• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکرفردا … راجہ اکبردادخان
آج کل کے’’این آر اوموسم‘‘ میں چلتی سیاسی گفتگو میں کئی ہائی پروفائلرز کو عدالتیں ضمانتیں بھی دے رہی ہیں۔ پارلیمان کے اندر معاملات پر اپوزیشن دست بدستہ تعاون پیش کررہی ہے۔ افواج پاکستان کے سربراہان سے متعلق آئینی حوالوں سے بل اسمبلی سے پاس ہوچکے ہیں۔ تمام پارلیمان یک جماعتی بھی نظر آئی اور مختلف مضبوط گروہوں کا ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت اتحاد بھی نظر آیا جس میں نہ کوئی وژن ہے اور نہ ہی مقصدیت واضحہے۔ ماسوائے ا س کے کہ ’’این آراو ایکسچینج‘‘ کے اس نہایت معتدل موسم میں ہر کوئی اس ملک کی قیمت پر این آر اوز حاصل کررہا ہے۔ خان صاحب کے پاس پارلیمنٹ میں اکثریت نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہیں قدم قدم پر اپنا ایجنڈا بڑھانے میںمشکلات آرہی تھیں اور ہیں۔ پی پی، ن لیگ کا اتحاد پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اگر زیادہ مضبوط نہ تھا تو اتنا کمزور بھی نہ تھا۔ مولانا کا حالیہ مارچ اور ایک مختصر دھرنا ایسی مثال ہے کہ کم سے کم تردد اور خرچ پر زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرلئے گئے ۔ بڑے میاں صاحب کو باعزت اخراج مل گیااور ان کے کئی اہم سیاسی رفقاء کو بھی عدالتوں سے ریلیف مل گئی۔آصف زرداری، فریال تالپور اور کئی دیگر اہم رہنمائوں کو بھی میاں صاحب کی تقلید میںنظام نے ریلیف دے دیا ہے۔ عمران خان جب سے وزیراعظم بنے ہیں ’’میں کسی کو این آر او نہیںدوں گا‘‘ کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ وہ دیکھتے ہی رہ گئے اور لوگوں کو این آر او مل گئے اور مزید ملیں گے۔ خان صاحب کا یہ بیانیہ ان این آر اوز کے بوجھ تلے دب کر علم نہیںفوت ہوگیا ہے یا زندہ ہے؟ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ جس کی اونرشپ بڑے میاںصاحب کے مضبوط ہاتھوںمیں ہے کئی لاکھ لوگوں کی آواز بن چکا ہے۔ حقیقت میں اس بیانیہ نے جماعت کو متحد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ میری ذاتی رائے میںمیاں صاحب کا واپس پاکستان جانا درست فیصلہ نہ تھا۔ تمام سکون اور آرام والی زندگی گزارنے والے نوازشریف کیلئے اڈیالہ اور کوٹ لکھپت کی تنگ و تاریک رہائش گاہوں میںوقت گزارنا نہایت تکلیف دہ تھا تاہم انہوں نے یہ مشکلات برداشت کیں۔ اہم لوگوں سے تعلقات بنانے میںوقت لگا تب کہیں معاملات ایک ٹھہرائو کے بعد آگے چل پڑے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں سیاست اور صحافت کے سینے میںدل نہیںہوتا جس کی ایک تازہ مثال دو حالیہ تبصرے ہیں دونوںمیں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ بیانیہ کو دفن کردیاگیا ہے۔ اگر میں غلط نہیںتو اس طرح کے پچھلے کئی طویل تبصرے اس بیانیہ کو حالیہ وقتوںکا ایک اہم سیاسی وژن مان کر لوگوں کو اس پر چلنے کیلئے ہمہ دم تیار کرتے رہے۔ ہم سب پر واضح ہے کہ میاں صاحب جس انقلاب کو لانے کی راہ پر چل نکلے تھے انہیںکئی لاکھ ہمسفر نہ مل سکے جن کی وہ توقع کررہے تھے۔ کچھ اپنوںاور کچھ غیروں کی کمزور مشاورت نے انہیں اس مقام پر لاکھڑا کردیا ہے جہاںسے انہوںنے اپنے اردگرد ایک نئی مسلم لیگ (ن) منظم کرنی ہے۔ بڑے میاںصاحب سیاسی اور ذاتی حوالوں سے بہت کچھ کھو چکے ہیں۔ لیکن جس طرح نظام نے ان کے اور مریم کیلئے راستے بظاہر بند کردیئے ہیں دونوں باپ، بیٹی اور مسلم لیگ (ن) کا ایک بڑا حصہ اس دیوار کو راہ سے ہٹانے کیلئے پرعزم ہیں۔ دونوں جلد سیاست میں متحرک ہونے کی توقع کرتے ہیں۔عام انتخابات ساڑھے تین سال بعد ہوںگے آج کے مشکل حالات میں بھی ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ بلدیاتی انتخابات اور ضمنی انتخابات میں اپنا اثردکھاتا رہے گا، کیونکہ غلط یا صحیح پنجاب میں بالخصوص یہ تاثر بہت مضبوط ہے کہ نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ پی پی کے قومی بیانیہ (روٹی کپڑا اور مکان) کسی طرح یہ بیانیہ بھی لوگوں کے دلوں میںپیوست ہوچکا ہے۔ جسے ایک ٹرم کی حکومت میںاکھاڑ پھینکنا ممکن نہیں۔ آج ایک طرف نواز بیانیہ ہے اور دوسری طرف بہت سے سیاستدانوں کی من پسند ’’مفاہمت‘‘ ہے۔ سابق وزیراعظم کیلئے اب کسی مفاہمت کا حصہ بننا ذہنی طور مشکل ہے۔ دونوں باپ بیٹی اور ان کے ہمنوا بہت آگے نکل چکے ہیں۔ حالیہ ’’یوٹرن‘‘ جسے (ن) کے ووٹرز اور سپورٹرز نے پسند نہیں کیا حالات کو سٹیج بائی سٹیج بہتر کرنیکی کوشش ہے۔ دو قدم آگے بڑھنے کیلئے اگر ایک قدم پیچھے بھی جانا پڑجائے تو (ن) والوں کیلئے سودا مہنگا نہیںہے۔ چاہتے نہ چاہتے جلد ایک مرحلہ پر لوگوں کو فیصلے کرنے پڑ جائیں گے کہ دونوںبھائیوں میںسے کس کے ساتھ چلنا ہے۔ (ن) کے ووٹر کو توڑ کر اپنے ساتھ ملا لینا یا اسے کسی مختلف قیادت کے پیچھے چلنے کیلئے تیار کرلینا ’’نظام‘‘ کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ درمیانی راستہ بنانے کی کوششیں جاری ہیں اگر رانا ثنااللہ اپنی چھ ماہ کی قید کا حساب مانگ سکتے ہیں، (جسکا جواب کسی نہ کسی شکل میں دینا پڑے گا) تو علم نہیں میاںصاحب کتنی چھ ماہوں کا حساب مانگنے نکل پڑیںگے؟ (ن) اس وقت خود حکومت میںآنے کی پوزیشن میںنہیں لیکن موجودہ حکومت کو مستحکم رکھنے میں اپنا رول ادا کرسکتی ہے۔ کرپشن پر معیار گرائے بغیر اگر اس طرح کے عملی اقدامات اٹھنے شروع ہوجاتے ہیں تو دونوں اطراف کا فائدہ ہے۔ نظام بھی یہی چاہتا ہے کہ یہ دونوں جماعتیں مرکز اور صوبوں میں ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے ایک دوسرے کو آئوٹ کرنے کے خوف کے بغیر کام کریں۔ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ بیانیہ اس تمام صورت حال پر ایک تلوار کی طرح لٹکا رہے گا۔ نواز شریف اور مریم کی اقتدار میںجلد واپسی کو اس حکومت کی اچھی کارکردگی ہی روک سکتی ہے۔ ورنہ اس دن کا انتظار کیا جائے جب وہ ووٹوں سے لدی گاڑیوں کے جلوس میں اقتدار کے مرکز میںداخل ہوسکتے ہیں۔ ایسے لمحات اسٹیبلشمنٹ کے کئی حصوں کیلئے تکلیف دہ ہوںگے۔ جہاں سے ملکی استحکام اور جمہوریت کیلئے خطرات جنم لے سکتے ہیں۔ ملک ماضی قریب سے بے شمار مشکلات کا شکار چلا آرہا ہے۔ اسے معاشی اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہے، ہر وہ قدم اٹھایا جانا قومی مفاد میںہے جو یہ استحکام مہیا کرسکے۔ اللہ مملکت پاکستان کا محافظ رہے۔
تازہ ترین