دیکھا جائے تو بلوچستان کا اولین مسئلہ صرف اور صرف تعلیم ہے۔ بدقسمتی سے یہاں 63لاکھ بچوں میں سے صرف 13لاکھ بچے اسکول جاتے ہیں جبکہ 23لاکھ بچے اسکولوں سے باہر اور تعلیم جیسی نعمت سے محروم ہیں۔ 36فیصد اسکولوں میں پانی جیسی بنیادی سہولت ہی میسر نہیں۔ 56فیصد اسکولوں میں بجلی نہیں ہے۔ ان اعداد و شمار کی تصدیق کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ 2017کی مردم شماری کے اعداد و شمار نکال لیں، ان میں آپ کو بچوں کی تعداد معلوم ہو جائے گی اور پھر محکمہ تعلیم کی انرولمنٹ کو دیکھ لیں، ہر چیز واضح ہو جائے گی۔ یہی حال کالجز کا ہے جہاں مستند اساتذہ میسر نہیں ہیں، اچھی لیبارٹریز نہیں ہیں، جہاں لیب ہیں وہاں سامان نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کا لٹریسی ریٹ کم ہے دوسری جانب حکومت کی ترجیحات دیکھیے کہ وہ بولان میڈیکل یونیورسٹی تمام اخراجات کے ساتھ لینے کی خواہش مند ہے حالانکہ بچوں کے اسکول اس سے چلائے نہیں جاتے۔ محکمہ تعلیم سیکنڈری ایجوکیشن نے وزیراعلیٰ بلوچستان کو ایک سمری ارسال کی ہے جس میں درخواست کی گئی ہے کہ ہمارے اٹھارہ سو پرائمری اسکول بند ہیں، انہیں فعال بنانے کیلئے ان اسکولوں کو پی پی ایچ ائی کے حوالے کیا جائے، پی پی ایچ آئی جو سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے پاس ایک ہیلتھ کیئر کمپنی کے طور پر رجسٹرڈ ہے، جس نے اپنے قیام سے لے کر اب تک صرف پرائمری ہیلتھ کیئر میں ہی کام کیا ہے، نجانے وہ کس طرح اسکولوں کو چلائے گی؟ بلوچستان کی سابق حکومتیں بولان میڈیکل کالج کو عوام کا پیٹ کاٹ کر سالانہ ڈیڑھ ارب روپے کی رقم ادا کر رہی تھی لیکن کم اندیش سوچ نے اپنے چھوٹے سیاسی قد بڑھانے کیلئے کالج سے یونیورسٹی بناکر وہی خرچ چھ ارب کر دیا ہے۔ بلڈنگوں کو یونیورسٹی قرار دینے والے شاید اس بات سے بے خبر ہیں کہ پنجاب میں تقریباً 64میڈیکل کالجز ہیں اور یہ سب یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور کے ساتھ منسلک ہیں۔ ان کو ایک رکھنے کی بنیادی وجہ کوالٹی کو برقرار رکھنا ہے جبکہ بلوچستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں یونیورسٹیوں کی تعداد تو بڑھائی جا رہی ہے لیکن ان کے معیار میں اضافے کے بجائے گراوٹ ہو رہی ہے۔ صوبے میں ڈگری جاری کرنے والے اداروں میں بولان میڈیکل یونیورسٹی کی شکل میں ایک اور ادارے کا اضافہ ہو گیا ہے۔ میڈیکل ایجوکیشن کی اگر بات کی جائے تو دوسری بدقسمتی میڈیکل کالجز کی کوالٹی کو دیکھے بغیر صوبے میں سرکاری میڈیکل کالجز کی بھرمار کرنا ہے۔ کوئٹہ کے علاوہ لورالائی، خضدار، تربت میں میڈیکل کالجز کا قیام عمل میں لایا گیا ہے اور بولان میڈیکل کالج کو راتوں رات بغیر کسی منصوبہ بندی کے یونیورسٹی بنانا قوم پرستی کی شکل میں سابق حکومت کی صوبہ دشمنی تھی۔ صوبے میں بنائے گئے 3میڈیکل کالجز بلڈنگ کی حد تک تو بنائے گئے ہیں لیکن پی ایم ڈی سی رولز کے تحت درکار بنیادی معیار کو پورا نہیں کیا گیا۔ ایسے میں ان اداروں میں طلبہ کے بہتر تعلیمی معیار کو کس طرح یقینی بنایا جا سکتا ہے؟ یہاں پر پلاننگ کا فقدان ہے۔ جہاں دیگر غفلتیں کی گئی ہیں وہیں پر کالج کی فیکلٹی کو لے کر بولان میڈیکل یونیورسٹی ایکٹ کی حد تک تو بنا دی گئی ہے لیکن اب کیا کرنا ہے، یہ کسی کو سمجھ نہیں آرہا ہے۔ ایکٹ کے مطابق وائس چانسلر کا انتخاب لازمی طور پر یونیورسٹی کے سینئر پروفیسرز میں سے ہوگا۔ اگرچہ مارکیٹ میں ان کے مقابلے میں بہتر امیدوار دستیاب ہو سکتے ہیں۔ بلوچستان حکومت کے کمپیوٹروں میں صوبے کے قیام سے لے کر آج تک موجود ڈرافٹوں کو کٹ، پیسٹ کرکے تاحال صوبے کے تمام انتظامی معاملات چلائے جا رہے ہیں جس میں شاید ایسا کوئی ڈرافٹ موجود نہیں تھا کہ ڈاکٹروں کو یونیورسٹی کا حصہ بنانے سے پہلے مجبور کیا جاتا کہ وہ ٹیچنگ اور کلینکل اسٹاف کے شعبوں میں سے لازمی طور پر ایک شعبے کا انتخاب کریں یعنی پڑھانے والے ڈاکٹرز کی کلینک پریکٹس پر پابندی عائد نہیں کی جاتی۔ یونیورسٹی بننے کے بعد نائب قاصد سے اوپر تک، تمام اسٹاف کی تنخواہ ڈبل ہوگئی جو صوبائی حکومت کیلئے ادا کرنا ممکن نہیں۔ موجودہ صوبائی حکومت نے پہلے ہی فنڈنگ سے انکار کر دیا ہے۔ بلوچستان میں اعلیٰ تعلیمی ادارے بنانے سے پہلے صوبائی سروس کے افسران کی استعداد کار بڑھانے اور ان کی ذہنی نشوونما کی شدید ضرورت ہے تاکہ ان کو معلوم ہو کہ یونیورسٹی کا مقصد بڑی بلڈنگ نہیں بلکہ ریسرچ ورک ہوتا ہے۔ پہلے اس بات کو دیکھنا چاہئے تھا کہ بلوچستان میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی فنڈنگ سے چلنے والی یونیورسٹیوں میں اکیڈیمک ریسرچ ورک ہوتا ہے؟ ایسی صورتحال میں جب بلوچستان حکومت اپنی مدد آپ کے تحت جس چھوٹے سے بی ایم سی کالج کو بہتر انداز میں چلانے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہو کیا وہ معیاری میڈیکل یونیورسٹی بنانے کی سکت رکھتی ہے یا صرف میڈیکل کالج کی بلڈنگ پر یونیورسٹی کا بورڈ آویزاں کرنے سے یونیورسٹی قائم ہو جاتی ہے؟ کیا بولان میڈیکل یونیورسٹی کے زیر انتظام چلنے والے بی ایم سی اسپتال کو بطور رول ماڈل پیش کیا جا سکتا ہے اور عام آدمی کا اس پر اعتماد ہے؟ پاکستان کے بہترین میڈیکل کالجز کا بجٹ دیکھا جائے تو وہ بھی بولان میڈیکل یونیورسٹی کے بجٹ کے سامنے کچھ نہیں ہے۔ کنگ ایڈورڈ کالج لاہور کا سالانہ بجٹ ڈیڑھ ارب ہے۔ بولان میڈیکل کالج کو یونیورسٹی بنانا محکمہ صحت کی نہیں بلکہ محکمہ ہائر ایجوکیشن بلوچستان کی ذمہ داری تھی لیکن اس کو بائی پاس کرتے ہوئے یہ خلافِ قانون نیک کام محکمہ صحت نے خود انجام دیا ہے۔