• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

میں حیران، پریشان، بے یقینی کے عالم میں دوبارہ جیب ٹٹولی، بٹوا ہوتا تو ملتا، مجھے یاد، آخری بار یورو ٹرین میں بیٹھنے سے پہلے میلان اسٹیشن پر بٹوے سے پیسے نکالے تھے، مطلب جو کچھ ہوا، یورو ٹرین میں بیٹھنے سے اترنے کے درمیان ہوا، میں نے ٹیکسی کے اندر جھانکا، شاید یہاں گر گیا ہو مگر ندارد۔

اسی لمحے میری نظروں میں خواجہ تنویر، ڈاکٹر غلام صابر، حشمت یار خان، عمران جٹ کے چہرے گھوم گئے، ان چاروں کی وجہ سے مکمل لٹنے سے بچ گیا، پچھلے تین دنوں سے یہ چاروں ایک ہی بات کہے جا رہے تھے ’’جیب کا خیال رکھنا، سب پیسے ایک جگہ نہیں رکھنے، اٹلی میں جیب کترے گینگ اس صفائی سے صفائی کریں کہ پتا تک نہ چلے‘‘۔

چاروں نے ’پیسے ایک جگہ نہیں رکھنے‘ اتنی بار کہا کہ میلان سے روم جانے کیلئے ہوٹل سے نکلتے ہوئے میں نے پیسوں کو چار حصوں میں تقسیم کیا، پینٹ، کوٹ کی 4مختلف جیبوں میں رکھے، حتیٰ کہ بٹوے سے کریڈٹ کارڈ بھی نکال کر کوٹ کی جیب میں رکھ لیا، بٹوے میں شاپنگ رسیدیں اور تھوڑے سے یورو رہ گئے، دوست کام آگئے، نقصان ہوا مگر بڑے نقصان سے بچ گیا، میں نے دوسری جیب سے پیسے نکال کر ٹیکسی ڈرائیور کو دیے اور ہوٹل میں داخل ہو گیا۔

اگلی صبح دیر سے اٹھا، ہوٹل لابی میں کب کا گائیڈ انتظار کر رہا تھا، روم کی 20تاریخی جگہیں، تین گھنٹوں کا ٹرپ، دوپہر ایک بجے ہوٹل سے نکلا، پہلے زیرِ زمین قدیم روم کی جھلک دیکھی، اٹالین بادشاہ وطروریو کا وتریانو مجسمہ دیکھا، مسولینی کا دفتر، وہ کھڑکی بھی دیکھی جہاں کھڑے ہوکر وہ عوام سے خطاب کیا کرتا، ’بوکا دیلا ویری تا‘ عمارت دیکھی، رومن تاریخ بتائے، جب یہ فیصلہ نہ ہو پاتا کہ فلاں وزیر، مشیر، جرنیل، سپہ سالار سچ بول رہا یا جھوٹ تو اسے اِس عمارت میں لایا جاتا، عمارت میں ایک دیوار میں سینکڑوں سوراخ۔

اس شخص کا کسی ایک سوراخ میں ہاتھ ڈالا جاتا، اگر وہ جھوٹا ہوتا تو 15سکینڈ میں اس کا ہاتھ کٹ جاتا، اگر سچا ہوتا تو پندرہ سکینڈ بعد بھی ہاتھ صحیح سلامت، کہا جائے، دوسری طرف جادوگر، کالا علم جاننے والے اور دست شناس بیٹھے ہوتے، جونہی بندہ ہاتھ سوراخ میں ڈالتا، دوسری طرف چند سکینڈ میں ہاتھ دیکھ کر جھوٹ، سچ کا پتا چل جاتا، یقین جانیے، اگر یہ کام آج ہمارے ملک میں ہو تو چند ایک کو چھوڑ کر پور ی قوم ٹُنڈی (ہاتھ کٹی) ہو چکی ہو۔

27سو سال پرانے ’پالاتینور‘ نامی رومن گھر دیکھے، یہ قدیم رومن کے پہلے باقاعدہ گھر، انہی قدیم گھروں سے ملحقہ آج روم کے امرا، طبقۂ اشرافیہ کا جدید رہائشی علاقہ، کیا پُرسکون جگہ، اس علاقے کو ’او تنیو‘ کہا جائے، ایک جگہ ایک لمبی لائن میں لگ کر دو ہزار سال پرانے دروازے کے سوراخ سے قدیم پیٹر چرچ بھی دیکھا۔

عیسائی مذہب کے مطابق اسے دیکھنا ثواب، تھوڑا آگے جا کر تہہ خانوں والی سیکڑوں کنال پر پھیلی حویلی نما ’کاڑا کالہ‘ نامی عمارت دیکھی، یہاں رومن گرم پانی سے نہایا کرتے، اب بھی انفرادی، اجتماعی باتھ روم موجود، چند فرلانگ پر لائن در لائن ’کاتا کومبے‘ (ذبح خانے) دیکھے، یہ چھوٹی چھوٹی تنگ و تاریک وہ عمارتیں جہاں رومن عیسائیوں کو ذبح کیا کرتے۔

ایک کاتا کومبے میں داخل ہو کر اندر چند منٹ گزارے، انہی ذبح خانوں کے ساتھ چرکوما سیمو، جہاں گھوڑوں، گھوڑا گاڑیوں کے مقابلے ہوا کرتے، اسی سے جڑا تیاترو مارشینو یعنی تھیٹرز کی عمارتیں، جہاں ڈرامے ہوا کرتے، اس کے اردگرد کئی دیواریں، حویلیاں جن میں کچھ تو 5ہزار سال پرانی، ویسے تو آپ روم میں چلنا شروع کر دیں، ہر دوسری عمارت 5سو سال پرانی، ہر چوتھی عمارت ہزار سال پرانی اور ہر علاقے میں ایک عمارت ضرور جو دو ڈھائی سو سال یا اس سے بھی قدیم۔

اس دربار کے کھنڈرات بھی دیکھے، جہاں جولیس سیزر کو قتل کیا گیا، سکندر اعظم سے متاثر، دنیا کا پہلا جرنیل بادشاہ، جنرل پومپی کو شکست دینے والے مرگی کے مریض جولیس سیزر کو 15مارچ 44قبل مسیح دربار میں قتل کر دیا گیا، گائیڈ نے ایک اونچی جگہ کی طرف اشارہ کرکے بتایا، یہاں جولیس سیزر کو قتل کیا گیا۔

یہاں سے بروٹس کو یاد کرتا ہوا دکھی دل کے ساتھ نکل کر نامور مجسمہ ساز، مائیکل اینجلو کا بنایا ہوا، فائونٹین دیکھا، ایک بار مائیکل اینجلو سے اس کے پادری دوست نے کہا، کاش تم نے شادی کی ہوتی، تمہارے بچے ہوتے، تمہاری نسل چلتی، تمہارا نام زندہ رہتا، مائیکل اینجلو کا جواب تھا، مجھے شادی کی کیا ضرورت، میں اپنے فن کے ذریعے زندہ رہوں گا، سچ ہی کہا مائیکل اینجلو نے، آج پادری کا کوئی نام بھی نہ جانے مگر مائیکل اینجلو کو پوری دنیا جانے۔

روم کے اردگرد دو ہزار سال پرانی بیس کلومیٹر دیوار کے کچھ حصے دیکھے، پان تھیون نامی دو ہزار سال پرانا وہ چرچ بھی دیکھا جو سو فیصد اپنی اصلی حالت میں، حتیٰ کہ فرش کی ٹائلیں، اندر پڑے لکڑی اور پتھر کے بنچ بھی دو ہزار سال پرانے، تریوی فوارے کا نظارہ بھی کیا۔

جہاں سیاح سامنے دیکھتے ہوئے اپنے سر سے پیچھے کی طرف سکہ اچھال کر تریوی فوارے کے پانی میں پھینکیں، قدیم روایت کے مطابق بندہ جو منت مان کر سکہ پانی میں پھینکے، اگلی مرتبہ یہاں آنے سے پہلے وہ منت (مراد) پوری ہو چکی ہو، میں نے تین سکے پھینکے، تین کیوں، یہ پھر کبھی سہی۔

8سو چرچوں والے روم میں تین دن پلک جھپکتے گزر گئے، یہاں یہ بھی بتاتا چلوں روم میں رومیوں، چرچوں کے علاوہ ہر جگہ جو چیز دکھائی دے وہ بنگلا دیشی، روم میں 60 ہزار بنگلا دیشی، ویسے اٹلی میں پونے 2لاکھ پاکستانی بھی اور 380 پاکستانی اٹلی کی جیلوں میں۔

 تین دن روم میں گزار کر اگلی منزل دوست خواجہ تنویر کا سوئٹزر لینڈ اور اس بار بھی خواجہ صاحب کے پاس زیورخ جانے سے پہلے سوئٹزر لینڈ کے نتھیاگلی انٹر لاکن گیا، دوپہر وہاں گزاری، شام کو زیورخ پہنچا اور پھر اگلے دو دن زیورخ کی گلیاں، بازار تھے اور میں تھا، یہاں مجھے پاکستان فیڈریشن اٹلی کے صدر بشیر امرہ کی محبتوں کا بھی شکریہ ادا کرنا۔

پاکستانیت سے لبالب بھرا دوستوں کا یہ دوست کمال کا انسان، بشیر کے ساتھ امرہ اس کے گاؤں کا نام جو ڈنگہ گجرات کے قریب، دوستو! واپسی کا سفر شروع ہو چکا، یہ چند سطریں زیورخ ایئر پورٹ پر بیٹھ کر لکھیں، سوموار کو جب کالم چھپے گا، اسی دن میں بھی پاکستان میں، تو ملتے ہیں دل دل پاکستان میں۔

تازہ ترین