان کی جگہ تعینات کرنے کا کہا جس کے لیے صوبائی کابینہ نے متفقہ طور پر 4 ناموں کی سفارش کی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے گریڈ 21 اور گریڈ 22 کے 30 پولیس افسران کے ناموں کی فہرست کو پڑھا اور کابینہ نے 4 ناموں کے ایک پینل کو فائنل کیا۔ کابینہ نے غلام قادر تھیبو،مشتاق مہر، ثناء اللّٰہ عباسی اور کامران فضل کے ناموں کو حتمی شکل دی۔ 

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ثناء اللّٰہ عباسی کو حال ہی میں خیبر پختونخوا میں آئی جی پولیس تعینات کیاگیا ہے مگر وہ اس کے باوجود وفاقی حکومت سے درخواست کریں گے۔ 

کابینہ نے متفقہ طورپر کہا کہ آئی جی پولیس ڈاکٹر کلیم امام کابینہ کا اعتماد کھو چکے ہیں لہٰذا انہیں لازمی طورپر تبدیل کیاجائے۔ کابینہ نے وزیراعلیٰ سندھ پر زور دیا کہ وہ وزیراعظم سے آئی جی پولیس سندھ کی تبدیلی کی درخواست کریں جیسا کہ کابینہ نے سفارش کی ہے تاکہ صوبے میں امن و امان اور پولیس کی مجموعی کارکردگی بہتر ہوسکے۔ 

کابینہ نے وزیراعلیٰ سندھ سے یہ بھی درخواست کی کہ وہ آئی جی پولیس ڈاکٹر کلیم امام کیخلاف ان کے مس کنڈیکٹ اور صوبائی قواعد و ضوابط پر عملدرآمد پر ناکامی کے حوالے سے مکمل تفصیلات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو بھیجیں تاکہ وہ اس کیخلاف تادیبی کارروائی کریں ۔

دوسری جانب سندھ میں آئی جی پولیس کوہٹانے اورصوبے میں نئے آئی جی سندھ کی تقرری کی سندھ کابینہ کی سفارش پر گورنر سندھ عمران اسماعیل سے وزیراعظم عمران خان نے ٹیلیفون پررابطہ کرکے مشاورت کی ہے۔

سرکاری ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے گورنر سندھ سے آئی جی سندھ کے معاملے پر ٹیلیفونک رابطہ کیااور گورنر سندھ کو اس ایشو پر تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا ٹاسک بھی دیا ہے جبکہ گورنرسندھ عمران اسماعیل کے قریبی ذرائع نے اس امرکی تصدیق کی ہے کہ وزیراعظم نے وزیراعظم عمران خان نے گورنر سندھ کو مزید مشاورت کے لیے اسلام آباد طلب کرلیا ہے۔ 

کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیر اطلاعات و محنت سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ کہ موجودہ آئی جی سندھ نے کابینہ کا اعتماد کھو دیاہے، کراچی سمیت کئی اضلاع میں بہتری کے بجائے امن وامان کی صورتحال خراب ہوئی ہے، کلیم امام کیخلاف ڈسپلنری ایکشن کی سفارش کی گئی ہے، کابینہ نے آئی جی سندھ کو ہٹانے کے اسباب وفاق کو ارسال کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ آئی جی سندھ کو خطوط لکھےگئے ہیں 13؍ دسمبر کو آئی جی کو بتایا گیا کہ حکومت اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے رجوع کررہی ہے، اس دوران آئی جی کلیم امام نے غیرذمہ دارانہ بیانات دئیے، پولیس کی بگڑتی کارکردگی اور آئی جی سندھ کے غیر خلاف قانون رویوں پر سندھ حکومت نےذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولیس کا دفاع جاری رکھا مگربدقسمتی سےپولیس کی کارکردگی بہترنہیں ہوئی۔

آئی جی فرماتے ہیں کہ مجھے ٹی وی کے ذریعے افسران کو ہٹانے کا علم ہوا، جبکہ متعلقہ آفسر آئی جی کے ناپسندیدہ آفسر تھے جبکہ ایک ایس ایس پی جسکا تبادلہ سندھ حکومت نے کیا انکی کی خدمات وفاق نے مانگیں تھیں لیکن آئی جی سندھ غیر زمے دارانہ بیانات دیتے رہے۔ایس ایس پی کو سندھ سےبھیجنے پر آئی جی نےاعتراض کیا۔ 

سعید غنی کا مزید کہنا تھا کہ پولیس کا محکمہ براہ راست مختلف سفارت خانوں کو خط لکھتارہا جو کسی صورت بھی قانون اجازت نہیں دیتا اورکچھ انٹیلی جنس ایجنسیوں نےچیف سیکرٹری کو خط لکھاکہ پولیس افسران کو روکاجائے کہ وہ برائے راست غیر ملکی سفارتخانوں سے رجوع نہ کریں کیونکہ یہ کام محکمہ خارجہ کے توسط سے ہوتا ہے۔ 

اس دوران وفاقی حکومت کو خطوط بھی براہ راست لکھےگئے اور یہ سب کچھ کلیم امام صاحب کے زیر سایہ ہوتا رہا۔بسمہ اوردعامنگی اغوا کیس بھی ہوا، اس سے قبل ارشاد رانجھانی کا قتل ہوا جس میں پورے سندھ میں غم و غصہ پایا گیا۔ 

تمام ایس ایس پیز اور ایڈیشنل آئی جیز آئی بھی کلیم امام کی تجویز پر تعنیات ہوتے رہے مگر حالات روز بروز خراب ہوتے رہے۔ مسائل کافی عرصے سے چل رہےتھے ہماری کوشش تھی کہ آئی جی معاملات کو بہترکرلیں۔ 

مگر ایسا نہ ہوا حوالات میں قیدیوں تک ویڈیوز بنانے کی اجازت دی جاتی رہی۔ صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ یہ صرف سندھ میں ہی کیوں ہوتاہے۔ 

سعید غنی کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ، پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں کتنے آئی جی تبدیل ہوئےکبھی وجوہات نہیں بتائی گئیں۔ دیگر آئی جیز کی تبدیلی پر کبھی کوئی مقدمہ عدالت میں نہیں گیا لیکن سندھ میں ایسا ہوتا ہے آخر کیو؟ 

سعید غنی نے کہا کہ پولیس افسران کے میڈیا بریفنگ پر پابندی صرف ہم نے نہیں لگائی یہ وفاقی حکومت کی پالیسی تھی جس کا صوبوں میں بھی اطلاق ہوا۔

تازہ ترین